انتہائی دایاں بازو اور دولت اسلامیہ: ایک ہی تصویر کے دو رخ


دولت اسلامیہ

انسداد دہشت گردی کے ماہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند دولتِ اسلامیہ کا آن لائن چھاپا ہوا مواد استعمال کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ نیو نازی سمیت دیگر دائیں بازو کے شدت پسند انٹرنیٹ پر لگائے ہوئے ان جہادیوں کے حملوں کے طریقوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

لیکن ان کے بیچ مماثلت پر ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔

’شدید نفرت‘

پچھلے سال سے برطانیہ کے حساس ادارے ایم آئے فائیوو کو ملک میں انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندوں سے بڑھتے خطرے سے نمٹنے کے لیے پولیس کی مدد کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں نے سب سے پرتشدد افراد کے منصوبوں پر اطلاعات اکٹھی کرنے کے لیے کئی طریقے اپنائے ہیں، جیسے کہ فون کی جاسوسی کرنا۔

کچھ ملزمان کو بچوں کےبارے میں فحش مواد کو ڈاؤن لوڈ کرنے پر گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ لیکن اہلکاروں کا کہنا ہے کہ نیو نازی سمیت دیگر شدت پسند اپنے نظریاتی دشمن دولت اسلامیہ کے حملوں کے منصوبے بھی آن لائن استعمال کر رہے ہیں۔

یہ شاید عجیب بات لگے لیکن اس پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔

شاید ان کے نظریات ایک دوسرے کے الٹ لگیں لیکن ان کے درمیان کچھ پریشان کن مماثلتیں بھی ہیں، جن میں سے کچھ صاف ظاہر ہیں، جبکہ کچھ پوشیدہ۔

اکثر سفید فام پرست اور پر تشدد اسلامی شدت پسند ایک تنگ نظری کی دنیا میں رہتے ہیں جو نفرت سے بھری ہوتی ہے اور جہاں کسی اور کے خیالات کے لیے کوئی برداشت نہیں ہوتی۔

دولتِ اسلامیہ کے جہادیوں کے لیے اس کا مطلب ہے کہ وہ نہ صرف غیر مسلمانوں کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ شیعوں کو بھی اور ایسے سب لوگوں کو جو کہ ’کافروں‘ کی حمایت کر رہے ہیں۔

’تکفیر‘ کا استعمال کرتے ہوئے، جہادی اپنے ہم مذہبوں کو بھی ’کافر‘ اور ’مرتد‘ قرار دے کر ہدف بنا لیتے ہیں۔

اس تنگ نظری، عدم برداشت اور تشدد کا آپس میں ملنے کی وجہ سے القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ جیسے گروہ کبھی دنیا بھر کی مسلمان آبادی کی اکثریت میں جڑیں نہیں بنا سکے۔

اسی طرح برطانیہ سمیت باقی یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند بھی ان سب کو دشمن سمجھتے ہیں جن کی وجہ سے ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جو ان کو ناپسند ہیں، جیسے کہ لوگوں کا ایشیا اور افریقہ سے ہجرت کر کے آنا۔

2011 میں ناروے کے دہشت گرد انرش بریوک نے اوسلو میں اپنا قاتلانہ حلمہ کیا۔ لیکن یہ حملہ مسلمانوں یا مہاجروں پر نہیں بلکہ ایک ایسی پارٹی کے نوجوان اراکین پر تھا جس پر یہ ناروے کا بدلتے نسلی اعداد و شمار کا الزام لگا رہے تھا۔

’غلیظ مواد‘

سفید فام پرست معاشرے میں تنوع کے خلاف ہیں۔

جہادی بھی ایسے ہیں۔ وہ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو ’گرے زون‘ میں سمجھتے ہیں اور ان کو مسلسل زور دیتے ہیں کہ یورپ کی اکثریت غیر مسلمان آبادی کے ساتھ گھلنے ملنے سے گریز کریں۔

دائیں بازو کے شدت پسند اور جہادی دونوں اپنے آپ کو خالص اور نیک سمجھتے ہیں لیکن وہ معاشرے میں شدید قسم کا بدلاؤ چاہتے ہیں۔

ان دونوں گروہوں میں عام یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر لگے گرافک مواد میں شدید دلچسپی لیتے ہیں۔ اس میں سے اکثر انٹرنیٹ پر چھُپا ہوتا ہے لیکن کچھ بھرتیوں کے لیے بانٹا بھی جاتا ہے۔

انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے اس میں سے کچھ مواد کو اتنا غلیظ بتایا ہے کہ ان پر نظر رکھنے والے عملے کی کونسلنگ کروانی پڑتی ہے۔

9/11 حملے

9/11 حملوں کے بعد آنے والے سالوں میں القاعدہ نے حملوں میں تباہ ہونے والی عمارتوں کی تصاویر کو لگاتار استعمال کیا۔

دولتِ اسلامیہ اس سے بھی ایک قدم آگے گئ اور دنیا کو اپنی ہولناک ویڈیوز سے چونکا دیا جن میں قیدیوں کے سر قلم کیے گئے اور آدمیوں کو ہم جنسیت کی ’سزا‘ سنانے پر اونچی عمارتوں سے پھینکا گیا۔

جبکہ ایک طرف اس سے دنیا کی اکثریت مسلمان آبادی کو دور دھکیل دیا گیا، دوسری جانب انھوں نے ایسے نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچا جن کی مجرمانہ نظریات تھے۔

2014 اور 2019 کے بیچ دولتِ اسلامیہ کی بنائی گئی ’خلافت‘ کے دوران ان کے نو سال کی کمسن یزیدی لڑکیوں کو جنسی غلامی میں رکھنے سے یورپ سے کئی ایسی بھرتیاں ہوئیں جن کا بچوں کی طرف جنسی رحجان تھا۔

سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کے انتہا پسند پرتشدد اور شیطانی تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کر کے گیمنگ اور موسیقی کے فورمز پر نئے اراکین بھرتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق ان کا مقصد آنے والی ’جنگوں‘ کے لیے لوگوں کو تیار کرنا ہے۔

’موافقت کا فرق‘

تاہم دونوں گروہ کے بیچ اگر ایک فرق ہے تو ان کی موافقت اور ہم آہنگی میں۔

عام طور پر جہادی اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ ان کا شریعت پر سخت نظریہ سب پر لاگو ہونا چاہیے۔

لیکن برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کے گروہ کالعدم تنظیم نیشنل ایکشن سے علیدہ ہونے کے بعد اب اکٹھے کام کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔

کچھ نسل پرستی چاہتے ہیں، کچھ ایسا علاقہ چاہتے ہیں جہاں صرف ان کے قوانین نافذ ہوں جبکہ چند نراج پسند ’سسٹم‘ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp