فلسطینی اتھارٹی اور حماس: تسلط کے آلاتِ کار؟


 علامتی افادیت کے علاوہ ان کوششوں نے فلسطینیوں کو تسلط کے خاتمے اور ریاست کے حصول کے لئے سیاسی اور قانونی اثرورسوخ فراہم کیا ہے۔ اس کی ایک ادنیٰ مثال فلسطینی اتھارٹی کاجنوری 2015 ء میں عالمی عدالتِ جرائم (آئی سی سی) کا رکن بننا اور اسے 13 جون 2014 ء کے بعد سے مغربی کنارے اور غزہ میں ہونے والے تمام جنگی جرائم کی تحقیقات کا اختیار دینا ہے۔ آئی سی سی نے اس حوالے سے ابتدائی کارروائی شروع کر دی تھی۔ فلسطینی اتھارٹی کے لئے قابض اسرائیل کے ساتھ تعاون جو کہ تسلط کو بھی مضبوط کرتا ہے، ایک بڑا نازک معاملہ ہے۔

 اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی تعاون کی وجہ سے ہونے والی بدنامی مارچ 2015 ء میں تنظیمِ آزادیِ فلسطین کی طرف سے اس کی معطلی کے ووٹ کا سبب بھی بنی تاہم فلسطینی اتھارٹی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ جنوری 2018 ء میں صدر محمود عباس نے فلسطینی مرکزی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اس راستے کا نقشہ کھینچا جو فلسطینی اتھارٹی کو اختیار کرنا چاہیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان پر ان کے ردِعمل میں امریکہ کے بطور ثالث کردار کو تسلیم کرنے سے انکار، اوسلو معاہدوں کی ناکامی کا اعلان، قابض طاقت سے تعلقات کا ازسرِنو جائزہ لینے کا مطالبہ، پرامن جدوجہداور حماس کے ساتھ صلح کا عزم اور تنظیمِ آزادیِ فلسطین میں ایک نئی روح پھونکنے کی خواہش شامل تھی۔

ان کے خطاب میں البتہ ٹھوس اقدامات کی طرف کوئی اشارہ نظر نہ آیا۔ مزید یہ کہ ان کی طرف سے آنے والے مہینوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی تشکیلِ نو کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ایک طرف تو فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کا اپنا مفاد اپنی حکومتی صلاحیت، اپنی سیاسی بقاء، اپنی مراعات اور اپنی بین الاقوامی سطح پر حاصل کی گئی کامیابیوں کے تحفظ میں ہے۔ اس صورت میں اسے عالمی عطیہ دہندگان کو مطمئن رکھنے کے لئے سیاسی برداشت کا رویہ اختیار کرنا ہوگا اور اسرائیلی نقل و حمل کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کرنا پڑے گا۔

 اسے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی کا اظہار کرنا ہے، عدم تشدد پر زور دینا ہے، حماس کے ساتھ صلح صرف چاررکنی اتحاد برائے مشرقِ وسطیٰ (امریکہ، روس، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ) کی طے کردہ شرائط پرکرنی ہو گی اور سیکورٹی تعاون کو جاری رکھنا ہوگا۔ فلسطینی قیادت کی سیاسی تدابیر کو محدود کرنے میں ایک اضافی ہاتھ عرب ریاستوں کا ہے جو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کسی بڑی پیش رفت کے خواہاں نہیں ہیں اور اسی لئے فلسطینی اتھارٹی کوکوئی سخت موقف اختیار کرنے کے لئے درکارسہارا پیش نہیں کرتے۔

 دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ تعاون کے طرزِعمل نے فلسطینی آبادی میں فلسطینی اتھارٹی کی مقبولیت اور قانونی حیثیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آخرکار یہ راستہ نہ تو حماس کے ساتھ تعلقات کی بہتری یا اتحاد کی طرف جائے گا نہ ہی حقیقی فلسطینی تحریکوں (مثلاًغیر مسلح عوامی مزاحمت کا دائرہ بڑھانے کی تحریک یابی ڈی ایس تحریک جوعالمی برادری کے اسرائیل کے ساتھ معاشی عدم تعاون کی جدوجہد ہے ) کی کوئی خاص مدد کرے گا۔ جب تک فلسطینی مزدوروں کو کوئی اور کام نہیں مل جاتا تب تک اسرائیلی آبادیوں کامؤثر بائیکاٹ ممکن نہیں۔

 فلسطینی اتھارٹی اور آبادی کے درمیان گہری خلیج نے فلسطینی اتھارٹی کی الیکشن کروانے میں دلچسپی کم کر دی ہے اور اس کی قیادت کو مزید آمریت پسند بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری عمل کی طرف واپسی کے امکانات بہت کم ہیں۔ حماس حکومت: مزاحمت بمقابلہ بالواسطہ تعاونتنظیمِ آزادیِ فلسطین کے برعکس حماس نے کبھی اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا اور فلسطینی اتھارٹی کے برعکس حماس حکومت اسرائیل کے ساتھ مذاکرات یا براہِ راست تعاون نہیں کرتی۔

 اگرچہ حماس اسرائیل کی قانونی حیثیت یا وجود میں آنے کا حق تسلیم نہیں کرتی تاہم اس نے غیراعلانیہ طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے اور بارہا فائربندی کے اقدامات کیے ہیں۔ حماس نے دو شرائط پر طویل المدتی فائربندی کا امکان بھی ظاہر کیا ہے جن میں اسرائیل کا 4 جون 1967 ء کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد اور خودمختارفلسطینی ریاست (جس میں یروشلم بطور دارالخلافہ شامل ہو) کو تسلیم کرنا اور فلسطینی مہاجرین اور بے گھر کیے گئے لوگوں کی واپسی شامل ہیں۔

 اصولی طور پر حماس اب بھی پورے فلسطین کی آزادی کی خواہاں ہے جس سے مراد برطانیہ کا مکمل فلسطینی مینڈیٹ ہے۔ حماس کی مئی 2017 ء کی پالیسی دستاویز اس کے منشور کی تکمیل کرتی ہے اوراس کی حکمتِ عملی میں ہونے والی تبدیلیوں کے ثمرات کو بیان کرتی ہے۔ تنازعے کو اب مذہبی قرار نہیں دیا جاتا۔ اسرائیل کی بربادی بھی ایک معینہ ہدف نہیں رہی۔ تنظیمِ آزادیِ فلسطین کو فلسطینی نمائندگی کا موزوں ڈھانچاتسلیم کیا گیا ہے۔

 یہ دستاویز 1967 ء کی سرحدوں کے مطابق ایک ریاست کے حصول کے لئے ’فلسطینی اتفاقِ رائے‘ کی بھی بات کرتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل حماس کو ایک قانونی حکومت تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ اس نے غزہ کی پٹی کو مخالف علاقہ قرار دے رکھا ہے۔ اس کے باوجود جون 2007 ء میں جب سے حماس حکومت میں آئی ہے اسرائیل غیرعلانیہ طور پرغزہ میں حماس کی حکومت کو ہی ذمہ دارسمجھتا ہے اوراسے اس کے زیرِ انتظام علاقوں سے ہونے والے حملوں کا جواب دہ ٹھہراتا ہے۔

 اسرائیل کا تسلیم نہ کرنا حماس کو اپنی آبادی اور ایران جیسے بین الاقوامی اتحادیوں کے سامنے اپنا بیانیہ برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ حماس طاقت کے استعمال یا لڑائی کے لئے مسلح ہونے کو درست ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ تسلط کے خلاف مزاحمت کا اپنا قانونی حق جتاتی ہے جسے اس کے مطابق خدائی قوانین اور عالمی روایات کی ضمانت حاصل ہے۔ اسی تناظر میں وہ جنوری 2006 ء کے چاررکنی اتحاد برائے مشرقِ وسطیٰ کے پیش کردہ فارمولے کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے جس کے تحت حماس کو تعاون بلکہ محض رابطے کے لئے بھی پیشگی کچھ شرائط تسلیم کرنا ہوں گی۔

 ان میں عدم تشدد کا وعدہ، اسرائیل کو تسلیم کرنا اور ماضی کے معاہدوں اور ذمہ داریوں کو قبول کرنا شامل ہیں۔ اسرائیل بھی حماس کی جانب سے تسلیم نہ کیے جانے کا خوب فائدہ اٹھاتا ہے اور اسے اپنی سرحدوں پر اپنا اختیار جتانے کے لئے طاقت کے استعمال، ناکہ بندی جاری رکھنے، جوابی حملے کرنے، غزہ میں مسلح گروپوں کی جنگی صلاحیت کو تہس نہس کرنے اور ان کے رہنماؤں کے قتل کو درست ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ جب سے حماس نے جنوری 5002 ء کے فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے مسلح جھڑپوں کی تعداد اور بہیمیت میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور 2006 ء، 2008 ء، 2012 ء اور 2014 ء میں تو نوبت عام جنگ تک پہنچ گئی تھی۔

 ساتھ ہی ساتھ حماس کے لئے محدود پیمانے پر امن قائم کرنا بھی ضروری ہے جس کے بغیر وہ اپنا حکومت کرنے کا حق جتانے سے قاصر ہے۔ حماس کے لئے یہ ایک طرف مزاحمت کے بیانیے اور دور رس مطالبوں اور دوسری طرف مزید مسلح تصادم سے گریز کی کوششوں کے درمیان توازن کا عمل ہے۔ اگرچہ غزہ کے لوگ بڑی حد تک یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی اور تنظیمِ آزادیِ فلسطین دونوں مذاکرات کے ذریعے فلسطینی مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں لیکن بہرحال وہ یقینا مسلح مقابلوں کا ایک اور سلسلہ نہیں چاہتے جس میں انہیں پہلے سے بھی زیادہ تکلیف اٹھانی پڑے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5