عمران خان کی القادر یونیورسٹی سوہاوہ کی تقریر کا مکمل متن


ایمان کوئی کسی کو زبردستی نہیں دے سکتا۔ یہ تو اللہ کا ایک تحفہ ہے۔ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ لیکن کم از کم ہم اپنے نوجوانوں کو آنے والی نسلوں کو کم از کم یہ تو ان کو صحیح تعلیم دے سکتے ہیں اپنے دین کے اوپر۔ ان کو بتا سکتے ہیں کہ اسلام کیسے دنیا میں، مغربی دنیا کا جو کلچر ہے، جس طرح وہ ہمارے بچوں پہ نوجوانوں پہ حاوی ہوا ہوا ہے، جس طرح موبائل فون کی وجہ سے بڑا مشکل ہے ہمارے بچوں کو یہ جو مغربی کلچر جو ان کے اوپر اب حاوی ہوا ہوا ہے، بڑا مشکل ہے اس کا مقابلہ کرنا۔ جب تک آپ ان کو یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کا دین آپ کی تاریخ کیا ہے، اسلام کیا ہے، اور پھر سے میں کہتا ہوں کہ کیونکہ مدینہ کی ریاست وہ ماڈل تھا جس کی بنیاد پر اسلام سات سو سال اور ہزار تک دنیا کا عظیم سویلائزشین رہا ہے، وہ بتانا پڑے گا اپنے بچوں کو۔

کم از کم ہمارے بچوں کو جب یہ پتہ چل جائے، جس طرح علامہ اقبال، میں علامہ اقبال کی اس لئے مثال دیتا ہوں کہ علامہ اقبال اپنے دین کو بھی سمجھتے تھے، اپنی اسلام کی تاریخ کو بھی سمجھتے تھے، قرآن کو بھی سمجھتے تھے، پھر انہوں نے جا کر مغربی فلسفے بھی سارے سمجھے، سارے مغربی سکالرز کو بھی سمجھا، باہر بھی پڑھے، اور پھر جو ان کا فلسفہ ہے آج تک مسلمانوں کے لئے جو انہوں نے تب تقریباً اسی سال نوے سال پہلے باتیں کی تھیں آج بھی ان کی باتیں آپ ان کے کلام پڑھیں تو ایسے لگے گا جیسے آج وہ ہمیں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اس لئے کیا کہ ان کو اپنی بھی، اپنی تاریخ کا بھی پتہ تھا اور مغربی فلسفوں کا اور سائنس کا بھی پتہ تھا۔

ہم یہ چاہتے ہیں کہ آگے جو پاکستانی ہمارا جو ہمارے جو سٹوڈنٹ نکلیں جو ہمارے نوجوان نکلیں جو ہمارے سکالرز نکلیں وہ اپنا بھی سمجھیں کہ پاکستان بنا کس لئے تھا پاکستان کا نظریہ کیا تھا وہ سارے مغربی تعلیم بھی پڑھیں وہ سائنس بھِی پڑھیں اور پھر انشا اللہ آپ یہ دیکھیں گے کہ یہ پاکستان کیسے اٹھتا ہے۔

دیکھیں قوم تب بنتی ہے ایک نظریے کے اوپر۔ یہ جو مسئلے ہیں کہ معاشی بحران ہے، یہ تو آتا جاتا رہتا ہے۔ قوموں کے اوپر اچھے برے وقت آتے ہیں۔ لیکن اگر قوم کا نظریہ چلا جاتا ہے تو وہ قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔

تو انشا اللہ القادر یونیورسٹی ایک وہ یونیورسٹی بنے گی جو کہ اس ملک میں مسلسل کام کرے گی اسلام کے نظریے۔ ۔ ۔ مدینہ کی ریاست کو سمجھائے گی کہ کیا اس کے اصول تھے۔ ریسرچ کرے گی۔ تاریخ بتائے گی۔ ہمارے بچوں کو بتائے گی۔ سکالر شپ دیں گے۔ یہاں پینتیس فیصد بچوں کو سکالر شپ دلوائی جائے گی، مفت سارے پاکستان سے بچوں کو ہم یہاں لائیں گے۔ ان کو ٹھہرائیں گے ان کا کھانا پینا بالکل مفت ہو گا اور باقی پینسٹھ فیصد پیسے دے کے آئیں گے۔

یہ وہ نمل یونیورسٹی کی طرز پر ہم چلائیں گے لیکن اس کا مقصد اور ہو گا۔ یہ پاکستان میں انشا اللہ فیوچر لیڈر پروڈیوس کرے گی۔ ہمارے آگے سے بڑے بڑے سیاستدان لیڈر ادھر سے آئیں گے اور وہ جب آئیں گے لیڈرز وہ بڑی سوچ لے کر آئیں گے۔

وہ بدقسمتی سے آج کی جو سیاست زیادہ تر ہمارے سیاست دانوں کو پڑی ہوتی ہے کہ جی میرا پٹواری رکھوا دو میرا وہ تھانیدار رکھوا دو میرا وہ ڈی سی رکھوا دو، ڈیولپمنٹ فنڈ مل جائے، وہ جو بڑی سوچ چاہیے جو ایک لیڈر کو بڑی قوم کی سوچ چاہیے وہ تب آئے گی جب اس کو پتہ چلے کہ وہ کس نظریے کے لئے سیاست کر رہا ہے۔ اور انشا اللہ وہ ہم لیڈرز ہم القادر سے پروڈدیوس کریں گے اور مجھے آج بڑی خوشی ہے، میں آج بڑا خوش ہوں کہ اج ایک وہ قدم میں نے اٹھایا ہے جو میں تئیس سال سے سوچ رہا تھا کہ جب بھی موقع ملے گا میں اس طر کی ایک یونیورسٹی بناوں گا۔

میں یہ کہہ دوں کہ یہ یونیورسٹی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہے۔ یہ گورنمنٹ کے فنڈز کے اوپر نہیں بن رہی۔ یہ میں نے لوگوں سے پیسے اکٹھے کیے ہیں۔ جس طرح میں نے نمل ییونیورسٹی بنائی ہے جس طرح شوکت خانم اسی طرح یہ القادر یونیورسٹی ہے اس کو کوئی ہم سرکاری فنڈ سے نہیں بنا رہے۔ یہ میں نے جس طرح فنڈ ریزنگ کی ہے اور یہ انشا اللہ اسی طرح چلائیں گے جس طرح ہم نمل یونیورسٹی چلواتے ہیں۔ ہم اچھے اچھے ذہین بچوں کو سارے پاکستان سے اکٹھا کرکے یہاں لے کے آئیں گے۔ میرٹ پہ یہ چلے گی۔ انشا اللہ آپ یہ دیکھیں گے کہ یہ یونیورسٹی پھر اس کے کیمپسز اور بھی پاکستان میں باقی ملک کے اندر بھی لے کر جائیں گے۔ بہت بہت شکریہ پاکستان زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3