کیا آپ عورتوں کی آزادی سے خوفزدہ ہیں؟


Betty Friedan

بے ٹی : کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کریں گی کہ بات صرف جنسی تعصب کی ہی نہیں بلکہ ہمیں چند بنیادی تبدیلیاں کرنی پڑیں گی اور رشتوں کے بنیادی اصول بدلنے پڑیں گے جیسے باس اور سیکریٹری کا رشتہ نرس اور ڈاکٹر کا رشتہ؟

سیمون : مجھے اتفاق ہے اس لیے بعض عورتوں کا خیال ہے کہ جب تک بنیادی تبدیلیاں نہ آئیں وہ اس کھیل میں شریک نہیں ہونا چاہتیں

بے ٹی : تو پھر وہ کھائیں گی کہاں سے؟

سیمون : انہیں اعلی ملازمت لینے کی کیا ضرورت ہے وہ یونیورسٹی کی پروفیسر ہونے کے بجائے اسکول کی استانی بن سکتی ہیں

بے ٹی : کیا آپ ایسی عورتوں کی ہم خیال ہیں؟

سیمون : میں بھی اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتی رہتی ہوں اکثر اوقات سوچتی ہوں کہ اس میں بھی کچھ حقیقت بھی ہے اگر ہم معاشرے میں کوئی اہم اور بنیادی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان اعلیٰ ملازمتوں کی کوئی ضرورت نہیں

بے ٹی : اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کے لیے عورتوں کے پاس ایسے مقامات ہونی چاہییں کہ وہ نظام کو متاثر کر سکیں اور اس کی طاقت حاصل کرنے کے لیے ان میں اعتماد اور صلاحیت ہونی چاہیے تاکہ وہ معاشرے کی رکاوٹوں کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھ جائیں۔ آپ کا نقطہ نظر تو عورتوں کو ہمیشہ کم درجے کا شہری رکھنے کا ہے اور اگر ہم آپ کی دلیل کو ایک قدم آگے بڑھائیں تو ہم تعلیم حاصل کرنے سے بھی انکار کرنا چاہیے کیونکہ وہ بھی غلط نظام کا حصہ ہے

سیمون : تعلیم کا معاملہ دوسرا ہے ہمیں تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے کیونکہ وہ ہتھیار کی طرح ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اس اختیار کو استعمال نہ کریں اوراعلی عہدے قبول کرنے سے انکار کر دیں ہم میں سے بہت سوں کا خیال ہے کہ جن میں میں بھی شامل ہوں کہ اگر معاشرے کو تبدیل ہونا ہے تو وہ نیچے سے ہونا چاہیے نہ کہ اوپر سے۔

بے ٹی : ہم دونوں لکھنے والی ہیں اور معاشرے پر صحت مند تنقید کرکے ہم لاکھوں لوگوں کو متاثر کر سکتی ہیں آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا ہم عورتوں کے مقاصد کی خدمت کر رہی ہو نگی اگر ہم اس طاقت کو استعمال نہ کریں

سیمون : جن حالات نے میری پرورش کی ان حالات میں آزادی نسواں کی تحریک کی عدم موجودگی میں مرد اور عورت برابر سمجھے جاتے تھے لیکن آج کل بہت سی عورتیں صرف مردوں کی برابری قبول کرنے کو تیار نہیں ان کا مقصد معاشرے میں مقام حاصل کرنا نہیں بلکہ معاشرے کے موجودہ نظام کو تبدیل کرنا ہے وہ مرد کی قائم کی ہوئی تمام روایات کے خلاف ہیں وہ مضامین لکھتی ہیں تو اپنا نام ظاہر نہیں کرتیں کیونکہ وہ عورتوں کا اسٹار بننے کے حق میں نہیں ہیں

بے ٹی : کیا آپ اپنی کتابوں پر اپنا نام نہیں لکھوائیں گی؟

سیمون : میری تربیت مختلف ہوئی ہے میں نے جو سیکھا ہے وہی کروں گی لیکن مجھے ان عورتوں سے ہمدردی ہے جو اپنا نام نہیں لکھتیں۔

Betty Friedan making a public speech

بے ٹی : میرے خیال میں اسٹار بننے کی روایت اس طرح ختم ہو سکتی ہے کہ اگر معاشرے میں ہزاروں آپ کی طرح سیمون اور ہزاروں میری طرح بے ٹی ہوں لیکن اگر ہم جو نام پیدا کر چکی ہیں اور عورتوں کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کو کہیں تو یہ مسئلہ ختم نہ ہوگا

سیمون : اگر ہزاروں سیمون بن گئیں تو مجھے بہت افسوس ہو گا میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جدوجہد اور کوشش مقصد کے لئے ہونی چاہیے ذاتی نام اور نمود و نمائش کے لیے نہیں

بے ٹی : عورتوں کی تحریک میں جیسے کہ طلبہ اور میرے خیال میں کالوں کی تحریک میں امتیاز ختم کرنے کی کوشش نے جمہوری رویے کو نقصان پہنچایا ہے لیڈر شپ متاثر ہوئی ہے اور عمل میں سنسنی پڑ گئی ہے ذمہ دار نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کی تحریک معذور ہو گی

سیمون : جب فرانس میں عورتوں کی تحریک بے ساختہ ’بنیادی اور حقیقی ہے عورتیں ایک متبادل طرز زندگی اختیار کرنے کی جدو جہد کر رہی ہیں اگر کسی انتظامیہ میں مراعات نہ ہوں تو مسائل تو پیش آتے ہیں لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص اور کارکن کو کلی اختیار اور آزادی کا موقع ملتا ہے اور انتظامیہ چھوٹے چھوٹے آقاؤں کا سلسلہ نہیں بن سکتی۔

بے ٹی : میں نہیں چاہتی کہ عورتیں مردوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنیں اور ان عورتوں کے ہاتھ میں جو مردوں کا انداز اختیار کرتی ہیں گوریلا فوج سے جنگ لڑنا زیادہ مشکل ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ عورتوں کی تحریک کے مقامی گروہوں کو آزادی حاصل ہو لیکن قومی پیمانے پر بھی ایسے فیصلے ہونے چائییں جو پورے ملک کو متاثر کرسکیں۔

سیمون : ہم نے اسقاط حمل کے مسئلے کے ساتھ یہی کیا ہم نے نہ صرف پیرس بلکہ تمام صوبوں کو فعال بنا دیا ہے لیکن وہ ایسا مسئلہ تھا جس میں ہر طبقے کے لوگ برابر کے شریک تھے تمام عورتیں چاہے وہ کھیتی باڑی کرنے والی ہوں یا مزدور طبقہ کی خواتین وہ سب ایک ہی کشتی میں سوار تھیں لیکن بعض دیگر مسائل پر تمام عورتوں کو یکجا کرنا مشکل ہے مثال کے طور پر گھریلو کام کاج جو میرے نزدیک عورتوں کا ایک مسئلہ ہے گھر کا کام کاج عورتوں کو بہت سا وقت لیتا ہے اور اس کا معاوضہ بھی نہیں ملتا میرے نزدیک عورتوں سے گھر کا کام کروا کے مرد عورتوں کا استحصال کرتے ہیں اس مسئلے پر آپ پیٹی بورژوا انقلاب اور مزدور طبقہ عورتوں کو تو یکجا کر سکتے ہیں لیکن مزدور مردوں کے کام نہ کرنے والی بیویاں آپ کا ساتھ نہ دیں گے ان کی زندگی کا مقصد ہی گھریلو کام کاج ہے اس طرح عورتوں کے گروہ میں ایک بہت بڑی تفریق پیدا ہو گی۔

بے ٹی : میں نے عورتوں کے مسائل کے بارے میں بہت بڑا معاشی لائحہ عمل تیار کیا ہے اس کا ایک پہلو کام کاج کے لیے تنخواہ مقرر کرنا ہے جس کا اثر ان کے سوشل سکیورٹی پینشن اور طلاق کے فیصلوں پر ہوگا اس فیصلے سے غریب اور درمیانی درجے کی بیویاں خوشگوار طور پر متاثر ہوگی

سیمون : میں آپ کے اس مشورے سے بالکل متفق نہیں ہوں۔ اس سے مردوں اور عورتوں کے درمیان طاقت کا فاصلہ اور بڑھے گا اور عورتیں گھروں میں مزید دھکیل دی جائیں گی۔ ہماری جماعت اس کے حق میں نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے یہ بات قبول کر لی ہے کہ عورت کا مقام گھر میں ہے اور میں اس کے بالکل خلاف ہوں۔

بے ٹی : لیکن کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کرتیں کہ وہ عورتیں جو گھر کا کام کرتی ہیں اور بچوں کا خیال رکھتی ہے انہیں ان کی محنت کا معاوضہ ملنا چاہیے؟

سیمون :لیکن سوال یہ ہے کہ عورتیں کیوں یہ کام کریں کیا عورتیں گھریلو کام کے لئے ہی پیدا ہوئی ہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔

بے ٹی : نہیں میں یہ نہیں کہتی کہ عورتیں ضرور یہ کام کریں بچوں کی نگہداشت ماں باپ اور معاشرے کی برابر کی ذمہ داری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں بہت سی عورتیں صرف گھریلو کاموں میں مشغول رہتی ہیں خصوصا جب کہ ان کے بچے چھوٹے ہقتے ہیں اور ان کے کام کو نہ تو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں اس کام کا معاوضہ ملتا ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ ملک میں ایک واؤچر سسٹم ہونا چاہیے اس کے تحت عورتوں کو چناؤ کا موقع ملنا چاہیے۔ اگر عورتیں ملازمت کرنا چاہیں یا تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو وہ واؤچر استعمال کر کے بچوں کی نگہداشت کا انتظام کر سکیں لیکن اگر وہ اپنے بچوں کی نگہداشت کرنا چاہیں تو وہ رقم خود استعمال کر سکتی ہیں۔

سیمون :نہیں ہمارے خیال میں عورتوں کی یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کسی عورت کو گھر رہنے اور صرف بچوں کی نگہداشت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے معاشرہ پورے کا پورا بدل جانا چاہیے کیونکہ اگر عورتوں کو اس کی اجازت دی گئی تو بہت سی عورتیں گھر رہنا پسند کریں گی اور اس طرح ہم عورتوں کو ایک مخصوص طرز زندگی کی طرف دھکیل رہے ہوں گے

بے ٹی : میں آپ کا استدلال سمجھ رہی ہوں لیکن اس وقت سیاسی طور پر میں اس سے متفق نہیں امریکہ میں بچوں کی نگہداشت کے لیے سینٹر نہیں ہیں اس کے علاوہ امریکہ میں شخصی آزادی کی ایسی روایت ہے کہ میں کبھی بھی یہ نہ کہہ سکوں گی کہ ہر عورت اپنے بچے سینٹر میں ضرور بھیجے

سیمون : لیکن ہم ایسا نہیں سوچتے ہم اسے ایک بڑی معاشرتی تبدیلی کا حصہ سمجھتے ہیں جن میں مرد اور عورت کے کاموں گھر اور باہر کی ذمہ داریاں کی تعریف مٹ جائے گی ہمارے خیال میں ہر مرد اور عورت کو گھر سے باہر کام کرنا چاہیے اور زندگی میں خاندان اور بچوں کی ذمہ داریوں کا اجتماعی طور پر حل تلاش کرنا چاہیے۔ اس قسم کے کام کی ایک مثال چین میں ملتی ہے جب ایک خاص دن بچے بوڑھے جوان مرد اور عورتیں مل کر حسب استطاعت کپڑے دھوتے ہیں عورتوں کی گھر میں رہنے کی حوصلہ افزائی کرنے سے معاشرہ نہیں بدلے گا۔

بے ٹی : میں ایک ایسے معاشرے کے بارے میں سوچتی ہوں جس میں عورتوں کے لئے ایک سے زیادہ راہیں کھلی ہوں گی ۔ آج کی عورتوں میں آج بھی خاندان اور ماں بننے کی خواہش اتنی ہی شدید ہے کہ میں نہیں سمجھتی کہ ان روایات کو یکسر ختم کردینا دانائی ہوگی میری یہ خواہش ہے کہ معاشرے میں ایسے ادارے وجود میں آئیں کہ جو لوگ گھریلو کام میں مشغول نہ ہونا چاہیں وہ نہ ہوں لیکن جو اس کام سے لطف اندوز ہوتے ہو وہ جاری رکھ سکیں۔ ہمیں معاشرے میں بہت سے راستے تیار کرنے ہیں تا کہ مختلف لوگ ان میں سے ایک کا انتخاب کر سکیں۔

سیمون : روایتی خاندان کی بقا میں ماں بننے ’مادرانہ جبلت اور ان کے ساتھ اور بہت سے غلط عقیدے کی اصلاح نہیں ہوگی عورتوں کے مظلوم و مجبور رہنے میں کوئی فرق نہ آئے گا کوئی اہم فرق نہ آئے گا

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail