غیر یقینی کی کیفیت سے باہر نکلنا ہوگا



پاکستانی معاشرہ کا ایک بحران تیزی سے بڑھتی ہوئی بے یقینی , بداعتمادی , خوف یا بے اعتباری کی کیفیت کا ہے ۔اس کیفیت کا عملی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے مسائل سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے ۔یہ کیفیت محض عام لوگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ جو رائے عامہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے وہ بھی حالات سے مایوس نظر آتا ہے ۔نجی مجالس ہوں یا علمی و فکری مجالس پر مبنی سیاسی و سماجی بیٹھکیں ہوں لوگ خود بھی مایوس ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی فکر سے مایوسی میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ وہ علم و فہم جو لوگوں میں حالات کے بدلنے کی امید نہ دے وہ اپنی اہمیت بھی کھودیتا ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ جو معاشرے میں موجود کیفیت ہے اس کے سیاسی , سماجی اور اخلاقی اسباب کیا ہیں ۔ کیونکہ جو حالات بظاہر دکھائی دیتے ہیں وہ اچانک تو پیدا نہیں ہوئے بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہمارا سیاسی او رسماجی سفر ہے جو ہمیں روشنی کی بجائے اندھیرے کی طرف دکھائی دیتا ہے ۔
سوا ل یہ ہے کہ یہ جو غیر یقینی اور عدم اعتماد پر مبنی کیفیت ہے یہ کیونکر پیدا ہوئی ہے ۔ اصولی طو رپر جو لوگ طاقت میں ہوتے ہیں یا حکمرانی کے نظام سے جڑے ہوتے ہیں جب وہ مسائل کے حل کرنے والوں کی بجائے مزیدحالات کی خرابی کے ذمہ دار بن جائیں تو لوگوں میں ان طاقت ور طبقات کے بارے میں مایوسی کا پیدا ہونا فطری امر بن جاتا ہے ۔سیاسی قیادت کا کمال یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ برے حالات میں سے بھی اچھے حالات پیدا کرکے اپنی صلاحیتوں کو منواتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ سیاسی قیادت پر اعتماد بھی کرتے ہیں اور ان کے عملی اقدامات لوگوں میں سیاست او رجمہوریت کی ساکھ کو بھی قائم کرتے ہیں ۔لیکن ہماری سیاست او رجمہوریت دونوں پر ہی سوالیہ نشان ہے ۔کیونکہ ہم تو ایک مصنوعی سے جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
یہ جو عدم اعتماد پرمبنی سیاست ہے اس میں کوئی ایک فریق ذمہ دار نہیں ۔ سب ہی فریقین ان حالات کے براہ راست ذمہ دار ہیں جو ہمیں آج بطور ریاست یا معاشرہ درپیش ہیں ۔کیونکہ سماج کو بدلنے او رحالات میں بہتری لانے کے لیے اقتدار یا حکمرانی کے سیاسی او رجمہوری نظام کی خوبی یہ ہوتی ہے ان کے پاس حالات سے نمٹنے کا ایک واضح اور شفاف روڈ میپ ہوتاہے ۔ یہ لوگوں کو احساس دلاتا ہے کہ اگرچہ حالات بہت خراب ہیں لیکن حکمرانی کے نظام سے جڑے لوگوں نے ایک ایسا روڈ میپ نہ صرف تیار کیا ہے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کررہا ہے جو یقینی طو رپر حالات کو بدلنے میں معاون ثابت ہوگا ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی روڈ میپ ہی نہ ہوتو وہ لوگوں کو اور زیادہ حکمرانی کے نظام سے
لاتعلق کردیتا ہے ۔
عمران خان کی حکومت کا کمال یہ ہے کہ اس نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی لوگوں میں اپنی جذباتی سیاست کی بنیاد پر بہت زیادہ توقعات باندھ دی تھیں ۔ ایک ایسا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جیسے ہی اقتدار تحریک انصاف کو ملے گا تو ایک جادوئی عمل سے کئی دہائیوں سے بگڑ ا ہوا نظام خود ہی درست ہوجائے گا ۔لیکن یقینی طور پر وزیر اعظم عمران خان کو یہ احسا س ہوگیا ہوگا کہ حزب اختلاف اور حکومت کی سیاست کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ اس وقت حکومت کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ بنتی جارہی ہے کہ موجودہ حالات بالخصوص معاشی بحران سے نمٹنے میں حکومت کی صلاحیتوں کا بڑا فقدان ہے ۔حکومتی معاشی ٹیم میں ہونے والی تبدیلیوں نے بھی اس تاثر کی حمایت کی ہے کہ حکومت کو معاشی عمل میں سخت بحران کا سامنا ہے ۔
لوگوں کو غیر یقینی کی کیفیت سے نکالنے میں حکومت کو چھ بنیادی باتوں پر توجہ دینی ہوتی ہے ۔ اول لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ عملی طور پر حکومت کی حالات کو بہتر بنانے میں درست سمت کی جانب گامزن ہے ۔ دوئم لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ حکمرانی کا نظام عام لوگوں اور بالخصوص کمزور طبقات کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے او ران کے حقیقی مسائل پر توجہ دی جارہی ہے ۔ سوئم حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست, حکومت اور قیادت کا عوام میں اعتماد کا رشتہ قائم کرے او رسب کو ساتھ ملا کرمل کر ملک میں اصلاحات کی طرف توجہ دے ۔چہارم مجموعی طو رپر حکومت یا سیاسی قیادت لوگوں میں حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ ہر مشکل حالات میں پیچھے ہٹنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونگے ۔پنجم یہ کوشش کی جاتی ہے کہ حکمرانی کا نظام منصفانہ , شفاف اور لوگوں کی رسائی میں ہو او راس کی سیاسی ساکھ بھی قائم رہے او رلوگوں میں حکومت کے بارے میں ملکیت کا احساس پیدا ہو کہ یہ نظام او رحکومت ہماری اپنی ہے ۔ششم اچھی حکومت معاشرے میں موجود اہل دانش اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کی مدد سے لوگوں کو لاتعلقی کی بجائے حکمرانی کے نظام میں جوڑتی ہے کہ وہ باہر بیٹھنے کی بجائے اندر رہ کر اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔
غیر یقینی کی کیفیت سے باہر نکلنے کا ایک بڑا علاج حکمرانی کے نظام میں موجود تضادات کی سیاست کا خاتمہ بھی ہوتا ہے ۔ ہمیں لوگوں کی فکری راہنمائی جذباتیت کی بجائے عقل و فہم اور دلیل کی بنیاد پر کرنی چاہیے ۔ لوگوں کے سامنے حقایق چھپانے کی بجائے ان کے ساتھ سچ بولنا ہوگا تاکہ قیادت کا حقیقی اعتماد قائم ہو ۔یہ سمجھنا ہوگا کہ محض نعروں اور مخالفانہ تقریروں کی مد د سے حکمرانی کے نظام میں فتح حاصل نہیں کی جاتی اور اگر ایسی صورت میں فتح مل بھی جائے تو وہ عارضی ہوتی ہے ۔ لوگوں کے سامنے جب سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہوجائے اور ان کو لگے کہ ان کی اپنی سیاسی قیادت بھی ہم سے جھوٹ بول رہی ہے یا وہ اپنے ذاتی مفادات کے تحت سیاست کررہے ہیں تو پھر تبدیلی کا عمل بھی پیچھے رہ جاتا ہے او رلوگ بھی وہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو حکمران طبقہ کرتا ہے ۔
عمران خان کی حکومت کیس سامنے چیلنجز کا ایک بڑا طوفان ہے ۔ ان چیلنجز سے نمٹنا یقینی طو رپر آسان نہیں ہے ۔لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ان چیلنجز سے نہیں نمٹا جاسکتا تو یہ بھی درست نہیں ۔کیونکہ نظام کی تبدیلی میں مایوسی پیدا کرنا یا پھیلانا دونوں ہی غلط عمل ہے ۔اصل بات نظام میں موجود خرابیوں کو سمجھنا اور اس سے جڑے مسائل کا درست ادراک کرنا ہوتا ہے ۔ اگر درست حکمت عملی کے ساتھ مسائل سے نمٹا جائے تو یقینی طو رپر درست نتائج بھی مل سکتے ہیں ۔عمران خان کی حکومت کو اپنی حکومت کے بارے میں بڑھتی ہوئی مایوسی یا ان کے سیاسی مخالفین کی سخت حکومت ناکام مہم کا جواب بھی دینا ہوگا ۔ یہ جواب محض جوابی ردعمل یا ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی بنیاد پر ممکن نہیں ۔ عمرا ن خان کی حکومت کا جواب عملی طو رپر اپنی حکومتی کارکردگی سے جڑا ہونا چاہیے ۔
یہ جو عوامی سطح پر حکومتی ناکامی کی کیفیت ہے یہ اسی صورت میں ختم ہوگی جب حکومت وہ سب کچھ کرسکے گی جس کے وہ نعرے لگاتی تھے یا وہ تبدیلی کا خواب دکھاتے تھے ۔ہمیں اب روائتی اور سمجھوتے کی سیاست کے مقابلے میں ایک نئی طرز کی سیاست درکار ہے ۔ ایسی سیاست جس میں ہر سطح پر ہر فریق کسی نہ کسی کو جوابدہ ہو اور جو کچھ بھی حکمرانی کے نظام میں ہورہا ہے اس میں عام آدمی کو فوقیت حاصل ہو۔لیکن یہ سب کچھ بھی کسی جادوئی عمل سے نہیں ہوگا ۔ اس عمل کو پیدا کرنے میں خود عام لوگوں سمیت اہل دانش کو ایک بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کرنا ہوگا ۔کیونکہ دنیا کے جمہوری ملکوں میں عوامی دباو پر مبنی سیاست ہی حکمران طبقہ کی سمت کو درست کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور حکمرانی سے جڑے افراد پر ڈر اور خوف ہوتا ہے کہ اگر ہم نے کچھ غلط کیا تو لوگوں ہمیں قبول نہیں کریں گے ۔
ہمارے اہل دانش کو بھی ماتم کی دنیا سے باہر نکلنا ہوگا اور لوگوں میں جہاں امید کو پیدا کرنا ہے وہیں ان میں نظام میں موجود خرابیو ں سے لڑنے کی صلاحیت کو بھی اجاگر کرنا ہے ۔یہ رویہ کہ پاکستان نہیں بدل سکتا یا طاقت ور مافیا کو توڑنا ممکن نہیں او رلوگوں میں یہ سوچ پیدا کرنا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے خو دایک غلط رویہ ہے ۔لوگوں کو اپنی کمزوری بنانے کی بجائے ان کو اپنی طاقت بنانا ہوگا او رلوگوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ایک بہتر پاکستان کی جنگ کو لڑنا ہوگا ۔مایوسی گناہ ہے اس سے خود بھی نکلیں اور دوسروں کو بھی نکالیں کیونکہ مایوسی سے باہر نکل کر ہی ہم روشنی کا سفر تلاش کرسکتے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).