ممی کی ڈائری: ممی اور بچوں کی پڑھائی


محمد کی دو ہفتے کی سکول سے چھٹی کیا ہوئی جیسے سارے کا سارا سسٹم ہی تہس نہسں ہو گیا۔ شدید بیماری کی وجہ سے محمد دو ہفتے سکول نہ جا سکا اور جب مکمل طور پر ٹھیک ہو کر واپس گیا تو گریڈ ٹو کا محمد کلاس سے پورا دو ہفتے پیچھے تھا۔ کلاس بھی وہ جو سارا سبق سکول سے یاد کر کے آتی تھی جسے صرف ہفتے کے آخر میں اک ذرا دہرائی کی ضرورت تھی۔ سمسٹر سسٹم کے تحت چلنے والے سکول میں ہر ماہ امتحانات دینے تھے۔ اگلے ہی ٹسٹس کا رزلٹ خراب ہو گیا، سکول سے فون آنے لگے۔

ایکسٹرا کلاسز کا آغاز ہو گیا۔ ایک دم ہی محمد کی پوزیشن بے تحاشا لڑھکتی چلے گئی تھی ایسی کہ سنبھالے نہ سنبھلتی تھی۔ کوشش کے باوجود نہ صرف اس کی پرسنٹیج خراب ہوتی گئی بلکہ وہ ضرورت سے زیادہ شرمیلا اور ڈرپوک ہوتا چلا گیا۔ میں گھر میں کوشش کرتی اسے پڑھانے کی، سکول میں اساتذہ نے پورا سمسٹر ایکسٹرا کلاسز دئیں۔ اور دو ہفتے کی غیر حاضری کا نقصان کہیں جا کر چار سے چھ ماہ میں ختم ہوا۔

کیا وہ سب تعلیم کا نقصان تھا؟

نہیں! وہ اس ایک نقصان سے پھوٹنے والے بہت سے نقصانات کا ایک مجموعہ تھا۔ جب تک ہمیں صورتحال کی سنجیدگی کا اندازہ ہوا محمد کا اعتماد بالکل ختم ہو چکا تھا۔ چھٹیوں سے واپسی پر روذانہ سبق سمجھنے میں مشکل اور نہ کر پانے پر ملنے والی پے در پے شرمندگی اس کو پیچھے دھکیلتی رہی تھی۔ بچے بدلتی ہوئی نگاہ بھی فورا محسوس کرتے ہیں۔ یہ تو بہت بڑا فرق تھا جو اس کی زندگی میں آ گیا تھا۔

اساتذہ اور کلاس فیلوز کی جھنجھلاہٹ اور مذاق اس کے لئے مسلسل پریشانی کا باعث تھی۔ مجھے ایک دم ادراک ہوا تھا کہ محمد ایک عام سا بچہ بن چکا تھا۔ اب ٹیچرز سے ڈرتا تھا اور پیچھے پیچھے چھپتا تھا۔ اور ممی ہی جانتی ہے کہ یہ احساس کس قدر تکلیف دہ تھا۔ میں اس کی مجبوری جانتی تھی اور اپنے مسائل بھی۔ پچھلے کچھ ماہ میرے لئے اس لئے بہت تکلیف دہ تھے کہ میرے سامنے ایک ایسا چیلنج تھا جس کے پار کسی نہ کسی طرح بغیر کسی نقصان کے ہمیں اترنا تھا۔

میں نے محمد کو پڑھانے کی کوشش کی تو سب سے پہلا احساس اس کے شدید ڈیپریشن کا ہواتھا۔ کلاس میں روز روز کی ناکامی سے وہ یقین کر چکا تھا کہ ”مجھے نہیں آتا! “ میں اسے پڑھانے اور سمجھانے کی کوشش کرتی تو وہ ضد کرتا کہ

”I don ’t know“

مجھے اس کو صبر سے سننا اور پیار سے منانا پڑتا۔ میں نے اس پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ ممی جانتی تھی وہ بہت پیچھے چلا گیا ہے زیادہ پریشر سے وہیں نہ رہ جائے کہیں۔ مجھے اسے واپس اپنی جگہ پر لانا تھا چھوٹی چھوٹی کامیابی دکھا کر، چھوٹا چھوٹا سا سبق یاد کروا کر اسے پھر سے احساس دلانا تھا کہ

He knows!

، وہ جانتا ہے اور کر سکتا ہے۔ یہ بہت مشکل اور صبر آزما مرحلہ تھا۔ محمد ضد کرتا، چیختا چلاتا ”مجھے نہیں آتا! “ میں بہلا پھسلا کر اسے تھوڑا تھوڑا یاد کروانے کی کوشش کرتی۔ بچہ روز سبق نہ سنا سکے تو اساتذہ جتنے بھی شفیق ہوں سزا بھی دیں گے اور ان کے تیور بھی بدلیں گے، درجہ دو کے بچے بھی سیانے نہیں ہوتے، ساتھی کلاس فیلوز کی ناکامی پر ہنستے بھی ہیں مذاق بھی اڑاتے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار بچہ پیچھے سے پیچھے لڑکھتا چلا جاتا ہے۔ محمد انہیں سب کا شکار ہو چکا تھا۔ مجھے محمد پر کئی ہفتے لگانے پڑے۔ غصے سے پرہیز کر کے، بہت ہی چھوٹے چھوٹے ٹارگٹ سیٹ کر کے، اسے اس احساس سے بغیر احساس دلائے نکالنا تھا کہ وہ کس قدر پیچھے جا چکا تھا۔ اور یہی سب سے بڑا چیلنج تھا۔

چھوٹے چھوٹے بچوں کی قابلیت ان کے والدین کی قابلیت ہوتی ہے۔ کم سے کم گریڈ چار سے پہلے بچہ خود کچھ نہیں کر پاتا۔ والدین خود اسے ساتھ بیٹھ کر نہیں کروائیں گے تو بچہ نکما ہوجائے گا۔ والدین خود ذمہ داری لے کر سب کام کروائیں گے تو آپ کا بچہ لائق ترین ہو جائے گا۔ یہی فرق ہے تعلیمی میدان میں پیچھے رہنے والے اور آگے نکلنے والے بچے میں : پیچھے رہنے والا تنہا ہوتا ہے اور جیتنے والے کے ساتھ اس کے والدین ہوتے ہیں۔

اس عرصے میں میں نے جانا کہ محمد کا ارتکاز اس کی بہنوں جیسا نہیں جو پوری توجہ سے پڑھتی تھیں۔ ۔ شاید یہ فرق بیٹا ہونے کی وجہ سے ہے کہ وہ بہت زیادہ کتاب پر فوکس نہیں کر پاتا، کھیلتا ہوا، ہاتھ بازو ہلاتا پڑھے گا، اور مجھے اسے ایسے ہی یاد کروانا تھا یا شاید اس وجہ سے ہے کہ میں اسے اس ارتکاز توجہ سے پڑھا نہ سکی جیسے میں نے اپنی بیٹیوں کو پڑھایا۔ کیسے؟ یہ تھوڑی دیر سے بتاتی ہوں۔ کئی ہفتے لگا کر تھوڑا تھوڑا کر کے چار ماہ میں محمد واپس اپنی پہلی پوزیشن میں آیا۔ آہستہ آہستہ اس کے ذہن سے یہ خیال مدھم ہوا کہ ”مجھے نہیں آتا“ اور اس کی جگہ اس احساس نے لی کہ اسے سب کچھ آتا ہے۔ وہ پھر سے اعتماد سے مسکرانے لگا، دوستوں کے ساتھ کھیلنے لگا اور ٹیچرز کے سوالات کے جواب دینے لگا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3