افطار پارٹی عوام کے ساتھ مذاق نہیں تھا !


تاہم 6 اگست 1990 کو بے نظیر حکومت معزول کئے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ احتساب ہی کو انتقام کا صحیح طریقہ سمجھتی ہے۔ سندھ میں جام صادق علی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا جو خود کو غلام اسحاق خان کا تھانیدار قرار دیتے تھے۔ آصف علی زرداری کو بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا اور وہ نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران سارا وقت جیل میں رہے۔ جام صادق علی کی چیرہ دستیوں کی کچھ تفصیل پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا سے معلوم کی جا سکتی ہے۔

معروف کالم نویس ایاز امیر نے جام صادق سے پوچھا کہ آپ کی حکومت پر الزام ہے کہ مخالف سیاسی خواتین کے نازک اعضا میں سرخ مرچیں ڈالی جا رہی ہیں۔ جام صادق علی نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ نہیں، ہم تو آج کل اس مقصد کے لئے ٹوبیسکو ساس (Tabasco Sauce) استعمال کر رہے ہیں۔ سردار شوکت حیات کی صاحبزادی سے جنسی زیادتی کا الزام غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت پر لگا تو دیانت کے پتلے غلام اسحاق خان نے کہا کہ میرے داماد کو چھوڑیں، یہ دیکھیں کہ دوسروں کے داماد کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ غلام اسحاق خان کی ضرب المثل دیانت داری کا نقطہ کمال یہ تھا کہ اپریل 1993 میں آصف علی زرداری کو جیل سے نکال کر سیدھا ایوان صدر میں لایا گیا جہاں غلام اسحاق خان نے ان سے نجکاری کے نگران وفاقی وزیر کا حلف اٹھوایا۔

اس تجربے کے بعد بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے دوسرے عہد اقتدار میں احتساب کا آزمودہ نسخہ اختیار کر لیا۔ قائد حزب اختلاف نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کی توہین آمیز گرفتاری کا واقعہ تاریخ کا حصہ ہے۔ تاہم انتقام کا یہ کھیل یک طرفہ نہیں تھا۔ مرتضی بھٹو قتل کیس کے حقائق کبھی سامنے نہیں آ سکے اگرچہ شعیب سڈل آج بھی پاکستان کا تحقیقی دماغ سمجھے جاتے ہیں۔ حیدر آباد کے پکا قلعہ قتل عام، مرتضیٰ بھٹو قتل، 12 مئی 2007، ماڈل ٹاؤں لاہور فائرنگ اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تفصیلات کبھی سامنے نہیں آ سکتیں۔ ان تمام واقعات کا دھاگہ ناگزیر طور پر لیاقت علی خان کی شہادت اور مارچ 1973 میں لیاقت باغ فائرنگ کیس سے بندھا ہے۔ اتنا اشارہ کافی ہے کہ 20 ستمبر 1996 کو مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد فاروق لغاری سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے ایک قہقہے کی صورت میں اپنا ردعمل دیا تھا۔

5 نومبر 1996 کو بے نظیر بھٹو حکومت ختم کرنے کی رات آصف علی زرداری لاہور کے گورنر ہاؤس سے گرفتار کئے گئے اور انہیں احتساب کے نام پر 2004 تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ اس احتساب کی کہانی آصف زرداری کی زبان پر ان زخموں کے نشان بیان کرتے ہیں جن کے باعث ان کے لہجے میں آج بھی معمولی لکنت محسوس کی جا سکتی ہے۔ 1997 سے 1999 تک نواز شریف حکومت میں کئے گئے احتساب کی کچھ تفصیل لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک قیوم کی اس ٹیلی فون کال میں موجود ہے جس کا انکشاف آئی بی کے سابق ڈائریکٹر مسعود شریف نے کیا تھا۔ اس احتساب کی کچھ گواہی حامد میر سے بھی لی جا سکتی ہے جنہوں نے کمرہ عدالت میں سیف الرحمن کو گڑگڑا کر آصف زرداری سے معافی مانگتے دیکھا تھا۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ 1988 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بے نظیر بھٹو نے 1988 میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کیا۔ وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ سے دست برداری قبول کی۔ عہدہ صدارت کے لئے نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کی حمایت کی۔ افغانستان سے سوویت فوج کی واپسی کے بعد جہادی سرگرمیوں کی مقبوضہ کشمیر منتقلی کی مزاحمت نہیں کی۔ 1993 میں نواز شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اسحاق خان اور مقتدرہ سے گٹھ جوڑ کیا۔ اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا خیر مقدم کیا۔

اس عرصے میں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں پنجاب حکومت کو بے نظیر کی وفاقی حکومت کے خلاف مورچے میں تبدیل کر دیا۔ آئی ایس آئی سے وہ فنڈ قبول کئے جن کی تفصیل یونس حبیب کی ڈائری میں محفوظ رہی۔ ذرائع ابلاغ کو ناجائز مراعات کی مدد سے حکومتیں بنانے اور گرانے کا ہتھیار بنا لیا۔ پارلیمانی نظام کے استحکام کی بجائے تصادم کی سیاست کو اپنی طاقت سمجھا۔ پندرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے جمہوری نظام پر کلہاڑا چلانے کی کوشش کی۔ انتخابی دھاندلی کے منصوبوں کا حصہ رہے، پس پردہ اشاروں پر تحریکیں چلائیں اور جہاں تک ممکن ہو سکا، اقتدار کے لئے عوام کے مفادات کو رہن رکھا۔

اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف طیارہ ہائی جیکنگ کے جھوٹے الزام کی آڑ میں اقتدار پر قابض ہوئے۔ درحقیقت پرویز مشرف کا طیارہ پاکستان کی فضاؤں میں داخل ہونے سے پہلے ٹرپل ون بریگیڈ ایوان وزیر اعظم کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ بعد ازاں پرویز مشرف نے عدالت سے تین برس کے لئے اقتدار کا غیر آئینی پروانہ حاصل کیا۔ احتساب بیورو کو سیاست دانوں کی وفاداریاں خریدنے کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ پرویز مشرف کے احتساب کی درون خانہ گواہی تو جنرل شاہد عزیز اور جنرل گلزار کیانی نے دی ہے۔

سیاست دانوں سے احتساب بیورو کا تجربہ معلوم کرنا ہو تو چوہدری شجاعت حسین، فیصل صالح حیات اور آفتاب شیر پاؤ سے پوچھیئے۔ اور اگر خالص سیاسی نکتہ طرازی سے لطف لینا ہو تو 2002 کی قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کا جملہ یاد کیجئے۔ انہوں نے اسپیکر امیر حسین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اسمبلی قوم کے ضمیر کی آواز نہیں، (جنرل) احتشام ضمیر کی آواز ہے۔ 17ویں آئینی ترمیم کی مدد سے دستور کا پارلیمانی تشخص تباہ کرنے والے پرویز مشرف کھلے بندوں کہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو پاکستانی سیاست میں واپس نہیں آنے دوں گا۔ اس پس منظر میں 14 مئی 2006ء کو لندن میں بے نظیر بھٹو شہید اور محترم نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3