’دیسی دماغ ولیمے کی فوٹو سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا‘


پاکستانی سیاست میں بھونچال لانے والی افطاری نے جہاں بہت سارے نئے موضوعات پر بحث کو جنم دیا وہیں ایک پرانی اور دہائیوں سے چلنے والی ’عورت سے نفرت‘ پر مبنی بحث ایک بار پھر سوشل میڈیا پر گرم ہے۔

اگر مریم نواز کی جگہ اس افطاری میں حمزہ شہباز اور آصف علی زرداری ہوتے تو کس قسم کے ٹرینڈز ہوتے؟

کیا کوئی اینکر یہ سوال پوچھتا کہ حمزہ کی بیوی کہاں ہیں؟

مگر چونکہ عورت ہونا ویسے ہی بحث کو ایک نیا رخ دیتا ہے تو اس افطاری کی تصاویر پر جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں بلکہ بعض باتیں تو ایسی تھیں کہ انہیں یہاں نہیں لکھا جا سکتا ہے۔

ایک خاتون صحافی نے مریم اور بلاول کی تصویر پر کمنٹ کرتے ہوئے سوال کیا کہ ‘کیپٹن صفدر کہاں ہیں؟’

مگر اس کے نیچے ہی ایک صارف نے انہیں جواب دیا کہ ‘کیا آپ چاہتی ہیں کہ ہر بار جب ایک شادی شدہ عورت کام یا کسی سلسلے میں گھر سے نکلتی ہے تو اس کا شوہر اس کے ساتھ لازمی ہو؟ جب آپ اپنی ملازمت میں مصروف ہوتی ہیں یا ٹاک شو کر رہی ہوتی ہیں تو یہ بندہ کہاں ہوتا ہے؟’

ان صاحب نے اپنے ٹویٹ کے ساتھ ان کے شوہر کی تصویر بھی لگائی۔

اس پر ایک خاتون نے جواب میں لکھا ‘یہ محترمہ اینکر ہے تو کیا جب یہ پروگرام کرتی ہے اگر شادی شدہ ہے تو شوہر کو ساتھ بٹھا کر کرتی ہے؟ اگر غیر شادی شدہ ہے تو کیا باپ بھائی ساتھ بیٹھا ہوتا ہے؟ یہ گھٹیا سوچ ہر شعبے میں عورتوں کے لیے رکاوٹ ہے’۔

ان دونوں ٹویٹس کے نیچے دونوں خواتین کو جس قسم کے نازیبا کمنٹس کا نشانہ بنایا گیا وہ بھی نفرت پر مبنی ہیں۔

مہوش اعجاز نے لکھا کہ ‘مریم جوان بچوں کی ماں ہیں مگر دیسی دماغ ولیمے کی فوٹو سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے جب وہ انہیں ایک مرد کے ساتھ بیٹھا دیکھتے ہیں۔’

آئمہ کھوسہ نے ٹویٹ کی کہ ‘جن لوگوں کے پاس بلاول کی افطار پر جائز تنقید کے لیے کچھ نہیں ہے وہ اب باڈی لینگیوج کے ماہر بنے ہوئے ہیں۔’

وقاص علوی نے لکھا ’میں نے سوشل میڈیا پر معاشرے کی زوال پزیری دیکھی ہے۔ عورت کی تذلیل، بدکلامی، بیہودہ مذاق، الزامات اور مخالفین کے لیے صرف نفرت، حقارت، تضحیک ہماری تربیت اور ذہنیت کی آئینہ دار ہے۔‘

تسنیم احمر جو عکس ریسرچ سینٹر کی بانی ہیں سے جب یہی سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے معاشرے میں اب بھی عورت کا پبلک میں آنا یا کسی ذمہ دار عہدے پر فائز ہونے کی قبولیت نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا نظام پدرشاہی نظام ہے اس لیے جب کسی چیز پر آپ کی رائے نہیں چلتی تو آپ اس پر ذاتی طور پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ جیسے بلاول کی ذات پر حملے ہو رہے ہیں’۔

تسنیم احمر کے مطابق ‘ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ اور مغرب میں بھی ایسا ہی مسئلہ ہے۔ آپ ہیلری کلنٹن کے خلاف مہم دیکھ لیں۔ اور اس سارے میں آپ کسی حد تک جا سکتے ہیں۔ عورت کو ابھی بھی اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جیسے مریم کو ٹویٹ میں جواب دینا پڑا کہ حمزہ میرا چھوٹا بھائی ہے’۔

معروف اینکر عاصمہ شیرازی جنہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ‘اصل میں اس کے پیچھے وہ مخصوص سوچ ہے۔ جس کے تحت آپ صرف دوسرے کو طعنہ مار سکتے ہیں، گالی دے سکتے ہیں۔ اور اسے باقاعدہ ایک سیاسی مقصد کے تحت پروان چڑھایا گیا ہے۔ مگر اس سوچ نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جو لوگ آپ کو سوشل میڈیا پر گالی دے رہے ہوتے ہیں، ریپ اور جنسی تشدد کی دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں، وہ نہیں دیکھتے کہ جس کے لیے وہ ایسا کر رہے ہیں اس کی عمر کیا ہے، اس کا مرتبہ کیا ہے۔ تو مریم کی جگہ کوئی اور عورت بھی ہوتی تو ایسا ہی ہوتا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp