الہ آباد میں ادیبوں کی کہکشاں


مارچ 2019 کی 16۔ 17 دو ایسی تاریخیں تھیں جن میں انجمن ترقی پسند مصنفین، یوپی کے ہندی ورژن ”پرگتی شیل لیکھک سنگھ“ کی دوروزہ کانفرنس کا انعقاد شہر اکبر واور ادیبوں کی کہکشاں الہ آباد میں ہوا۔ اس کانفرنس کے انعقاد کی تاریخوں سے پہلے کی بات ہے کہ ایک دوپہر PWAاترپردیش کے نائب صدر اور معروف افسانہ نگار، سابق استاد و ماہر تعلیم اسرار گاندھی صاحب کا ایک فون آیا۔ جس میں مجھے مذکورہ پروگرام کے متعلق اطلاع دی اور مجھے حکم دیا میں اس میں شرکت کروں (پھر چند دیگر باتیں بھی ہوئیں، جنھیں بین السطور ہی سمجھاجائے ) میں نے ہامی بھرلی اور مقررہ دنوں کے ریٹرن ٹکٹس لے لیے۔

روانگی کا ٹکٹ ”پریاگ راگ ایکسپریس“ کی ٹرین نمبر۔ 12418 کا تھا جو نئی دہلی ریلوئے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 16 سے اپنے متعینہ وقت 21 : 20 پر روانہ ہوئی۔ پریاگ راج ایکسپریس اپنی دیگر خوبیوں، مثلاًتیزرفتاری، وقت کی پابندی اور فرض شناسی کے علاوہ شہر الہ آباد کی تقدیس، ثقافت، تہذیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، وہاں کی انتظامی اور تاریخی ترقیوں کی ترجمانی کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ جیسے ہی اس پر نظر پڑتی ہے، شہر الہ آباد کے برج، تاریخی مقامات، مندر، مسجد، چرچ اور دیگر مذہبی مقامات، ہوٹلس، تعلیمی و تکنیکی اداروں کے نقوش سرخ سرخ کلر اسکیم میں ابھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسے نئی دہلی میں الہ آباد کا سفیر بھی کہا جاسکتا ہے۔

بہر حال ٹرین پلیٹ فارم پر لگی اور میں اپنے کمپارٹمنٹ میں چڑھ کراپنی سیٹ ڈھونڈنے لگا۔ سیٹ یعنی اَپر سائڈ برتھ مل جانے پر اپناسامان ہنگرکیا اور ریل انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ بیڈشیٹ، تکیہ و چادر بچھاکر نیم دراز ہو گیا۔ ابھی ٹرین کی روانگی میں چند منٹ باقی تھے۔ لہٰذا میں نے بیگ میں رکھے صادقہ نواب صحر کے ناول۔ ’جس دن سے۔ ‘ ۔ کا مطالعہ شروع کردیا۔ ابھی بہ مشکل چار صفحات پڑھے ہوں گے کہ ٹرین ہلکے سے پش کے ساتھ ٹریکس پر پھسلتی چلی گئی۔

غازی آبادتک تو اس کی رفتار کم ہی رہی مگر جیسے ہی صاحب آباد اسٹیشن گزرا، جانے اسے کیوں غصہ آگیا۔ اب کی بار جو اس نے ہنکار بھری ہے تو پھر کیا اندھیرا اور کیا فاصلے، سب اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے، مگر اس نے کسی کی جانب نہ دیکھا اور آنکھوں میں مزید سرخی اور سینے میں مزید حوصلے بھر تے ہوئے وہ ایسے دوڑتی رہی جیسے کوئی معرکہ سرکرنے جارہی ہو۔ ہاں! معرکہ ہی تو سرکرنے جارہی تھی۔ اسے صبح کی اولین ساعات میں ہی دہلی سے الہ آباد تک کا 637 کلومیٹر کاسفر طے کرنا تھا۔

وہ 64 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑرہی تھی۔ ممکن ہے کھلی اور جنرل بوگیوں میں اس کی آواز ہڑک ہڑاک، پھٹک پھٹاک، سڑک سڑک، کھٹٹ کھٹٹ سنائی دے رہی ہو مگر ایئرکنڈیشن بوگیوں میں تو صرف ہُرگھُر ہُر گھُر ہی سنائی دے رہی تھی۔ جیسے کوئی ماں دن بھر کھیل کود کر تھکے بچے کو ہلکے ہلکے کان میں لوریاں سناتی ہو، جسے سن کر بچہ کروٹ بد ل کر سوجاتا ہے اور ماں کے جگر کو سکون سا مل جاتا ہے۔ میں نے بھی کروٹ بدلی اور اپنی ماں کو یاد کرکے سوگیا۔ رات بہتی ہی جارہی تھی اور اندھیرے اپنے خیمے گاڑتے جارہے تھے۔

الہ آباد میں ورُود

اس وقت 7 : 30 بج رہے تھے جب پریاگ راج ایکسپریس، الہ آباد ریلوے اسٹیشن پر پہنچی، یعنی اپنے وقت مقررہ سے 15 منٹ کی تاخیرسے۔ مگر اس تاخیر کو معاف کردیا گیا۔ کیوں کہ یہ قابل معافی ہی ہے۔ آپ سے بھی معافی کی درخواست ہے۔ اب میں ادیبوں کی کہکشاں، الہ آباد اور ان کے دم سے تابندہ اجالوں کے حصار میں تھا۔

میں اسٹیشن سے سول لائنس کی جانب نکلا۔ چوں کہ مجھے اسرار گاندھی صاحب نے اسی جانب نکلنے کا حکم دیا تھا۔ میں جیسے ہی ریلوے فٹ برج کی سیڑھیوں سے مین روڈ پر آیا تو اسٹیشن کے باب الداخلہ پر اردو۔ ہندی۔ انگلش۔ تینوں زبانوں میں ”الہ آباد“۔ ”ALLAHABAD“ لکھا دیکھ کرجی خوش ہوگیا۔ خوشی اس بات کی تھی کہ شہر مذکور کی نام تبدیلی کی آندھی میں بھی یہ نام باقی رہ گیا۔ حالاں کہ وہ طوفان ایسا اٹھا تھا کہ الہ آباد اور آس پاس کے 8 سے 10 برس کے بچوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات بیٹھ گئی کہ اس شہر کا نام پہلے ”پریاگ راج“ ہی تھا جسے ’بد ل‘ دیاگیا۔ (اس کے بعد بہت سی غلط سلط باتیں، جو اُن معصوموں کے اذہان میں ڈال دی گئی ہیں )

شہر کے باب الداخلہ سے ہی خوشیاں سمیٹتا ہوا میں ایک ای۔ رکشے ( چنگ چی ) میں بیٹھ کر سادھناسدن پہنچا جہاں پروگرام میں شرکت کی غرض سے آنے والے مہمانوں کے قیام کا انتظام تھا۔ سادھنا سدن ’۔ ۔ ایک‘ مشنری ’کیمپس ہے۔ اس میں ایک چھوٹا سا چرچ اور مشنری کے دیگر دفاتر واقع ہیں۔ عمارتیں لال گیروے رنگ سے رنگی ہوئی اور دو دوتین تین منزلہ ہیں۔ صحن، دالان اور آنگن موسم کے پھول پتوں سے لہلہا تا ہے۔ صبح کے وقت وہ منظر بہت ہی خوب ہوتا ہے جب شبنمی قطرے موتی بن کر پھولوں کی زیب وزینت بڑھاتے ہیں۔

’سادھناسدن‘ کے بالمقابل ہی ’سینٹ جوزف، کالج‘ تھا، جس کے ہوگین ہال میں مذکورہ پروگرام ہورہا تھا۔ ضروریات اور ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر میں کالج ہی چلا آیا۔

آج اتوار تھا اور کالج کے اکثر حصوں میں سناٹے پسرے ہوئے تھے۔ ہاں بس اس کے اسٹیڈیم میں کالج کی دوٹیموں کے درمیان کرکٹ مقابلہ ہورہا تھا۔ میں، مین کیمپس کی خوب صورتی، انتظام و انصرام، سجاوٹ و قرینہ سازی دیکھتا ہوا اُدھرہی چلا گیا۔ جیسے ہی اسٹیڈیم کی نشیب میں جانے والی سیڑھیاں اترنے لگا، میری نظردائیں جانب کھڑے آرمی ٹینک اور ایف 21 مگ طیارے کے موڈیولس پر پڑی۔ میں بس آنکھیں پھاڑ کر ہونٹوں کو گول کرکے ہی رہ گیا۔ ’آل ازویل‘ نہ بول سکا۔ پتا نہیں کیوں۔ ؟ (خیر چھوڑیے یہ میرا مسئلہ اور ذہنیت ہے، آپ کیوں الجھیں اس میں! )

پروگرام ہال میں

کرکٹ مقابلہ زروں پر تھا۔ کریز سج گیا تھا اور فیلڈرس فیلڈ میں اپنی اپنی پوزیشنس سنبھال چکے تھے۔ بولرنے تیسری بول ہلکے سے رَن اپ (run۔ up) ایمپائر کو کراس کرتے ہوئے مڈ وکٹ سے پھینکی تو بیٹس مین غلطی کرکے تھرڈ مین کوکیچ دے بیٹھا۔ ’اوہ‘ ۔ اس کے ہونٹ انٹرنیشنل کھلاڑی کی طرح گو ل ہوئے اور ان کی ہی طرح پوز دینے لگا۔ مخالف ٹیم کے کھلاڑی بھی ان ہی کی طرح ”وکٹ کیپنگ“ کی خوشی سلبریٹ کررہے تھے۔ میں اسی نظارے میں محو تھا کہ دہلی سے ایک دوست کا فون آیا۔

علیک سلیک اور رسمی بات چیت کے بعد میں پروگرام ہال میں چلا آیا، جہاں الہ آباد کی IPTA کے چند ممبران، ”مارکس“ کی زندگی پر مشتمل ایک پلے پیش کررہے تھے۔ گویا پروگرام کی ابتدا ہوچکی تھی۔ ابھی ہال کی کچھ کرسیاں خالی تھیں مگر کچھ ہی عرصے میں ہال بھرتا چلا گیا۔ یہ بات جہاں الہ آباد کے شائقین کی دل چسپی کا مظہر ہے وہیں اس پروگرام کی اہمیت و افادیت کی شہادت بھی دیتی ہے۔ ایسا نظارہ مجھے دوسرے مقامات پر کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ مگر الہ آباد کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ جس کی مٹی میں ہی ادب اور ادیبوں کے تئیں اہمیت و احترام کے جذبات رچے بسے ہیں۔

ٹی بریک اورچند ادیبوں سے ملاقات

IPTAکا ڈرامہ ختم ہوا تو چائے کے وقفے کے لیے 15 منٹ کی چھٹی ملی۔ میں بھی سب لوگوں کے ساتھ باہر آیا۔ باہر دھوپ اچھی طرح سے کھل چکی تھی اور پروگرام کے حاضرین و شائقین کی گہماگہمی نے اسے یقین میں بد ل دیا تھا۔ ابھی میں چائے لینے ہی والا تھا کہ اسرار گاندھی صاحب پر نظر پڑی، میں سب کچھ چھوڑچھاڑ کر ان کے پاس چلا آیا۔ وہیں دیکھا تو PWAکے کل ہند کارگزار صدر پروفیسر علی جاوید بھی موجود تھے۔ اسی طرح چند ایک اردو ادیب و شائقین بھی جن میں۔

’اندھیروں کے مسافر‘ ۔ ناول کے مصنف احمد حسنین صاحب بھی تھے۔ یہیں اسرار گاندھی سر نے میری ملاقات ہندی ادب کی معروف مصنفہ، مفکر اور اس پروگرام کی روح رواں محترمہ ”نیلم شنکر“ جی سے کرائی۔ آپ نہایت سلیس، نستعلیق، سنجیدہ، فرض شناس خاتون ہیں (یہ میرا مشاہد ہ ہے ) تپاک سے ملیں اور فیس بک آئیڈی کا تبادلہ کرتے ہوئے انتظام و انصرام کی ذمے داریاں ادا کرنے چلی گئیں۔ یہیں پروفیسر سنتوش بھدوریا جی سے بھی ملاقات ہوئی جو اتر پردیش پرگتی شیل لیکھک سنگھ کے صدر ہیں۔ یہ پروگرام ان کی ہی محنتو ں اور کوششوں کا نتیجہ تھا۔

پروگرام کی دوسری نشست اور میری پیش کش:نئی صدی میں کہانی کے کھلتے در۔ !

15 منٹ ختم ہوئے اور شائقین و حاضرین جلسہ گاہ میں اپنی اپنی نشستوں کی جانب چلنے لگے۔ پانچ منٹ کے اندر اندر پروگرام دوبارہ شروع ہوگیا۔ ناظم پروگرام محترمہ ”اوشا رائے“ نے ابتدائی تقریر کرنے کے بعد اس نشست کے پینل کو مدعو کیا جس میں مجھ سمیت شیکھر ملک، جتندر وساریا، دیپک سریواستو، سونی پانڈے، ہر چرن پرکاش اور پریہ درشن مالویہ تھے۔ ہم لوگ شہ نشین پر بیٹھے اور پھرہمیں ایک ایک کرکے ڈائز پر بلایا جانے لگا۔ اس وقت ہم میں سے شاید سب کی یہ ہی حالت ہوگی:

سوئے مقتل جاتے ہیں یا کوچہ دل دار ہم
کچھ نہ ہم سے پوچھیے ہے دل کا عالم اَور اَور

مگر ہم میں سے ہر ایک کا خوف اس وقت جاتا رہا جب سامعین کو ہمہ تن گوش اور اپنے تمام اعضا و جوارح سمیت ہماری جانب متوجہ پایا۔ بس پھر کیا تھا۔ دس دس منٹ میں ہر ایک نے علم و عرفان کے دریا بہادیے۔ ہمارے صدور حضرات نے تو اس روانی میں مزید اضافہ کردیا ان کی یہ دریا روانی دیکھ کر درمیان میں الیکٹرسٹی کو بھی جھٹکے لگنے لگے۔ مگر اس کی کسے پروا تھی گویا:

بجلی رہے نہ رہے، ہم توبھیا بولیں گے

یہ پروگرام ختم ہوا اور لنچ کے لیے چھٹی ملی۔ لنچ کا انتظام کالج میں ہی تھا۔ جس میں پوری، سبزی، زیرہ چاول، مکھن روٹی اور کھیر شامل تھی۔ پرتکلف کھانا، شاندار طریقۂ تقسیم اور مناسب انتظام، کس کس کی تعریف کی جائے، سب کچھ ہی بہت خوب اور بہت اچھا تھا۔

لنچ کے بعد ایک شعری نشست ہوئی جس میں کچھ دیر شرکت کے بعد میں اور اسرار گاندھی صاحب، اُن کی رہائش گاہ، واقع کرامت کی چوکی، کریلی چلے آئے۔ کالج کے باہر ہی ان کی اسکوٹی پارک تھی۔ جسے انھوں نے ہی ڈرائیو کیا اور پھر مختلف چوک، چوراہوں، گلیوں، کراسنگ، روڈ برجز (Road Bridges) سے ہوتے ہوئے ہم لوگ گھرپہنچے۔ میری دونوں آنکھیں چار چار آنکھوں کا کام کررہی تھیں بلکہ معمول سے زیادہ کشادہ ہوکر ماحول، شہر، افراد، نظاروں اور تعمیر و تشکیل کے مناظردیکھ رہی تھیں اور زبان حال و قال میں مصروف تھی۔

حسنیٰ انٹی سے ملاقات

گھر پہنچنے کے بعد اسرار گاندھی صاحب نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ میں نے اپنا ”بیک بیگ“ ایک صوفے کی سائڈپر رکھا۔ سر پانی لائے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک خاتون بھی چلی آئیں۔ سر نے بتایا یہ تمھاری انٹی ہیں ’حسنیٰ! ‘ ۔ حسنیٰ واقعی حسنیٰ ہیں، یعنی حسن سلوک، مہمان نوازی، مہربانی اور کرم نوازی کی خوبیوں سے مالا مال۔ اسم بامسمٰی بلکہ اس سے بھی ماسوا۔ مجھے ان کا نام سن کر ریاست کرناٹک کی معروف افسانہ نگار ”حسنیٰ سرور“ کی یاد آگئیں۔

حسنیٰ سرور، جدید افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ایک اہم نام ہے۔ انھوں نے علامت اور تجرید جیسے الجھن والے رجحان کے خلاف افسانہ نگاری کے مہم میں کرناٹک کے جدید افسانہ نگاروں کے شانہ بشانہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قصہ مختصر۔ کچھ دیر بعد حسنیٰ انٹی سے مانوسیت بڑھتی چلی گئی۔ وہ ایک مہربان ماں کی طرح پیش آتیں اور میری کوشش رہی کہ مختصر مدت تک ہی سہی میں ان کا بیٹا بن کر رہوں۔

اب دوپہرڈھلتی جارہی تھی، اعصاب آرام کے خواہش مند تھے۔ اسرار گاندھی سر نے اسے قبل ازگفتن محسوس کیا اور ایک گیسٹ روم کے بیڈ پر چادر بچھادی۔ میں شام ڈھلے تک سوتا رہا۔ سورج غرو ب ہورہا تھا جب بیدا ر ہوا۔ سر میرے آس پاس ہی رئٹنگ ٹیبل کے صوفے پر بیٹھے تھے۔ مجھے بیدار ہوتے دیکھ کر جلدی سے فریش ہونے اور منہ ہاتھ دھونے کا کہہ کر چائے لینے چلے گئے۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ چائے پی کر ہم لوگ بذریعہ کار شہر کی سیر کو چل پڑے۔

چودھری ابن النصیر سے ملاقات

شہرالہ آباد میں یوں تو متعدد اصحاب علم وفکر کی گلیکسی موجود ہے مگر ایک صاحب سے مل کر علمی وقعت و اہمیت کا اندازہ اپنے تئیں ہوا۔ ان کا نام نامی ہے چودھری ابن النصیرصاحب۔ آپ کا آبائی تعلق آسنسول (مغربی بنگال) سے ہے۔ تاہم ابھی برسو ں سے الہ آباد میں مقیم ہیں۔ آپ کتابوں کے دل دادہ، رسائل و جرائد کے واقف کار اور اردو اصناف بالخصوص فکشن کے خواندہ اور قدردان اور ایک سہ ماہی رسالے ’پہچان‘ کے مدیر ہیں۔ ان سے کتنی ہی باتیں فکشن، فکشن کے خدو خال، مجموعی صورت حال، ہندوپاک کے فکشن رائٹرس کے تعلق سے ہوئیں۔ تقریباً 80 منٹ کی اس ملاقات میں، میں نے اپنے کشکول علم کو خوب ہی بھرا۔

اب رات پوری طرح ماحول پر اپنا تسلط قائم کرچکی تھی۔ جس کے خلاف کچھ بلبس، ٹیوب لائٹس اور اسٹریٹ لائٹس کے فوکس فلیش جدوجہد کررہے تھے مگر ان کی یہ جدو جہد خوداُن تک ہی محدود اوران کے اجالوں کی ترسیل تو محض آس پاس کے کچھ دائروں تک ہی تھی۔ ہم دونوں نے چودھری صاحب سے رخصت کی اجازت چاہی، انھوں نے اجازت دی اور ہم لوگ چلے آئے۔ شام کا کھانا کھایا گیا اس کے بعد چند ضروری امور طے کرکے سونے کی تیاری کرنے لگے۔ ان امور میں سب سے اہم امر یہ تھا کہ کل چھے بجے شام میں ایک ادبی محفل کا انعقاد کیا جائے جس میں افسانہ خوانی، شعرو شاعری کے ذریعے ایک غیر رسمی اعزاز ہو اسے گیٹ ٹوگیدر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس پلاننگ مجلس میں ہمارے ساتھ الہ آباد یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد ریحان بھی تھے۔ اس کے لیے شہر کے چند ادب نوازوں سے اسرارگاندھی سر نے بات کی۔ ان کی رضا مندی ملنے کے بعد پروگرام طے ہوگیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2