سانحہ جلیانوالہ باغ کی دستاویزات کی نمائش


13 اپریل 1919 ء کو امرتسر میں عام عوام کا قتل عام کیا گیا اس واقعے کو سانحہ جلیانوالہ باغ کہا جاتا ہے۔

جلیانوالہ باغ میں کوئی خاص درخت یا پودے نہیں تھے بلکہ یہ ایک خالی قطعہ زمین ہے جو کہ مختلف لوگوں کی مشترکہ ملکیت تھا، چاروں طرف مکانات ہیں، ایک شکستہ سمادھی اور ایک کنواں بھی باغ میں ہے۔ باغ میں آنے جانے کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ نہیں ہے سوائے چار پانچ جگہوں کے جہاں سے گلیوں کی طرف نکلنے کے بہت تنگ رستے ہیں۔

جلیانوالہ باغ میں لوگ رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے اس کے علاوہ بیساکھی کا تہوار یعنی ہندوؤں کے لیے سال نو کا دن تھا اور گرد و نواح کے گاؤں سے لوگ میلے میں شرکت کے لیے شہر آرہے تھے۔ رولٹ ایکٹ کو آج بھی کالا قانون کہا جاتا ہے۔ اس ایکٹ کو سر سڈنی رولٹ کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات پر نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ میں حکومت کو مزاحمتی تحریکیں کچلنے کے لیے بہت سے اختیارات دیے گئے۔ حکومت کسی کو بھی دہشت گردی کے جرم میں گرفتار اور بنا عدالتی مداخلت کے دو سال تک جیل میں رکھ سکتی تھی۔

حتیٰ کہ ملزم کو وجہ جاننے کا حق بھی نہیں تھا۔ رہائی پر شرائط رکھی جاتیں کہ وہ کسی سیاسی، تعلیمی اور مذہبی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گئے۔ اس ایکٹ کے مطابق پولس کسی بھی جگہ کی تلاشی اور بغیر وارنٹ کے کسی کو بھی گرفتار کر سکتی تھی۔ مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ کو منظور کرلیا گیا اس کے منظور ہونے پر جناح صاحب، مظہر الحق اور پنڈت موہن مالویہ صاحب نے بطور احتجاج امپیریل

لیجسلیٹو کونسل سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ مارچ میں اس ایکٹ کے منظور ہونے کے بعد ایک ماہ میں پنجاب خوفناک طوفان کی لپیٹ میں آگیا۔

رولٹ ایکٹ کے خلاف چل رہی مزاحمتی لہر کا ایک اہم مرکز امرتسر تھا۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال اس کے نمایاں لیڈر تھے۔ لیکن ابھی تک پر امن احتجاج کیا جارہا تھا ڈاکٹر کچلو نے 29 مارچ کو ہونے والے جلسے میں کہا ”سبھی شہریوں کو مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے اس کے یہ معنی نہیں کہ پاک و پوتر شہر یا دیش میں خون کی ندیاں بہا دی جائیں، مقابلہ پرامن رہے کسی غدار یا پولیس کے آدمی کی شان میں رتی بھر گستاخی نہ کرو، ایک لفظ بھی نہ بولو جو اس کے (لیے ) باعث آزار ہو یا جن سے امن کے خطرے میں پڑنے کا احتمال ہو۔

” حکومت نے ڈاکٹر سیف اور ڈاکٹر ستیہ پال پر پابندی لگادی۔ 9 اپریل کو رام نؤمی کے تہوار پر بے مثل ہندو مسلم اتحاد نظر آیا مسلم بازاروں میں سبیلیں لگائی گئیں۔ یہ اتحاد بھی حکومت کے لیے پریشان کن تھا۔ 10 اپریل کو ڈاکٹر ستیہ پال اور سیف الدین کو ڈپٹی کمشنر کے بنگلے پر بلا کر گرفتار کر لیا گیا اور ان کے ساتھ آئے لوگوں کو کچھ دیر تک روکے رکھا گیا تاکہ دونوں رہنماؤں کو لے کر گاڑی نکل چکی ہو اور شہریوں کو دیر بعد خبر ہو۔ گاندھی جی کا پنجاب آنے سے قبل گرفتار کرلیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا۔ اب ڈاکٹر ستیہ پال اور سیف الدین کی گرفتاری اور گاندھی جی کی واپسی کی خبر جب شہر میں پھیلی تو عوام کا غم و غصہ بڑھ گیا۔

لوگ رہائی کے لیے جلوس کی شکل میں نکلے ان پر فائرنگ کی گئی اور لوگوں نے اس پر مشتعل ہو کر مزاحمت شروع کردی، سپاہیوں پر پتھروں کی برسات شروع ہوگئی۔ فائرنگ سے بیشتر لوگ زخمی اور تقریبا 20 سے زائد ہوگ ہلاک ہوئے۔ اس واقعے نے پرامن احتجاج کو پرتشدد بنا دیا۔ شہر بھر میں انگریزوں ہر حملے شروع ہوگئے۔ زنانہ ہسپتال کی انگریز ڈاکٹر مسز ایسا بل کے جب یہ کلمات شہریوں نے سنے یہ لوگ اسی قابل ہیں کہ ان کو مارا جائے تو لوگوں نے ان پر حملہ کردیا اور پھر انگریز مشنری خاتون مسز مرسلا شیروُڈ پر حملے کا دلخراش واقعہ پیش آیا لوگوں نے ان پر لاٹھیاں برسائیں اور پھر ایک ہندوستانی ہی انہیں نالی سے اٹھا کر گھر لایا اور ان کی جان بچائی۔ جس سڑک پر یہ واقعہ پیش آیا تھا بعد میں ڈائر نے حکم جاری کیا کہ اس سڑک سے گزرنے والے ہر ہندوستانی مرد کو یہ سڑک ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چل کر عبور کرنی ہوگی۔ اسی دن بعد میں کئی بینک اور دیگر حکومتی عمارات بشمول ٹاون ہال اور ریلوے سٹیشن پر حملہ کر کے انہیں آگ لگا دی گئی۔

11 اپریل کو کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا، شہر سے باہر اسٹیشن جلانے اور پٹریاں اکھاڑنے کے کچھ واقعات ہوئے۔ لیکن 11 اپریل کو اس سانحہ کا مرکزی کردار ڈائیر جالندھر سے امرتسر آیا۔

ڈائیر کو عام طور پر جنرل لکھا جاتا ہے لیکن وہ برٹش انڈین آرمی میں کرنل تھا اور اسے بریگیڈئیر کا عہدہ عارضی طور پر دیا گیا تھا۔ ڈائیر کا پورا نام رگنلڈ ایڈورڈ ہیری ڈائیر ہے۔ ڈائیر مری میں پیدا ہوا اور اس کا بچپن مری اور شملہ میں گزرا۔ اس نے لارنس کالج گھوڑا گلی سے تعلیم حاصل کی، بعد ازاں وہ مزید تعلیم کے لئے بر طانیہ چلا گیا اور گریجوایشن کے بعد اس نے برطانوی فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ ڈائیر کا باپ مری کے قریب بروروی میں قائم شراب کی فیکٹری بنانے والوں میں تھا۔ ڈائر پہلے بنگال رجمنٹ میں تھا پھر وہ پنجاب رجمنٹ میں آگیا اور اپنے کئیریر کے اختتام تک اسی رجمنٹ سے منسلک رہا۔

12 اپریل کو ڈائیر نے سپاہیوں سمیت شہر میں گشت کیا اور اعلان کیا گیا کہ ”سبھی جلسوں اور جلوسوں پر پابندی لگائی جاتی ہے، اور انہیں مارشل لاء کے تحت فوری طور پر منتشر کردیا جاے گا۔ “

13 اپریل کو ڈائر صبح شہر کے دورے پر نکلا جہاں مکمل ہڑتال تھی اعلان کیا گیا کہ چار سے زائد لوگ اکٹھے نہیں ہوں گے اور 8 بجے کے بعد گھر سے کوئی باہر نکلا تو اسے گولی مار دی جائے گی۔ لیکن یہ اعلان کتنے لوگوں تک پہنچا یہ اندازہ لگانا تو ممکن نہیں لیکن ارد گرد موجود دیہاتی اس کے متعلق زیادہ نہیں جانتے تھے اور بیساکھی کے میلے کے لیے وہ شہر آ رہے تھے اس کے علاوہ جلیانوالہ باغ میں احتجاجی جلسہ بھی تھا۔ چار بجے جلسہ شروع ہوا صدارتی کرسی پر ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی تصویر رکھی گئی۔

جلسے کی نگرانی ہوائی جہاز سے شروع کردی گئی۔ جب ڈائر کو اس کی خبر ملی تو اس نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا۔ ڈائر اس وقت کیا سوچ رہا تھا اس کے متعلق کالون لکھتا ہے ”قسمت کا یہ کیسا اچانک تحفہ ملا ہے، حکم عدولی کرنے والے باغی اکٹھے اور اتنی کھلی جگہ پر، یہ ایسا موقع اسے ملا ہے جس کی اسے امید نہ تھی۔ ساتھ ہی اسے اس بات کی خوشی بھی تھی کہ اس کے مخالف آج اس کی تلوار تلے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ جو چاہے کرسکتا ہے۔ “

ڈائیر گورکھا سپاہیوں سمیت باغ پہنچا۔ ان کے پاس دو مشین گن بھی تھیں لیکن باغ کا رستہ تنگ ہونے کے باعث وہ انہیں اندر نہ لے جا سکا۔ باغ میں تقریباً بیس ہزار لوگ موجود تھے۔ ڈائر نے ہجوم کو منتشر ہونے کا حکم دیے بغیر فائر کھولنے کا حکم دے دیا۔ شروع میں ہجوم نے یہ سمجھا کہ فوجی خالی کارتوس چلا رہے ہیں۔ مگر پھر ان کے سامنے لاشیں گرنا شروع ہوگئیں۔ مجمع میں بھگدڑ مچ گئی۔ حاضرین جلسہ کے پاس تو لاٹھیاں تک نہیں تھیں، زیادہ تر نوجوان تھے، کچھ لوگ چھوٹے بچوں کو لیے کھڑے تھے۔

تقریباً دس منٹ تک سپاہیوں نے فائرنگ کی، ہجوم منتشر ہونا شروع ہو گیا کچھ نے دیواروں پر چڑھ کر بھاگنا چاہا، کچھ نے پناہ کے لیے رینگ کر اپنے ساتھیوں کی لاشوں کے نیچے چھپنا چاہا کچھ نے کنویں میں چھلانگ لگا دی اور بعد میں اپنے اوپر گرنے والوں کی وجہ سے ڈوب گئے۔ دس منٹ میں سپاہیوں نے اسلحہ کے 165 راؤنڈ فائر کیے جن میں سے بہت کم ضائع گئے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق 379 لوگ مارے گئے جن میں تقریباً 41 بچے تھے ان میں سے ایک فقط سات ماہ کا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2