’’عہد جدید کے بہزاد کا ’’کارخانہ‘‘


کیا آپ جانتے ہیں کہ گلہریوں کا مصوری سے گہرا تعلق ہے‘ اگر خدانخواستہ گلہریاں نہ ہوتیں تو ایک مخصوص قسم کی مصوری بھی نہ ہوتی۔ اور مصوری کا لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے گہرا تعلق ہے۔

یوں دراصل گلہریاں اور نیشنل کالج آف آرٹس یعنی این سی اے لازم و ملزوم ہیں اور ہاں یہ وہ گلہریاں نہیں جو این سی اے میں عجیب و غریب پیرا ہنوں میں ملبوس فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں بلکہ یہ سچ مچ کی بڑے دانتوں اور دبیز دموں والی اخروٹ کٹکٹاتی گلہریاں ہیں جو باغوں وغیرہ میں ملتی ہیں۔

این سی اے اور گلہریوں کا آپس میں کیا تعلق ہے اسے جاننے کے لئے آپ کو تھوڑا سا انتظار کرنا ہو گا۔ ایک زمانہ تھا جب کاروبار حیات کے علاوہ جتنا بھی وقت ہوتا تھا وہ ٹی ہائوس اور این سی اے میں گزرتا تھا۔ ٹی ہائوس میں ادب کی پیاس بجھتی تھی اور این سی اے میں ذوق جمال کی آبیاری ہوتی تھی۔

بنیادی طور پر میری دوستی آرکی ٹیکٹ تنویر حسین اور مصور سعید اختر کے ساتھ تھی لیکن شناسائیاں اور یاریاں سب کے ساتھ تھیں۔ سٹل لائف کے باکمال مصور محمد آصف سرامک یعنی ظروف سازی کے دبیر طلعت ‘ سلمیٰ ہاشمی جنہوں نے سعید اختر کے ساتھ مل کر میرے سفر نامے ’’اندلس میں اجنبی‘‘ کا منفرد سرورق تخلیق کیا۔

نیر علی دادا۔ خالد اقبال اور پھر میرا بچپن کا دوست اور سکول فیلو عسکری میاں ایرانی۔ اقبال حسن‘ احمد خاں‘ افتخار احمد وغیرہ اور ان میں سے بیشتر بعد کے زمانوں میں ملکی اور بین الاقوامی شہرت کے عروج پر پہنچے۔ میرا ایک پڑائو این سی اے کے آڈی ٹوریم کے پہلو میں واقع سعید اختر کا سٹوڈیو ہوا کرتا تھا اور جب وہاں سے نکلتا تو اکثر شام اتر رہی ہوتی اور اس عمارت کے ایک قدیم کمرے میں گویا پہلا چراغ جل اٹھتا۔ روشنی نظر آنے لگتی۔

اس کمرے میں نورجہاں کے مقبرے کی مانند دن کے وقت بھی شب کی سیاہی کا ساماں ہوتا اور شب میں بھی ایک دھیمی بجھی بجھی سی روشنی اس کے درودیوار پر جھلملاتی رہتی۔ یہ این سی اے کا سب سے پراسرار کمرہ تھا اس لئے بھی کہ اس کے اندر داخل ہوتے ہی انسان موجودہ زمان و مکاں سے ماورا ہو کر قدیم زمانوں میں سانس لینے لگتا تھا۔

اس کمرے میں کوئی فرنیچر نہ تھا۔ فرش پر ایک بوسیدہ دری بچھی ہوئی تھی جس پر ایک پہلوان نما دیسی قسم کا شخص آلتی پالتی مارے بیٹھا ہوتا تھا اور اس کے سامنے متعدد لڑکے اور لڑکیاں اور وہ بھی چوکڑیاں مارے ہوئے ‘جھکے ہوئے ‘خاموشی سے اپنے سامنے رکھے ہوئے تختے پر آویزاں عجیب سے کاغذ پر دم روکے مصوری میں مگن ہوتے تھے۔

یہ لوگ پہروں ایک ہی حالت میں یوں بے حس و حرکت بیٹھے رہتے تھے کہ اگر ان کے ہاتھوں میں تھاما ہوا برش حرکت نہ کر رہا ہوتا تو ان سب پر مجسموں کا گمان ہوتا۔ وہ دیسی اور سادہ شخص بشیر احمد تھا جسے صرف بشیر ا کہنے پر ہی اکتفا کیا جاتا کہ شہر لاہور کی یہی روائت ہے۔ یہ پاکستان بھر میں منی ایچر یعنی مختصر مصوری کا واحد کارخانہ تھا اور بشیرا وہ واحد شخص تھا جو منی ایچر مصوری کے روائتی فن کے تن مردہ میں اپنی زندگی کا تیل جلا جلا کر اسے پھر سے زندہ کرنے کی سعی میں اتنا مگن تھا کہ دن رات کے علاوہ اپنے خاندان اور دوستوں کو بھی فراموش کر چکا تھا۔

میں بھی جوتے اتار کر اس کے پہلو میں جا بیٹھتا کہ منی ایچر مصوری کے اس کارخانے میں روائت کے مطابق ننگے پائوں داخل ہونا پڑتا تھا۔ منی ایچر یعنی مختصر مصوری کی تاریخ بیان کرنے کے لئے اس فن کا ماہر ہونا اور وقت کا وافر ہونا درکار ہے اور یہ دونوں میری مختصر معلومات کے بیان میں نہیں آ سکتے۔

یوں جانئے کہ منی ایچر مشرق کے ذوق جمال کا وہ تخلیقی چراغ ہے جو نہ صرف ہماری روائتوں ‘ حکائتوں اور تاریخ کے چہرے روشن کرتا ہے بلکہ اس کے اندر ابتدائے آفرنیش کی روح تیرتی ہے۔ منی ایچر مصوری بنیادی طور پر مسلمانوں کے جمالیاتی ذوق کی سب سے اہم نمائندہ ہے۔

اگرچہ اہل جاپان اور چین نے بھی اس میں کمال حاصل کیا اور ہندوستان کا راجپوت‘ کانگڑا اور پہاڑی سکول بھی اس فن کی ترویج میں پیش پیش تھا ‘اسے مغل مصوری بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی کے جتنے بھی ادبی‘ صوفیانہ اور تاریخی شاہکار تھے ان سب کو اس طرز مصوری سے سجایا گیا اور مختلف مصوروں نے طبع آزمائی کی۔ مثلاً فردوس کے ’’شاہنامہ‘‘ کو ہر عہد کے مصوروں نے مصور کیا۔

فرید الدین عطار کی ’’منطق الطیربھی مصوروں کا دل پسند صوفیانہ کلام رہا ہے۔ بلکہ ابھی پچھلے دنوں صدیق شہزاد نے آکسفورڈ کی ایک لائبریری میں ڈجے ٹل تکنیک سے محفوظ کردہ فریدالدین عطار کی ایک اور کتاب ’’انتخاب حدیق‘‘ کے مصور ایڈیشن کے کچھ اوراق بھیجے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے میرا تو دل رکتا تھا کہ کیا ایسی بے مثال مصوری بھی ممکن ہے۔

فن مصوری کے سب سے بڑے فنکار ہرات کے باشندے بہزاد کا مصور کردہ’’تیمور نامہ‘‘ ایسا ہے کہ اس کی ہر تصویر کے سامنے سینکڑوں مونا لیزائیں پانی بھرتی ہیں۔ جنگ کے مناظر ایسے کہ تلواروں کے ٹکرانے کی چمک آنکھوں کو چندھیاتی ہے۔ ہانپتے ہوئے گھوڑوں کے نتھنوں سے گرم بھاپ خارج ہوتی محسوس ہوتی ہے اور وہ زندہ لگتے ہیں اور ان تصویروں کے گرد جو آرائشیں نقش ہیں‘ جو گل بوٹے ہیں ان کی مہک محسوس ہوتی ہے۔

نیو یارک کے میٹرو پالیٹن میوزیم کے ’’اسلامک سیکشن‘‘ میں دنیا کی نایاب ترین مختصر تصویریں نمائش پر ہیں اور ایسے قرآن جو ہزاروں برس پیشتر مصور کئے گئے صرف اس احتیاط کے ساتھ کہ ان کے حاشیوں پر منی ایچر مصوری کے گل بوٹے نقش ہوں‘ جاندار کوئی شے نہ ہو۔ آپ محدس شیشوں کی مدد سے ان کی باریکیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

نوبل انعام یافتہ ترک ادیب اریان یاموک کے شاہکار ناول’’مائی نیم از ریڈ‘‘ کا موضوع منی ایچر مصوری ہے۔ آپ اس ناول کا مطالعہ کیجیے مختصر مصوری کے اسرار و رموز کے در کھلتے جائیں گے۔ این سی اے کے اس پرانے پراسرار کمرے میں رات گئے تک آلتی پالتی مارے بیٹھا شخص وہ ہے جو تن تنہا اپنی قدیم وراثت کے احیا کے لئے وقف ہو چکا ہے۔

وہ ماضی کی خاک میں دفن ہوتے منی ایچر مصوری کی بقا کے لئے اپنے آپ کو‘ اپنے زمانوں کو فراموش کر کے اس کی کھوج لگانے کے لئے گزر چکے زمانوں میں جاتا ہے اور پھر آگہی حاصل کر کے واپس اپنے نیم اندھیارے کمرے میں لوٹ آتا ہے اور اپنے سامنے بیٹھے شاگردوں کو وہ فن منتقل کر دیتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ آپ بشیر احمد کے کمرے میں ایک بے ہوش کردی گئی گلہری پڑی دیکھیں کہ بشیر احمد اور گلہریاں بھی لازم و ملزوم ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar