ریاض، یہ لاش ننگی کیوں ہے؟


 مگر آج جانے کیوں ریاض کو تابش کے لہجے میں نیلم بولتی نظر آرہی تھی۔ یار تمھاری بھابی نے تمھاری پسند کی بھنڈی بنائی ہے جلدی آجاؤ۔ ریاض نے اچھا کہہ کر فون بند کردیا۔ اب ریاض کے پاس تابش کے گھر نہ جانے کا کوئی بہانہ نہ تھا۔ ریاض جیسے ہی گیٹ سے اندر داخل ہوا تابش موٹر سائیکل پر گیس سلنڈر باندھ رہا تھا۔ آ جاؤ آ جاؤ اب تمھیں بھی فون کر کے بلانا پڑا کرے گا۔ بیٹھو میں گیس سلنڈر بھروا کر آیا بس، تابش نے جانا چاہا تو ریاض نے کہا ٹھہرو میں بھی چلتا ہوں۔

نہیں نہیں تم بیٹھو بس میں یوں گیا اور یوں آیا تم میرے آنے تک منہ ہاتھ دھو لو پھر اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، یہ کہہ کر تابش نے موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور باہر نکل گیا۔ نیلم کچن میں کھڑی ریاض کو دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی وہ چارپائی پہ بیٹھنے کے لیے آگے بڑھا نیلم ہاتھ میں سالن کا بھرا باول لیے کچن سے باہر آگئی اور مصلحے پر بیٹھی اماں جی سے مخاطب ہوئی اماں جی ثمینہ کے گھر سالن دے آئیں۔ اماں جی کے جانے کے بعد نیلم نے روتے ہوئے ریاض کے کندھے پر سر رکھ دیا۔

ریاض یہ انجانے میں کیا ہوگیا۔ مجھے غلط مت سمجھنا، جس دن سے وہ حادثہ ہوا میری زندگی عذاب بن گئی ہے۔ جب تابش میرے نزدیک آتے ہیں تو مجھے ہر طرف تم ہی تم نظر آتے ہو۔ تابش کے لیے میری محبت میں ملاوٹ ہوگئی، تم کہاں سے شامل ہوگئے اس محبت میں، تم نے مجھے گرنے کیوں نہ دیا؟ اس طرح اپنی نظروں میں گرجانے سے اس وقت گرجانا بہت بہتر تھا۔ اب میرے لیے اکیلے اس تکلیف کو برداشت کرنا ممکن نہیں۔ مجھے تمھاری ضرورت ہے۔

پلیز مجھے غلط مت سمجھنا۔ مجھے اپنی یادوں کے انگاروں میں سلگنے کے لیے اکیلا مت چھوڑ دینا ریاض۔ جب نیلم زار و قطار روتے ہوئے ریاض کے پاؤں میں بیٹھ گئی تو ریاض نے نیلم کو دونوں بازروں سے پکڑ کر گلے لگا لیا۔ جمیل نے نیلم کی جھکی پلکوں پہ تیرتے مگر مچھ کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کیے اور چارپائی پہ بٹھا دیا۔ تابش کے گیس سلنڈر بھروا کر اور تابش کی اماں کے ہمسائی ثمینہ کے گھر سالن دے کر واپس آنے تک نیلم کا مکر مکمل طور پر ریاض کو اپنی گرفت میں جکڑ چکا تھا۔

دسترخوان پہ رکھا ریاض کی پسند کا بھنڈی کاسالن نیلم نے اپنے ہاتھ سے پلیٹوں میں ڈالا سب نے مل کر کھانا کھایا، نیلم پر سمندر میں اٹھے طوفان کے بعد چھائی خاموشی جیسا سکوت طاری تھا۔ ریاض بھی چپ چاپ نظریں جھکائے کھانا کھاتا رہا۔ نیلم نے کچن میں جاکر ریاض کے نمبر پر میسج کیا، اور آپ کے لیے کیا بناؤں؟ کسٹرڈ سویاں یا دودھ گرم کر کے لے آؤں؟ ریاض نے جواب دیے بغیر میسج ڈیلیٹ کر دیا۔ ریاض کی زندگی عجیب ڈگر پہ چل نکلی۔

 نیلم ہر وقت ریاض کو میسج کرتی، جب وہ میسج کا جواب نہ دیتا تو مس کالیں کرنے لگتی۔ مجبوراً ریاض ایک آدھ میسج کر دیتا مصروف ہوں۔ تو نیلم جواب دیتی بھاڑ میں جائے تمھاری مصروفیت۔ میرے ساتھ بات کرو۔ اب کبھی کبھی ریاض بھی نیلم کو کوئی نہ کوئی میسج کرنے لگا تھا۔ صبح بخیر۔ شب بخیر۔ کیا ہو رہا ہے؟ کیا بنا رہی ہو؟ مگر تابش کے اصرار کے باوجود وہ اب تابش کے گھر بہت کم جاتا تھا۔ تابش کی اماں کو ہارٹ اٹیک آیا اور وہ چل بسیں۔

اب آٹھ دس دن مسلسل ریاض اور تابش گھر میں ہی رہے۔ کبھی کبھی ریاض دکان کھولتا، تابش کو ایسی صورتحال میں ریاض کی بہت ضرورت تھی ریاض بھی اپنی دوستی کا فرض نبھا رہا تھا مگر نیلم کے ذہن میں کئی طرح کے فتور جنم لے چکے تھے۔ وہ ہمیشہ الو کی طرح ایسی تنہائی اور ویرانہ ڈھونڈتی جہاں صرف اور صرف ریاض اس کے پاس ہو۔ ریاض اور تابش کی دوستی میں دراڑ ڈالنے کی غرض سے ریاض کے قریب ہونے والی نیلم سچ مچ ریاض کے مضبوط چھریرے بدن کی اسیر ہو گئی۔

اماں کی وفات کے بعد جب تابش کو نیلم کی اشد ضرورت تھی ایسے وقت میں نیلم کا تابش سے جی بھر گیا تھا۔ وہ ریاض کے خواب سجانے لگی۔ اس بات کا نیلم ڈھکے چھپے الفاظ میں ریاض سے اظہار بھی کرنے لگی۔ آج تو ایک میسج میں نیلم نے ریاض کو یہاں تک لکھ بھیجا، ریاض جب تابش میرے قریب آتا ہے تو میرا دل کرتا ہے اس کا منہ نوچ لوں۔ اسے دھکے مار مار کر کمرے سے باہر نکال دوں۔ تم کب تک میرا امتحان لو گے۔ میرا قصور کیا ہے؟

کیوں تمھارے خیال مجھے چین سے جینے نہیں دیتے۔ کیوں بار بار خیالوں میں، میں تمھارے بازؤں میں جھول جاتی ہوں۔ مجھے تمھاری بہت ضرورت ہے ریاض۔ اس دنیا میں میرے جوان زخموں کا واحد مرہم تمھا را لمس ہے۔ یہ دیوار عبور کر نے چلے آؤ ریاض پلیز آج رات میں صرف اور صرف تمھارا انتظار کروں گی۔ مجھے میرا ریاض چاہیے، مجھے غلط مت سمجھنا، ریاض میں بہت مجبور ہوں۔ ریاض کو تو پتہ ہی نہ چلا کب وہ پکے آم کی طرح نیلم کی گود میں جا گرا۔

نیلم نے ریاض کو دودھ کا بھرا گلا س پکڑاتے ہوئے کہا ریاض اب مجھے تابش سے گھن آتی ہے۔ اب مجھے کبھی تابش کے رحم وکرم پہ مت چھوڑنا۔ وعدہ کرو ریاض میں جب بھی تمھیں آواز دوں گی تم ہر رکاوٹ توڑ کر چلے آؤ گے۔ تابش اب ہر رات اپنے مقدر کی طرح بہت جلد سو جایا کرتا تھا یا شاید نیلم اس کے جلد سونے کوئی انتظام کر لیتی تھی۔ پوری پوری رات ریاض اور نیلم تابش کے اندھے بھروسے کا قتل کرتے۔ تابش اب دن بھر دکان پہ رہتا اور ریاض کبھی کسی بہانے اور کبھی کسی بہانے دکان سے اٹھ جایا کرتا نیلم اور ریاض نے انسانیت کی تذلیل کی تمام حدوں کو عبور کرنے میں بہت زیادہ وقت نہ لیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4