گھریلو صارفین سے کمرشل سے دگنا تگنا گیس بل کیسے ٹھگا جا رہا ہے؟


سوئی گیس کے جیب خالی کر دینے والے بلوں کی آمد نے متوسط طبقے کو معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اوگرا کا نیا ٹیرف ہے جو گھریلو صارفین کو تھوڑی سی زیادہ گیس استعمال کرنے پر اس کی قیمت کمرشل صارفین سے دگنی لگاتا ہے۔ پچھلے ٹیرف میں تین سو یونٹ سے زائد پر گیس کا ریٹ 600 روپے فی mmbtu تھا جبکہ کمرشل گیس کا ریٹ سات سو mmbtu تھا۔ اب تین سو سے اوپر اور کمرشل دونوں سات سو اسی ہیں۔ لیکن گھریلو صارفین چار سو سے زائد استعمال پر چودہ سو ساٹھ روپے فی mmbtu دیں گے جو کمرشل ریٹ سے بھی دگنا ہے۔

1 پرانا اور نیا ٹیرف

اوگرا کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ گیس اس گھر میں سے لیک ہو گئی ہے، اس گھر میں کتنے نفوس قیام پزیر ہیں (جو کہ غریبوں کے گھر میں جوائنٹ فیملی کی وجہ سے زیادہ ہی ہوتے ہیں ) وغیرہ۔ بس اگر آپ نے تین سو یونٹ خرچ کر دیے تو آپ کمرشل کا ریٹ دیں گے اور اگر تھوڑا ہیٹر یا گیزر سردی کی شدت کی وجہ سے زیادہ چلا بیٹھے تو کمرشل سے تقریباً دگنا ریٹ۔ اب گھریلو صارفین جانے کس جرم کی سزا پا رہے ہیں کہ ان کے لیے گیس کمرشل اور انڈسٹری سے دگنی مہنگی کر دی گئی ہے۔

گیس ٹیرف بجلی کی طرح نہیں کہ صرف ان یونٹوں پر مہنگا ریٹ لگے جو ایک حد مقررہ سے اوپر ہوں بلکہ نیا ریٹ پہلے یونٹ سے لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے عملی طور پر 301 واں یونٹ سات ہزار اور 401 واں یونٹ تقریباً دس ہزار کا پڑتا ہے۔ اس لئے صارفین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے میٹر پر نظر رکھیں اور اسے تیس دن میں تین سو سے ہرگز کراس نہ کرنے دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بل چار ہزار تک آئے۔

لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ خالی میٹر دیکھنا کافی نہیں کیونکہ گیس کمپنیاں اس ریٹ پر بھی خوش نہیں اور انہوں نے ایک دو نمبر طریقہ پریشر فیکٹر کے نام کا بھی رکھا ہوا ہے جس سے وہ میٹر کے یونٹوں میں پندرہ فیصد تک اضافہ کر دیتے ہیں تو بھلے آپ دو سو ننانوے پر یونٹ روک کر خوش ہو رہے ہوں لیکن بل پر کمپنی ایک پرسرار سی رقم کو میٹر کے یونٹوں سے ضرب دے کر اسے تین سو بیس یا زیادہ میں بدل دے گی اور آپ کا بل چار سے گیارہ ہزار ہو جائے گا۔

یہ پریشر فیکٹر کیا ہے اور اس کی اجازت ان گیس کمپنیوں کو کیوں ہوتی ہے اور اس کا تعین کیسے کیا جاتا ہے، ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے جو میں کوشش کرتا ہوں کہ آسان الفاظ میں بتا سکوں۔ دراصل گیس اپنی حرارت کی بنیاد پر بیچی جاتی ہے لیکن اس کے میٹر گیس کا حجم ناپتے ہیں کیونکہ ایسے میٹر جو گزرتی گیس کی حرارت ماپ لیں بہت مہنگے ہوتے ہیں اور گھروں اور چھوٹے کاروباری یونٹوں میں استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ حجم hm 3 یعنی کہ ہیکٹومیٹر کیوب میں ناپا جاتا ہے اور حرارت mmbtu میں۔

حجم کو حرارت میں بدلنے کے لئے گیس کی حرارت جسے گراس کیلوریفک ویلیو GCV کہا جاتا ہے، کو سیلز میٹر سٹیشن میں نصب پراسس گیس کرومیٹروگراف process gas chromatograph نامی مشین سے ایک خاص پریشر اور درجہ حرارت پرگزرتی گیس پر مسلسل ناپا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ ساٹھ ڈگری فارن ہائیٹ اور 14.65 پاؤنڈ فی مربع انچ ہوتی ہے اور اسے بیس base پریشر کہا جاتا ہے۔ جی سی وی پاکستان میں btu/standard cubic feet میں ناپی جاتی ہے یعنی کے ایک سٹینڈرڈ مکعب فٹ میں حرارت کی مقدار۔ بعد میں جتنے بھی سٹینڈرڈ مکعب فٹ میٹر سے ناپے جاتے ہیں ان کو جی سی وی سے ضرب دے کر کل صرف شدہ حرارت کی مقدار مل جاتی ہے۔

یہاں پر ایک ٹیکنیکل مسئلہ آ جاتا ہے کہ گیس کا حجم درجہ حرارت اور پریشر سے بڑھتا یا کم ہوتا ہے۔ گھریلو میٹر درجہ حرارت کی تبدیلی کو تو کنٹرول کر لیتے ہیں لیکن ان کی پیمائش گیس کے پریشر کے ساتھ بدلتی ہے۔ لہذا میٹر کے نیچے ایک ریگولیٹر لگایا جاتا ہے جسے ایک خاص پریشر جو کہ گھروں میں عموماً ہوا کے دباؤ سے چوتھائی پونڈ فی مربع انچ یا آٹھ انچ پانی کے کالم زیادہ پر سیٹ رکھا جاتا ہے جسے گیج پریشر کہتے ہیں۔ اس پریشر کی ایڈجسٹمنٹ کے لئے ایک مینومیٹر manometer نام کا گیج استعمال کیا جاتا ہے جو ہوا کے دباؤ کو ریفرنس استعمال کرتے ہوئے گیس کا دباؤ ناپتا ہے۔ لہٰذا ٹوٹل گیس کا دباؤ، ریگولیٹر اور بیرونی ہوا کے دباؤ کو جمع کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4