پاکستان کیسے دبئی بنے گا؟


عرب دنیا میں بربری Burberry اور گوکی gucci کے پہناووں والے اور والیاں بھی مصلوں پر بیٹھے ملتے ہیں اور ان کو کوئی بھی جاہل، ان پڑھ، قدامت پسند اور پینڈو نہیں کہتا۔ مذہب اور امارت میں یقینا کوئی تعلق نہیں۔ اخلاقیات اور رتبے میں بھی کوئی جھگڑا نہیں۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہیں۔ یہاں بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے دفتری اوقات میں سر پر ٹوپیاں لئے قرآن پڑھتے ملتے ہیں۔ عرب امارات ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں انسان مسلمان ہونے پر فخر کرتا ہے، جہاں مسلمان غیر مسلم کو متاثر کرتا ہے، اپنی اونچی اوقات کے ساتھ اپنے رویے اور رواج سے بھی اور اس کی بہترین پریزنٹیشن سے بھی۔

کسی بھی قوم کو بنانے کے لئے ایک مضبوط نظریہ ہونا اور پھر اس پر مضبوطی سے فخریہ جمے رہنا بہت ضروری ہے پھر چاہے وہ کسی مذہب کی بنیاد پر ہو یا کسی اخلاقی درجے کے آئین کے نام پر۔ دنیا کی بڑی ریاستیں عیسائی ہیں، یہودی، مسلمان یا ہندو! یہ نام ایک ہونا اور کردار دوسرا ہونے کا کوئی وجود نہیں ہوتا نہ انسانوں کی تقسیم میں نہ قوموں کے معیار میں۔ قوموں کو تخلیق کیا جاتا ہے۔ صرف پیسہ لگا کر عمارتوں کو تعمیر نہیں کیا جاتا۔

ملک نہ تیز رفتار ٹرینوں سے بنتے ہیں نہ ٹیڑھے میڑھے، بل کھاتے پلوں سے۔ ملک ان رستوں پر چلتے ہوئے عوام سے اور ان کے رویوں سے، ان کے اچھے برے معیارات سے، فکر اور عمل کی بلندی سے تعمیر ہوتے ہیں۔ دنیا پر راج کرنے والی قوموں نے کلیشے بن جانے والے مذاہب کے نام بدل کر ان کا نام اخلاق رکھ لیا اور اپنا لیا۔ اور ہم دیکھ کر، سن کر نہ نقل کر کے ہی، مذہب کے نام پر نہ وقار اور اخلاق کے نام پر، ان رویوں اور روایات کو اپنا سکے جو مذہب بنا کر ہم پر اتارے گئے تھے یا ہم نے ان کو بالاتر سمجھ کر اپنایا تھا مگر آج تک اسے اپنی زندگیوں میں نافذ نہ کر سکے۔

ہم نے برتری کا معیار ذہنی اور اخلاقی گمراہی، بیمار رویے، اور بدتر اخلاق کو جانا۔ حکومتیں عوام کی صحت، سلامتی اور شعور کی ذمہ داری لے کر مضبوط ہوتی ہیں۔ اور متحدہ عرب امارات نے پچھلی چالیس دہائیوں میں یہ کام بہت محنت سے کیا ہے۔ اپنے مذہب، اپنی روایت کو اپنی شناخت کے لئے استعمال کیا ہے اور اس پر فخر کیا ہے۔ افراد کے رویے جیسے بھی ہوں، حکومتی لیول پر اور قومی سطح پر اجتماعی رویے وہ چیزیں ہیں جن کی نقل کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کی عمارات کی نقل سے پہلے ان کے اطوار کا تفصیلی جائزہ بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ سیاست کے ٹھیکیداروں نے یہ تاثر دیا ہے کہ میٹرو اور موٹر ویز یا بلند بالا عمارتیں دبئی کی پہچان ہیں اور یہی بنانے کے خواب پاکستانی عوام کو دکھائے جاتے رہے۔ ان بلند عمارتوں اور موٹر ویز پر چلنے والے عوام کو حکومتوں نے کس طرح ایک بامراعات آسودہ حال طبقہ بنا کر، بے اختیار رکھ کر مگر اعلی معیار زندگی دے کر کس طرح تعمیر کیا ہے اس کو کبھی اجاگر نہ کیا گیا۔

اماراتی عرب لوگوں کو سیاست کرنے کی آزادی نہیں۔ وہ گلی محلوں میں، ریسٹورنٹ اور کھلے بازاروں میں، قہوہ خانوں میں بیٹھ کر ہاتھ پر ہاتھ مار کر حکومت اور حکومتی نظام پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ وہ سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر حکومت یا حکومتی پالیسی کے خلاف ایک ڈھکا چھپا تبصرہ بھی نہیں کر سکتے۔ اور ان کو اس کی ضرورت بھی نہیں۔ کیونکہ بادشاہت کے ایک غیر پارلیمانی نظام میں تقریبا ہر اماراتی عربی کو اعلی تنخواہوں پر اعلی روزگار مہیا ہیں، گھروں کی عورتوں سے لے کر نوجوانوں تک سب کے سب باروزگار ہیں۔

حکومت کی طرف سے مفت یا محض نمائشی قیمت پر تعمیر شدہ گھر یا تعمیر کے لئے رقبہ ہر خاندان کو نہ صرف مہیا کیا جاتا ہے بلکہ زندگی کی آسائشوں کے لئے مختلف بہانوں سے وظیفے اور قرض بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ ضروریات زندگی کے لئے خصوصی رعایتی قیمتوں پر راشن کارڈ، صحت انشورنس کارڈ اور مفت یا بہت حقیر قیمت پر اعلی تعلیمی اداروں سمیت ہر سہولت اور آسائش ان کے دروازے پر مہیا کی جاتی ہے۔ پاکسان میں جہاں سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا دوسرا نام خواری اور بربادی ہو یہاں اس کا نام بہترین مہیا ادارے اور اعلی ترین سہولتیں ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے سرکاری ہسپتال اور سکولوں کا مقابلہ پاکستان کے مہنگے ترین پرائیویٹ ادارے بھی نہیں کر پاتے مگر یہ بات وہاں پر صاحب اختیار نہیں بتاتے۔ اماراتی عرب لوگ غریب نہیں، یا یوں کہیں کہ اپنی بادشاہت کی طوالت کے لئے ان کو غریب رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اماراتی عرب اس قدر آسودہ حال ہے کہ انہیں اس چیز سے غرض ہی نہیں کہ صدارتی نظام ہو کہ پارلیمانی، بادشاہت ہو کہ جمہوریت، جب تک ان کے لئے بہترین صحت اور تعلیم، بہترین رہائش اور عظیم مستقبل ان کے گھر کے دروازے پر موجود ہے ان کے لئے ہر چیز قابل قبول ہے۔

آسودہ حالی نے اماراتی عرب عوام کو شعور کی منزلیں طے کرنے میں مدد دی ہے۔ جب ہر ضرورت چیخے چلائے بغیر پوری ہونے لگے تو معاشرے رونا دھونا بھول جاتے ہیں۔ طمانیت اور وقار، دیکھنے سمجھنے کی صلاحیت اور ذہنی اور نفسیاتی بالیدگی خود بخود چہروں پر اور رویوں پر اترنے لگتی ہے۔ یہی فرق پاکستان اور امارات اور ان کے عوام کے چہروں پر ہے۔ جہاں ایک طرف سکھ چین کی بانسری بچتی ہے تو دوسری طرف ہر وقت قیامت کا سماں ہے۔

ایک طرف چہروں پر اطمینان ہے تو دوسری طرف وحشت۔ کیا کبھی دبئی کا نام کیش کروانے والے سیاستدان نے یہ کہا کہ ہم آپ کے چہروں کو دبئی کی عوام جیسا روشن کر دیں گے؟ سڑکوں پر بلب لگنے بھی بہت ضروری ہیں مگر ان سے پہلے کچھ روشنی چہروں پر بھی اترنے کی شدت سے ضرورت ہے۔ اماراتی عرب عوام کا سستا ترین معیار زندگی جہاں سے شروع ہوتا ہے وہاں ہمارے ملک کی اپر مڈل کلاس تشریف فرما ہے۔ امارات کا غریب تیسری دنیا کا وہ ایشیائی ہے جو انتہائی عامیانہ مزدوری مناسب معاوضے کی خاطر کرنے کے لئے پاکستان بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا سے آیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3