پاکستان کیسے دبئی بنے گا؟


متحدہ عرب امارات میں رمضان کیا شروع ہوتا ہے کہ رنگ و روشنی کی بہار امڈ آتی ہے۔ شہر کی گلیوں میں، عمارتوں پر، بڑی شاہراہوں پر رمضان کریم کے نام کے قمقمے جلنے بجھنے لگتے ہیں اور ہر کونہ خوبصورت چاند ستاروں اور لالٹینوں کی چمکتی روشنیوں سے جگمگا جاتا ہے تو اس روحانیت کا احساس ضرور ہوتا ہے جو تلاشنے کی خاطر پاکستان میں جستجو کا آغاز ہو چکا۔ مگر کیا کیجیے کہ کچھ تاثیر کن اخلاق واعمال اگر اداروں اور یونیورسٹیوں میں سکھائے جاتے تو آج ایک بڑی عوام ان اداروں سے نکلنے کے بعد بہترین اخلاق و کردار کی امت میں بدل ہی چکی ہوتی۔

مگر جب یہ ادارے ڈھنگ کے انساں پیدا کرنے میں ناکام رہیں تو پھر ان کی روحوں کو بالیدگی دینے میں کامیاب کیسے ہوں گے؟ یہ بھی ایک اسرار ہے۔ شاید ایک تحقیقی یونیورسٹی اس مقصد کے لئے بھی ضروری ہے۔ شاپنگ سنٹر میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ سپر مارکیٹ اپنی حدوں سے باہر نکل کر وسیع ہال میں پھیل چکی اور کجھوروں، انجیروں، اور میوہ جات کے ساتھ زعفران اور عربی اچار کے لوازمات خصوصی خیموں میں سج چکے۔ خیمے جو عرب تہذیب کا ایک لازم جزو ہیں، کجھور جو ان کی زندگی کا ایسا اہم حصہ ہے جیسے ہمارے ہاں پاکستان میں روٹی۔

جس کے بغیر کھانے کو کھانا گردانا ہی نہیں جا سکتا۔ اگرچہ اتنے سالوں میں اس قدر گرم علاقوں میں گرم تاثیر سے لبالب کجھوریں اس قدر کھانا ہمارا معدہ برداشت کر ہی نہیں پایا۔ مگر آفرین ہے کہ ایسی آگ میں جلتے صحرا میں رہتے ہیں اور کجھوروں کے ساتھ گرم کڑوے عربی قہوے پیتے ہیں اور یہ عرب لوگ خوش رہتے ہیں۔ یقینا ہر مٹی پر رہنے والے اسی مٹی سے بنتے ہیں اور اسی مٹی کے لئے بنتے ہیں۔ شاید یہی وہ راز ہے کہ اس کی حدوں سے دور جا کر بھی انساں اپنی مٹی بھول نہیں پاتا۔

چناچہ یہاں پر گزاری دہائی ہمیں عرب نہیں بنا پائی اور ان کی شہری زندگیوں میں جا بجا ائیر کنڈینشنگ، لگثری، سہولیات کا افراط ان کو اپنے خیموں اور لالٹینوں کو بھلا نہیں پایا۔ اماراتی عرب بی ایم ڈبلیو، پراڈو اور لینڈ کروزرز سے نکلتے ہیں تو اکثر ننگے پاؤں ہوتے ہیں اور مسجد کے گرم صحن میں تپتی دھوپ میں سجدہ کرنے لگتے ہیں جہاں ہمارے غریب ملک کے لوڈ شیڈنگ سے بھرپور مہینوں میں پنکھوں کے بغیر رہنے والے عوام بھی پاؤں اچھال اچھال تھک جاتے ہیں۔

رمضان کی شروعات سے ہی ہر جگہ علامتی اور فنکشنل قسم کے خیموں اور لالٹینوں کی بہتات ہو جاتی ہے۔ کہیں محض خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے اور کہیں روزہ داروں کی روزہ کشی کے لئے! پھر چاہے کسی مصروف سڑک کا کنارہ ہو یا شیخ زید مسجد کا وسیع و عریض دالان سفید خیموں سے اٹ جاتا ہے۔ شیخ زید مسجد جہاں بڑے بڑے ان گنت خیمے نصب کر کے ان میں دریاں بچھائی جاتی ہیں اور ان پر روزانہ سینکڑوں روزہ دار خاندانوں اور افراد کو بہت ترتیب اور تہذیب کے ساتھ بٹھا کر افطار کی دعوت کی جاتی ہے۔

یہاں اعلی معیار کا بہترین کھانا مفت مہیا کیا جاتا ہے جیسا شاید ہم پاکستان میں فائیو سٹار ہوٹل سے بھی توقع کرتے ڈرتے ہیں، اور یقینا بات معیار کی ہی ہے کہ وہاں اپنے پاکستان میں خوبصورت پرتعیش کھانا بھی بندہ سونگھ سونگھ کھاتا ہے اور دل میں دعائیں کرتا ہے کہ یاخدا بکرا ہی ہو اور صحت مند بھی! گلی محلے میں پھرتی کوئی اور مخلوق نہ ہو۔ صرف شیخ زید مسجد ہی نہیں، یہی پریکٹس حکومتی یا نجی لیول پر ہر مسجد میں دہرائی جاتی ہے۔

مسجد میں اور شاہراؤں پر رضاکارانہ طور پر بانٹا جانے والا یہ افطار کا انتظام خصوصی محکلمے کے زیر انتظام بہترین نگرانی اور معیار کے ساتھ تیارکروایا جاتا ہے اور اعلی ترین انتظامی صلاحیت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی اصل ترقی دیکھنی ہو تو اس کی بلند و بالا عمارتیں اور کارپٹڈ سڑکیں نہیں، ماہ رمضان میں شیخ زید مسجد میں جا کر یہ افطار خیمے دیکھ لیں۔ شاید ہی ایسا نظم و نسق آپ کو یورپ اور امریکہ میں ملے۔

عوام کی فلاح اور تہذیب ہی کسی قوم کی سب سے بڑی ترقی ہوتی ہے۔ وہ نہ ہو تو اونچی عمارتوں میں پھرتی تیز رفتار میٹرو بھی کوڑے کے ڈھیر پر لگے سنگ مر مر سے زیادہ نہیں لگتی۔ عرب دنیا کو قنوطی سمجھا جاتا ہے مگر یہ ہمارے پاکستانی معاشرے سے بہت زیادہ پرسکون، کشادہ دل اور مذہبی ہے۔ عرب لوگ نمازوں کے عادی ہیں، ان سے گھبراتے نہیں۔ اذان ہوئی اور ہاتھ باندھے جائے نماز بچھا کر جہاں تھے وہیں کھڑے ہو گئے۔ پاکستان میں کتنے لوگوں کی کاروں میں جائے نماز ہوتے ہیں؟

نماز نہ پڑھنے والے پاکستانی یہاں آ کر اپنی کاروں میں جائے نماز رکھنے لگتے ہیں کہ جدھر دیکھتے ہیں عرب قوم کو بانماز دیکھتے ہیں اور شرمندہ ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ ایک روایت سمجھ کر سیکھ ہی جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو اکثر تصاویر آپ دیکھتے ہوں گے سڑک کے کنارے کھڑے نمازیوں کی وہ اکثر ان ہی ریاستوں کی تصاویر ہوتی ہیں جہاں ایشیائی باشندوں کو لے جاتی لیبر کی بس بھی اذان ہونے پر سڑک کنارے نماز کے لئے رک جاتی ہے۔

ان پر خدا کی کرامات کے پیچھے کہیں نہ کہیں اس نماز کی برکت بھی ہو گی جو یہ عرب قوم اپنے کاندھوں پر ایسے اٹھائے بیٹھی ہے جیسے اس کا کوئی بوجھ ہی نہیں۔ ان کی مسجدیں رمضان کے علاوہ بھی ہمیشہ بھری رہتی ہیں اور ان کی پارکنگ میں بڑی بڑی مہنگی گاڑیوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ ایک ہماری قوم ہے کہ آج تک یہی فیصلہ نہیں کر پائی کہ نماز پڑھ کر قدامت پسند بننا ہے یا نہ پڑھ کر لبرل؟ مذہب اپنا کر غریب مسکین دکھائی دینا ہے یا غیر مذہب ہو کر نواب!

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3