کیا آپ عورتوں کی آزادی سے خوفزدہ ہیں؟


جب میں نے عورتوں کی آزادی کی تحریک کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ اس تحریک نے بیسویں صدی کی سماجی تبدیلی میں اتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ مجھے یہ بھی پتہ نہ تھا کہ دیگر سماجی تحریکوں کی طرح اس تحریک میں بھی کئی گروہ ہیں جو آپس میں سماجی حوالوں سے اتفاق بھی کرتے ہیں لیکن نظریاتی حوالوں سے اختلاف بھی۔

عورتوں کے ایک گروہ کا موقف ہے کہ مغرب کے پدرسری نظام کے قیام میں آسمانی مذاہب نے اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ وہ سب پدر سری نظام کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس گروہ کی عورتوں نے سوال اٹھایا کہ کیا خدا صرف مردوں سے ہی بات کرتا ہے؟ ان خواتین نے اس سوچ کو بدلنے کے لیے WOMAN ’S BIBLE بنائی جس میں خدا FATHER کی بجائے PARENT بن گیا اور عیسیٰ SON کی بجائے CHILD۔

عورتوں کے دوسرے گروہ کا موقف تھا کہ مذہب ایک نازک اور متنازعہ فیہ مسئلہ ہے اس لیے ہمیں اس مسئلے کو نہیں چھیڑنا چاہیے کیونکہ بہت سی عورتیں بہت زیادہ مذہبی ہیں۔ انہوں نے بائبل میں تبدیلی کی بجائے عورتوں کے سماجی ’معاشی اور سیاسی حقوق پر اپنی توجہ مرکوز کی اور پوری کوشش کی کہ آئینی اور سماجی طور پر عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہوں تا کہ وہ گھر سے باہر نکل سکیں۔ تعلیم حاصل کرسکیں‘ ملازمت کرسکیں ’کاریں خریدسکیں‘ ڈگریاں لے سکیں اور ٹیچر ’ڈاکٹر‘ انجینیر اور دانشور بن کر مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہو کر قوم کی خدمت کرسکیں۔

عورتوں کے دوسرے گروہ میں مزید دو گروہ تھے۔ ایک گروہ کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام سے تھا۔ اس گروہ کی کوشش تھی کہ عورتوں کے ماں بننے اور بچوں کی نگہداشت کرنے کو حکومت ملازمت کا مرتبہ دے اور ماؤں کو تنخواہ ملے ’صحت کی سہولت ملے اور ان کی پنشن ہو۔ دوسرے گروہ کا تعلق سوشلزم کے نظام سے تھا۔ اس گروہ کا موقف تھا کہ ہمیں عورتوں کو گھر رہ کر بچوں کی نگہداشت کرنے سے منع کرنا چاہیے تا کہ وہ گھر سے باہر جا کر اپنا بہتر مستقبل بنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے انسانوں کی انفرادی نہیں اجتماعی ذمہ داری ہیں۔

عورتوں کی آزادی اور خود مختاری کی تحریک نے اس حقیقت پر بھی توجہ مرکوز کی کہ بہت سی عورتیں بہت سے محازوں پر جنگ لڑ رہی ہیں۔ جو عورت مزدور ہے وہ دو محازوں پر ’جو عورت مزدور اور کالی ہے وہ تین محازوں پر اور جو عورت مزدور‘ کالی اور لیسبین ہے وہ GENDER، RACE، CLASS AND SEXUAL ORIENTATION کے چار محازوں پر جنگ لڑ رہی ہوتی ہے۔

میں نے جب امریکہ کی فیمنسٹ Betty Friedan اور فرانس کی فیمنسٹ  Simone de Beauvoir کے مکالمے کا مطالعہ کیا تو مجھے کیپٹلسٹ فیمنسٹ اور سوشلسٹ فیمنسٹ کے خیالات ’جذبات اور نطریات سے آگاہی ہوئی۔ میں نے اس مکالمے کا ترجمہ کیا تا کہ پاکستان اور ہندوستان کے مردوں اور عورتوں کا ان کے خیالات سے تعارف ہو۔ اس مکالمے کے مطالعے کے بعد آپ پر بھی عیاں ہوگا کہ ہم جن موضوعات پر عورتوں کی مارچ کے حوالے سے اب تبادلہِ خیال کر رہے ہیں ان موضوعات پر مغرب کی عورتیں نصف صدی پہلے زور دار بحث کر چکی ہیں۔

میں اپنی انارکسٹ فیمنسٹ دوست زہرا نقوی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس مکالمے کی ’ہم سب‘ کے لیے تیاری میں میری مدد کی.

حصہ دوئم۔ بے ٹی فریڈین اور سیمون دی بووا کا 1973 کا ایک اہم مکالمہ

بے ٹی : میری نگاہ میں یہ اہم تھا کہ ہم دونوں تحریک نسواں کے بارے میں تبادلہ خیال کریں۔ ہم دونوں نے اپنی کتابوں اور نظریوں سے اس تحریک کو متاثر کیا ہے۔ میرے خیال میں امریکہ میں یہ تحریک اس دور کی سب سے بڑی اور فعال تحریک ہے اور یہ وہ واحد تحریک ہے جو معاشرتی تبدیلیوں لانے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ تحریک بہت زور و شور سے شروع ہوئی تھی لیکن اب کچھ سست پڑ گئی ہے

سیمون :فرانس میں بھی یہی عالم ہے

بے ٹی : امریکہ میں پچھلے چند سالوں میں بین الاقوامی نظریاتی تضادات کی وجہ سے ہماری توانائیاں بکھر گئی ہیں۔ جب سے ملک میں انیس سو بہتر کے الیکشن سے پہلے مساوی حقوق کا قانون پاس ہوا ہے اور سپریم کورٹ میں اسقاط کے بارے میں فیصلہ سنایا گیا ہے عورتوں کو اپنی سیاسی طاقت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ تحریک نسواں کو چند طاقتوں نے تشدد اور افراتفری کی طرف لے جانے کی کوشش کی ہے اور تحریک کو جنسی سیاست میں ملوث کرنے کی سعی کی ہے انہوں نے عورتوں کے ماں بننے ’بچہ پیدا کرنے کے خلاف جذبات ابھارے ہیں میرے خیال میں تحریک کی سیاست میں جنسیات اور لیسبین ا زم کے مسائل کو ابھار کر اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے تحریک کی شدت اور زور متاثر ہوا ہے۔

سیمون :کیا آپ کا خیال ہے کہ بچے پیدا کرنے اور لیسبین ازم کو فروغ دینے سے تحریک بری طرح متاثر ہوئی ہے؟

بے ٹی : اس نے تحریک کو سیاسی طور پر مفلوج کردیا ہے تحریک کے کارکنوں میں کچھ نظریاتی اختلاف ہے بعض عورتوں کا خیال ہے کہ مردوں کے خلاف جدوجہد ایک طبقاتی جنگ ہے ان کے نزدیک اگرچہ ذاتی طور پر مجھے اس سے اختلاف ہے جنس ’ماں بننا‘ بچے پیدا کرنا پر اختلاف کرنا ہمارے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ میرے نزدیک ہماری جدوجہد کا مقصد عورتوں کی فلاح عام ہونا چاہیے۔ ہم سب کو یہ بتاتے ہیں عورتوں کی اکثریت اور مرد بھی معاشرے میں عورتوں کے بنیادی اور مساوی حقوق کے حق میں ہیں لیکن جب مردوں یا بچوں کی محبت کے خلاف محاذ کھڑا کیا جاتا ہے تو ہم بہت سی عورتوں کو کھو دیتے ہیں۔

سیمون :میں سمجھ گئی ہوں کہ آپ کیا کہنا چاہتی ہیں

بے ٹی : اور اس طرح ہم غیر ضروری طور پر مردوں سے بھی دور ہٹ جاتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ اب اپنے آپ کو فیمنسٹ کہلواتی ہیں۔ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ ا ب آپ کا سارا زور معاشی تبدیلیوں پر نہیں رہا اور آپ اس بات کو قبول کرنے لگی ہیں کہ معاشی انقلاب جیسا کہ کمیونزم کے نظام سے آتا ہے خود بخود عورتوں کی آزادی اور خودمختاری کا سبب نہیں بنتا۔ اب میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ کے نظریات میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان کی رو سے آپ عورتوں کی جدوجہد کا بڑے پیمانے پر سیاسی و معاشی جدوجہد سے کیا تعلق دیکھتی ہیں؟

سیمون :میں بالکل نہیں سوچتی کہ کمیونزم اور سوشلسٹ انقلاب جیسا کہ ہمارے دور میں ظہور پذیر ہوا ہے عورتوں کے مسائل کا پورا حل پیش کرتا ہے لیکن میرے خیال میں پھر بھی عورتوں کی جدوجہد اور معاشی تبدیلیوں میں گہرا تعلق ہے خاص کر فرانس میں، یہاں پر ایک فیکٹری میں ہڑتال ہوئی 80 % کارکن خواتین تھیں ہڑتال کی قیادت بھی عورتوں نے کی اور وہ چھ ماہ تک جاری رہی اس طرح عورتوں کو اپنی معاشی اور اس کے توسط سے سیاسی طاقت کا اندازہ ہوا یہ علیحدہ بات ہے کہ اگرچہ عورت تو اس ہڑتال میں فعال تھیں لیکن جب رات کی ڈیوٹی دینے کا وقت آیا تو بہت سی عورتیں کہنے لگیں ہم نے ہڑتال کے لئے بہت قربانی دی ہے ہم اس کی خاطر اپنی شادی داؤ پر نہیں لگا سکتیں کیونکہ ان کے شوہر اس کے حق میں نہ تھے اسی طرح وہ عورتیں فعال ہونے کے باوجود اپنے شوہروں کی ماتحت رہیں اور لاشعوری طور پر معاشرے میں عورت کے مقام اور اس کی روایت کو برقرار رکھتی رہیں۔ فرانس کی آزادی کی تحریک کی یہ کوشش ہے کہ وہ اس تحریک اور عورتوں کی معاشی اور خود مختاری کی جدوجہد کو قریب لا سکیں۔

بے ٹی : کیا آپ کی جماعت کا زیادہ زور معاشی حالات کی تبدیلی پر ہے؟

سیمون : ہماری جماعت کے بھی دو حصے ہیں ایک گروہ جنسی مسائل پر زیادہ توجہ دیتا ہے ان کا مقصد مردوں کے مظالم کی مخالفت کرنا اور لیسبینز کے حقوق کو فروغ دینا ہے۔ دوسرے گروہ کا تعلق سوشلسٹ نظریے سے ہے جو عورتوں اور مزدوروں کی جدوجہد کو قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے اور کام کرنے والی عورتوں کا تعاون کر رہا ہو۔

بے ٹی: ہمارے ملک کے سماجی شعور میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں آج کل ہم معاشی بحران کا شکار ہیں اور عورتوں کو ملازمتوں سے چھٹی مل رہی ہے یونیورسٹیوں اور کارپوریشن میں بجٹ کی کمی کی وجہ سے عورتیں متاثر ہورہی ہیں لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں اس بے روزگاری کے عالم میں ہم عورتوں کو کیسے ملازمت دیں۔

سیمون :فرانس میں حالات اس سے مختلف ہیں۔ حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ عورتوں کو ورک فورس میں پوری طرح شامل کر رہی ہے عورتوں کو پولی ٹیکنیکل اداروں میں داخلہ مل رہا ہے انہیں یونیورسٹی کا صدر منتخب کیا جا رہا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ بعض لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور ان کی حیثیت ٹوکن سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی لیے بعض فیمنسٹوں نے وہ اختیار حاصل کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ ٹوکن نہیں بننا چاہتی تھیں۔

بے ٹی : ہمارے خیال میں عورتوں کو جو ملازمتیں ملی ہیں وہ انہیں لے لینی چاہییں اور مزید دروازے کھولنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے تاکہ ہم سطحی تبدیلیوں سے حقیقی تبدیلیوں کی طرف کا سفر جاری رکھ سکیں

سیمون :فرانس میں اس رویے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو عورتیں اعلی عہدے قبول کرلیتی ہیں ان پر سیاسی خود غرضی کا الزام لگتا ہے جو عورتیں اعلی عہدوں سے انکار کرتی ہیں وہ زیادہ پسند کی جاتی ہیں

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail