میٹھی شتابی


میں نے زرینہ کے ماں باپ کے گھر فون کرکے زینب کے گھر والوں کا پتہ کیا۔ میں زینب کی بہن سے بات کرنا چاہتا تھا۔

گھر کا فون نمبر تو مل گیا مگر مسئلہ سلجھنے کے بجائے کچھ زیادہ ہی الجھ گیا۔ زینب کی بہن کینیڈا میں رہتی تھی۔ وہ بہن کے جلنے کی خبر سن کر آئی اور مرنے کے تھوڑے دنوں کے بعد واپس چلی گئی۔ لہذا اس سے بات کرنے اور ملنے کا کوئی سلسلہ نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ زینب کے باپ نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے فون کی دوسری جانب الجھے ہوئے ٹیڑھے میڑھے تاروں کھمبوں کے سہارے گزرنے والی میلوں لمبی لائنوں، درختوں چھجوں سے الجھتی ہوئی دیواروں کے سوراخوں سے گزرتی ہوئی میری آواز نے اس بوڑھے جسم پر لرزہ طاری کردیا ہو۔ بڑی مشکل سے پھنسی پھنسی ہوئی آواز میں کسی بوڑھے نے کہا تھا، ”اب تو وہ مرگئی ہے اب کیا ہوسکتا ہے بھائی، کیوں پریشان کرتے ہو اب؟ مجھے مر جانے دو جیسا بھی ہوں ویسا ہی مرجانے دو۔ “ ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔

میں نے اپنے سیکریٹری کو لاکر کہا کہ ذرا کراچی پولیس سٹیزن لیاژن کمیٹی کے آفس میں جاکر پتہ تو کرے کہ مئی کی سترہ کو سول ہسپتال میں جل کر مرنے والی کسی زینب کی موت کا کوئی ایف آئی آر وغیرہ کٹا تھا کہ نہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کوئی معلومات مل سکیں تو اچھا ہوگا۔

اس نے جلد ہی پتہ کرکے بتادیا کہ کوئی ایف آئی آر نہیں کٹا تھا۔ ساتھ ہی اس نے ایک اور عقل مندی کی تھی کہ اپنے کسی دوست کے ذریعے سے سول لائنز ایریا کے تھانے دار سے بھی پتہ کرلیا کہ وہاں پر اس موت پر کوئی رپورٹنگ کیوں نہیں ہوئی؟ تھانے دار سے میں خود ملنے چلا گیا تھا۔

تھانے دار شریف آدمی تھا اس نے بتایا کہ زینب کی بہن تھانے آئی تھی اور جل کرنے والی کے بارے میں تفصیل سے لکھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، مگر ایف آئی آر نہیں کٹ سکی تھی۔ اس بے چاری نے بہت کوشش کی تھی کہ اس کیس کو رجسٹر کیا جائے مگر کہیں رجسٹریشن نہیں ہوسکی۔ وجہ بہت سادہ تھی، اوپر سے سخت پریشر تھا کہ کچے کاغذ پر جو چاہو لکھ لو ایف آئی آر کاٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نجانے کن کن لوگوں نے کس کس طریقے سے فون کرکے یہ بات سمجھائی تھی۔

بھائی میں شریف آدمی ہوں، بہت بہادر نہیں ہوں۔ خود چوری نہیں کرتا مگر افسروں کی بات بھی نہیں ٹال سکتا۔ وہ ایف آئی آر اور بہت سارے دوسرے ایف آئی آر کی طرف صرف اوپر والے کے پاس ہی کٹا ہے۔ وہی یہ سارے ایف آئی آر کاٹتا ہے اور وہی قیامت کے دن ان ایف آئی آر کی بنیاد پہ مقدمہ بنائے گا۔ اس کے پاس اس قسم کی ایف آئی آر کا انبار لگا ہوا ہے۔ ان سب کے ساتھ وہی فیصلہ کرے گا کہ کسے کیا سزا ملے گی۔ اسے نہ گواہوں کی ضرورت ہے نہ عدالتوں کی۔ اسے نہ وکیل چاہیئیں نہ ہی میڈیکل رپورٹ، اسے نہ پولیس والے درکار ہیں نہ ہی تحقیقات کرنے والے خفیہ ادارے۔ وہ خود ہی فیصلہ کردے گا۔ اس کی آواز میں شدید احساس شکست تھا اور شاید امید بھی۔

مجھے یہ بات واضح ہوگئی کہ زینب کو جلا کر مار دیا گیا۔ گھر میں ہی کسی نے یہ کام کیا تھا۔ ایسا روز ہوتا ہے نجانے کتنی عورتوں کو روز زبان کی کاٹ سے روح کے اندر تک دکھ دیا جاتا ہے نجانے کتنوں کے جسم پر ضرب لگا کر ان کی کھال ادھیڑی جاتی ہے اور نجانے کتنی زینب جیسی لڑکیوں کو جلا کر مار دیا جاتا ہے یا عزت کے نام پر قتل کرکے سرخرو ہوا جاتا ہے۔ زندگی کی گاڑی چلتی رہتی ہے، قومیں اپنے کاموں میں لگی رہتی ہیں ملک اسی طرح سے کاروبار زندگی چلاتے رہتے ہیں۔ اسمبلیاں، سینٹ، عدالت اور سیاسی لوگ ایسے قانون بناتے رہتے ہیں جن سے شاید بہت کچھ ہوتا ہوگا مگر زینب جیسی لڑکیاں نہیں بچ سکتی ہین۔ مرجاتی ہیں، سسک سسک کر، اپنی کالی جلی ہوئی ادھڑی ہوئی کھال کے ساتھ سرخ سرخ گوشت اور سفید سفید ہڈیوں کے ڈھانچے کے اندر۔ مجھے عجیب سا لگا تھا۔

دوسرے دن میں نے زرینہ کے دونوں بچوں کو بھی ہسپتال بلا لیا۔ دو خوب صورت چھوٹی چھوٹی بچیاں میرے کمرے میں سلیم کے ساتھ سہمی سہمی سی بیٹھی ہوئی تھیں۔ اداس باپ کی مسلسل دل جوئی کے باوجود ان کا پورا وجود چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ بے چین ہیں اندر سے باہر تک۔ اوپر سے نیچے تک۔ جسم سے روح تک۔ بچوں کو کیا پتہ تھا کہ ان کی ماں کس عذاب سے گزر رہی ہے، مگر انہیں یہ تو پتہ تھا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں ہے کسی ہسپتال میں داخل ہے، بیمار ہے ان سے دور نجانے کہاں؟

میں نے تھوڑی دیر ان سے بات کی پھر سلیم کو باہر لے جاکر بتایا کہ زرینہ کافی بہتر ہے۔ ابھی میں اس سے ملوں گا پھر فیصلہ کروں گا بچوں کو کب اس سے ملنا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ اب شاید وقت آ گیا ہے کہ بچے اپنی ماں سے ملیں مگر سارا دارومدار اس بات پر تھا کہ زرینہ میری بات کو سمجھتی ہے کہ نہیں اور وہ میرے سوالوں کا کس طرح جواب دیتی ہے۔

میں اس کے کمرے میں گیا، وہ جاگ رہی تھی۔ ایسا لگا جیسے وہ کافی سوئی ہے۔ اس کی بھاری بھاری پلکوں کے پیچھے اداس سی آنکھوں اس کے چہرے پر سب سے زیادہ نمایاں تھی۔

وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بستر پر نیم دراز بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر ایسے مسکرائی جیسے مجھے جانتی ہے۔ مجھے احساس ہوگیا کہ وہ مجھ پہ اعتبار کرتی ہے۔

میں نے پوچھا، ”کیسی ہو زرینہ؟ نیند آئی تھی؟ “ اس نے دھیرے دھیرے سر کو بلاکر کہا تھا کہ ہاں۔

میں نے فوراً ہی پوچھا، ”زرینہ زینب کیسے مری تھی بتاؤ گی نہیں؟ “

اسے جیسے جھٹکا لگا اور وہ فوراً ہی سنبھل کر بیٹھ گئی اور بڑی کڑی نگاہوں سے اس نے مجھے دیکھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس کی آنکھیں میرے چہرے میں سوراخ کرتی ہوئی میرے سر کے پیچھے سے نکل کر نجانے کہاں پر کیا کچھ دیکھ رہی ہیں۔

میں نے آہستہ سے کہا، ”اگر تم نے میری بات نہیں سنی، مجھے کچھ نہیں بتایا تو کیا ہوگا، بہت ساری اور زینبتیں مرتی رہیں گی۔ اسی طرح سے جلتی رہیں گی۔ وقت گزرتا جائے گا اتنا گزر جائے گا اتنا گزر جائے گا کہ تمہاری اپنی دونوں بیٹیاں بھی جوان ہوکر جلنے کے قابل ہوجائیں گی۔ تم کب تک خاموش رہوگی۔ اس وقت تک خاموش رہوگی جب ان کی باری آئے گی۔ تم کو، مجھ کو، ہم سب کو کچھ کرنا ہوگا۔ ایک بار فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم لوگ یہ تماشا دیکھتے رہیں گے اور زینبتیں اسی طرح جلتی مرتی رہیں گی۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6