ریاض، یہ لاش ننگی کیوں ہے؟


 آج نیلم نے ریاض کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ریاض کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا۔ ریاض بس بہت ہوگیا اب میں تابش کے ساتھ ایک دن بھی نہیں گزار سکتی۔ ایسا نہ ہو کہ کسی دن میں اپنے پاس لیٹے تابش کا گلا دبا دوں یا اپنی جان لے لوں۔ مجھے یہاں سے بہت دور لے جاؤ ریاض۔ ریاض نے کہا نیلم کیسی باتیں کرتی ہو تابش میرا بچپن کا دوست ہے۔ بس جتنا ہے اسی کو غنیمت جانو ہم روز تو ملتے ہیں، ڈھیروں باتیں کرتے ہیں، اکٹھے رہتے ہیں، تابش اچھا انسان ہے۔

ہمارا کیا لیتا ہے دو وقت کی روٹی اگر تم اس کی بنا رہی ہو تو اس میں پریشانی والی کیا بات ہے۔ بات روٹی کی نہیں بات رات کو ساتھ سونے کی ہے، میں اس کے ساتھ نہیں سو سکتی۔ یار نیلم تم اس کی بیوی ہو یہ اس کا حق ہے تمھیں ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ کبھی کبھار اگر اس کو اس کا حق دیتی رہو تو اس میں تمھارا کیا جاتا ہے۔ اور پھر مجھے تمھارا اس کے ساتھ سونا بالکل بھی برا نہیں لگتا۔ کیا ریاض یہ تم کہہ رہے ہو؟ تمھیں میرا اس کے ساتھ سونا بالکل برا نہیں لگتا؟

نہیں مجھے کیوں برا لگے گا تم اس کی بیوی ہواور پھر ہمارے درمیان کبھی تابش اور تمھاری علیحدگی کی بات نہیں ہوئی، تینوں خوش ہیں۔ ریاض تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم نے مجھے آج تک بس اپنی رکھیل ہی سمجھے رکھا۔ تمھیں مجھ سے محبت نہیں؟ ریاض نے نیلم کی گود سے سر اٹھا کر اس کے گال پہ بوسہ دیا اور کہا دیکھو نیلم اس میں کوئی شک نہیں کہ تم بہت پیاری ہو اور تم مجھے بہت اچھی بھی لگتی ہو۔ جس طرح تم میرا خیال کرتی ہو شاید میری اپنی بیوی بھی نہ کرپاتی۔

ہم دونوں تابش کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ بس یہ ہی کافی ہے۔ اس سے آگے سوچنا محض موت سے سوا کچھ نہیں۔ نہ تم دنیا کو منہ دکھا سکو گی اور نہ میں کہیں کا رہوں گا۔ ریاض میرے پیٹ میں تمھارا بچہ ہے، اور تم چاہتے ہو میں اس بچے کو تابش کا نام دوں، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ریاض نے مسکراتے ہوئے کہا پاگل کیا گارنٹی ہے کہ یہ بچہ میرا ہے؟ تم تابش کے ساتھ بھی تو سوتی رہی ہو۔ ریاض یہ تم کہہ رہے ہو؟ تمھیں شرم آنی چاہیے۔

شرم ہاہاہاہا۔  تمھارے اور میرے درمیان شرم کہاں سے آگئی۔ تم نے شرم کی بات کی ہے تو لگتا ہے تم نے مجھے اور خود کو گالی دی ہے۔ بس مجھے نہیں پتہ ریاض مجھے باقی کی زندگی تمھارے ساتھ گزارنی ہے۔ پاگل ہوگئی ہو۔ اگر تمھیں شک ہے کہ بچہ میرا ہے تو اسے آج ہی گرا دو۔ بچہ گرانے کا نام سن کر نیلم سیخ پا ہوگئی۔ چیخ چیخ کر رونے لگی۔ ریاض بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ نیلم ریاض کے پیروں میں بیٹھ گئی۔ ہاتھ جوڑ کر ریاض کی منتیں کرنے لگی۔

 ریاض ایسا مت کرو۔ مجھے چھوڑ کے مت جاؤ۔ میں کہیں کی نہیں رہی ریاض۔ مگر ریاض جھٹکے سے پیر چھڑوا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ شام تک ریاض کے نمبر پر نیلم کا کوئی میسج نہ آیا۔ دن میں بیسیوں میسج کرنے والی نیلم آج خاموش تھی۔ تابش اور ریاض نے دکان بند کی۔ تابش نے ریاض سے کہا چلو نیلم کے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہیں۔ ریاض تو جیسے پہلے ہی تیار بیٹھا تھا۔ کیوں کہ نیلم کا کوئی ایک بھی میسج نہ آنا ریاض کے لیے باعث پریشانی بنا ہوا تھا۔ دونوں دکان بند کرکے تابش کے گھر پہنچے تو جس طرح ریاض نیلم کو روتے سسکتے اور برہنہ چھوڑ گیا تھا بالکل اسی طرح نیلم کی ننگی لاش پنکھے سے جھول رہی تھی۔ تابش نے ریاض سے لپٹ کر بھری ہوئی آواز میں صرف اتنا کہا ریاض یہ لاش ننگی کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4