اسلام میں فیملی پلاننگ ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے


برادران کرام!

مجھے امام ابوحنیفہ صاحب سے اس بنا پر عقیدت ہے کہ وہ شرعی احکام کے اصل اہداف پرغور کیا کرتے تھے۔ بوجوہ، ہمارے زمانہ کے علما ئے کرام، ”اہداف“ کی بجائے ”ذرائع“ کوترجیح دینے لگ گئے جس کی وجہ سے عجیب صورتحال سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ تفصیل کا موقع نہیں مگر اس ضروری امر کو واضح کرنے ( اور اپنا سیکولر نقطہ نظر بیان کرنے کے لئے ) ، ایک اور حدیث شریف آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس حدیث کو شریعت اسلامی کی ایک بڑی عظیم اساسی رولنگ قرار دیا جاتا ہے۔

ملاحظہ کیجئے۔

عن أبی سعیدٍ الخدری رضی اللہ عنھ قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیھ وسلم یقول: ( (من رأى منکم منکرًا، فلیغیرہ بیدھ، فإن لم یستطع فبلسانھ، فإن لم یستطع فبقلبھ، وذلک أضعف الإیمان) ؛یہ حدیث، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور نسائی، سب کتب نے روایت کی ہوئی ہے۔

میرے محدودمطالعہ میں، ہر جگہ اس کا ترجمہ یوں ہی لکھا دیکھا ہے :

” نبی اکرم کا ارشاد کہ جو شخص کسی ناجائز امر کو ہوتے ہوئے دیکھے اگر اس پر قدرت ہوکہ اس کو ہاتھ سے بند کردے تو اس کو بند کردے۔ اگر اتنی مقدرت نہ ہو تو زبان سے اس پر انکار کردے۔ اگر اتنی بھی قدرت نہ ہو تو دل سے اس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا بہت ہی کم درجہ ہے“۔

خاکسارکے خیال میں یہ درست ترجمہ نہیں ہے کیونکہ اس میں ”ہدف“ کی بجائے ”اسباب“ کوفوقیت دی گئی ہے چنانچہ، اس کے نتیجہ میں ایک غلط رویہ وجود میں آتا ہے۔

اگر اسی ترجمہ کو لیا جائے تومنظر نامہ کچھ یوں بنے گا۔

ایک جگہ محفل رقص وسرود برپا ہے ( اس محفل کو ایک منکر عمل باور کرایا جاتا ہے ) ۔

اس موقع پر سب سے بہترین مسلمان وہ ہوگا جو ہاتھ کے استعمال سے اس کو روک دے ( بم، کلاشنکوف، چاقو، ڈنڈہ، مکا تھپڑ، درجہ بہ درجہ ہاتھ کا استعمال ہے ) ۔

دوسری پوزیشن اس مسلمان کو حاصل ہوگی جو زبان سے کام لے کراسکو بند کردے ( دھمکانے سے لے کر گالی گلوچ تک) ۔

جبکہ آخری درجہ کا مسلمان وہ ہوگا جواس پہ خاموش رہ جائے مگر اسے ایک برائی سمجھے۔

اب دیکھئے کہ مسلم سیکولرز، اسی حدیث شریف کی تشریح کیسے کیا کرتے ہیں؟

پہلی بات تو یہ کہ حدیث کے عربی متن میں ”برائی کو بند کرنے“ کا نہیں بلکہ اس کو اچھائی سے ”چیینج“ کرنے کا حکم ہے۔ ( فالیغیرہ ) ۔ اور یہی ”ہدف“ ہے۔

جب آپ نے ”بند کرنے“ کی بجائے درست ترجمہ ”تبدیل کرنا“ کردیا تو حدیث کی تشریح بدل گئی۔ اب ہاتھ، زبان، یا خاموشی والے ذرائع میں سے جوذریعہ اختیار کرنے سے ایک برائی، اچھائی میں تبدیل ہوگی وہی ذریعہ افضل قرار پائے گا نہ کہ حدیث کے متن والی ترتیب پر ہی اصرار ہوگا۔

ہمارے ترجمہ کے مطابق، منظر نامہ کچھ یوں بنے گا :

سب سے بہترین مسلمان وہ ہوگا جو برائی کو اچھائی میں بدل کردکھائے چاہے ہاتھ کے استعمال سے ہو یا زبان سے یا خاموش حکمت عملی سے۔ ( ہاتھ کے استعمال کا معنی بھی صرف ”ہاتھ اٹھانا“ نہیں ہوتا بلکہ ”ہیلپنگ ہینڈ“ بھی صورتحال کو بدل دیا کرتا ہے اور اکثر بدلا کرتا ہے ) ۔

تاہم، اگر ہاتھ کے استعمال سے ”برائ“ کے مزید بڑھ جانے کا خوف ہو تو پھر ہاتھ استعمال کرنے والے مسلمان کو شاباش نہیں، بلکہ ڈانٹ پڑنے کا اندیشہ ہے۔

امید کرتا ہوں کہ احباب، ہدف اور ذرائع کا فرق سمجھ چکے ہوں گے۔ واپس اپنی حدیث شریف پہ جاتے ہیں جہاں زیادہ تعداد میں بچے پیدا کرنے کی نصیحت، فقط ایک خاص ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بتائی گئی ہے۔ ( اور وہی اصل مقصود ہے ) ۔

حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگوں نے امت کی تعداد کو ”پرائم ایشو“ بنا دیا ہے حالانکہ یہ تو ”سیکنڈری ایشو“ بھی نہیں ہے۔ خود رسول اکرم نے کتنے ہی لوگوں کو بظاہر معمولی بات پر اپنی امت سے خارج قراردیا ہوا ہے۔ ( مثلا جو مسلمان خود پیٹ بھر کرسویا جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا سویا ) ۔ تعداد کا مسئلہ ہوتا تو یوں لوگوں کو امت سے خارج کیا جاتا؟

آپ حضرات جانتے ہیں کہ دورنبوی میں کئی کئی شادیاں کرنے کا عام رواج تھا۔ روایت تو یہ بھی ہے کہ حضرت علی نے جب دوسری شادی کا ارادہ کیا تو حضور نے ایک طرح سے روک دیا تھا۔ کیوں بھئ؟ اس سے تو امت مزید بڑھ جاتی پھر کیوں روکا؟ معلوم ہوا کہ امت کی تعداد، بنیادی ایشو نہیں ہے۔

قارئین کرام!

ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث شریف کے تناظر میں آج کے زمانے میں کم بچے پیدا کرنا ہی رسول کے لئے تفاخر کا سبب ہوگا۔

کیوں؟

اس کیوں کا جواب، ایک اوراسلامی قانون میں پوشیدہ ہے یعنی ”مسلمان والدین کی اساسی ذمہ داری“۔

اس بنیادی اسلامی قانون میں اولاد بارے، والدین کی تین ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں۔ اچھا نام۔ اچھی تربیت۔ اچھا رشتہ ( اولاد کی تعداد بارے تو بات ہی نہیں کی گئی) ۔

اچھی تربیت کیا ہوتی ہے؟ آپ اس کا جو بھی مفہوم مراد لیں مگر خاکسار اس سے اکابر صحابہ کا کردار مراد لیتا ہے۔

آج کل جدید اور مہنگی تربیت گاہیں مارکیٹ میں آچکی ہیں مگرظاہر ہے کہ گھر کا ماحول ہی بچے کی بنیادی تربیت گاہ ہوتا ہے۔

آج سے چودہ صدیاں پہلے توبچے کی تربیت کے لئے خالص یہی ایک میڈیم میسر تھا۔ ( نہ اولاد کے لئے کہیں کالج یا ہاسٹل پائے جاتے تھے اور نہ والدین کوجاب کے سلسلے میں شہر سے باہررہنا پڑتا تھا) ۔ جس زمانے کی یہ حدیث شریف ہے، اس وقت مدینہ میں اس امت کی ساری قابل فخر کمیونٹی موجود تھی۔ ایسے لوگوں کو اگر زیادہ بچے پیدا کرنے کا کہا گیا تو یہ طے تھا کہ تربیت یافتہ امت ہی پیدا کی جائے گی۔ ( اصل ہدف بہرحال اس حدیث کا یہی ہے کہ کثیر تعداد ایسے مسلمانوں کی پیدا کی جائے جسے بروز قیامت دوسرے انبیاء کی امتوں کے مقابل فخر سے پیش کیا جاسکے ) ۔ لہذا، اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے آج کی پیچیدہ زندگی میں، زیادہ باریک تربیت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے کم بچوں کا پیدا کرنا ہی اسباب یا ذرائع ہیں۔ کم بچے ہوں گے تو بہتر تربیت ممکن ہے۔ ( اسباب ہی اختیار کیے جاتے ہیں ورنہ ”سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی“ ) ۔

شریعت کا مزاج ہی پلاننگ سے چلنے کا ہے۔ نبی یوسف نے متوقع قحط کے تناظر میں اگر سات سال تک خوراک کو ذخیرہ کرکے رکھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کی رزاقی پر ان کا یقین کمزور ہوگیا تھا۔ چنانچہ، شریعت کا آج کا منشاء تو ہمارے خیال میں فیملی پلاننگ کرنا ہے نہ کہ اس سے گریز کرنا۔

اب رہے وہ لوگ جو ”معیار“ کی بجائے ”مقدار“ پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک ہمارے رسول صرف مسلمانوں کی تعداد پہ ہی فخر کریں گے تووہ احباب بھی اس حدیث شریف کو اپنے موقف کی دلیل نہیں بنا سکتے کیونکہ صرف امت ہی بڑھانا ہوتواولاد کے علاوہ بھی کئی اسباب اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً پورا ایک سال شب وروز کی محنت کے بعد صرف ایک مسلمان بچہ امت میں بڑھانے کی بجائے اگر تبلیغی جماعت کے ساتھ ”سال لگانے“ افریقہ چلے جائیں تو سال بھر میں درجن بھر امتی بڑھا سکتے ہیں۔ (بلکہ اس تعداد کو ڈبل شمار جائے کیونکہ دوسری امت سے مائنیس ہوجائیں گے اور ہماری امت میں پلس ہوجائیں گے ) ۔

بات بہت طویل ہوگئی ہے۔ بس ہماری گذارشات کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے :

1۔ عورت اور مرد کی شادی کے ذریعہ، دنیا کو ”بہترین“ انسان مہیا کرنا اسلام کا منشاء ہے۔ زیادہ ہوں یا نہ ہوں مگربہترین ضرور ہوں۔

2۔ میاں بیوی باہمی سوچ وبچار اوررضامندی سے اپنی فیملی پلاننگ کریں۔ مستقبل بارے بہتر منصوبہ بندی کرنا، شریعت کا مزاج ہے۔ (ہوگا مگر پھر بھی وہی جو اللہ چاہے گا ) ۔

3۔ آج کل کی پیچیدہ زندگی کے تناظرمیں، زیادہ بچوں کی کفالت اور تربیت کرنا ایک مشکل کام ہے لہذا کم بچے پیدا کرنے کی پلاننگ کریں۔ یہ شریعت سے متصادم نہیں بلکہ اس کے منشاء کے مطابق ہے۔

4۔ فرد کی طرح، حکومت کو بھی اختیار ہے کہ بڑھتی آبادی کو کم کرنے کی پلاننگ کرے۔ مگر بچوں کی ایک خاص تعداد مقرر کرنا، بنیادی انسان حق کی خلاف ورزی ہے۔ کم بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جاسکتی مگر اس کو قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ ( البتہ حکومت چاہے تو دیگر ”شرعی حیلے“ اختیار کرکے، یہی ٹارگٹ حاصل کرسکتی ہے جو مناسب فیس پر خود مولوی صاحبان مہیا کرسکتے ہیں ) ۔

برادران کرام!

اگر اپنے نبی کریم کے لئے کوئی قابل فخر امتی تیار کرنے ہیں تو بچے کم پیدا کرو مگر وہ ایسے ہوں کہ دوسری امتوں سے کردار میں ممتاز ہوں۔ یہی اس حدیث شریف کی فطری تشریح ہے (کم ازکم مسلم سیکولرز کی حد تک) اور یہی منشائے شریعت ہے۔ ایسے بچے جو اس فانی دنیا میں غیروں کے مقابل پیش کرتے خود کو شرم آتی ہو، ان کو آخرت میں بھی پیش کرنا کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہوگا۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایسا مسلمان بھی تو ہوگا جو آج کے زمانے میں زیادہ بچے بھی پیدا کرسکتا ہو اورانکو قابل فخر تربیت بھی دے سکتا ہو تو میں کہوں گا کہ یہ ایک اچھا کیس ہے اورایسا شخص بہت قابل ونادر آدمی ہے مگر بہرحال یہ استثنائی کیس ہے جبکہ حدیث شریف، عموم کے لئے ہواکرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4