میرے بابا کا خدا


جس دن بابا مجھ سے جُدا ہوئے۔ وہ دن اپنے آپ سے میرے ملنے کا دن تھا۔ آماچ (پہاڑ) کے نیلے آسمان کے کینوس پر سفید بادلوں کا پینٹ۔ اور سرسراتے شہتوت کی خزاں زدہ شاخوں سے سرگوشیاں کرتی خنک ہوا۔ یہ میرے بچپن کا موسم تھا۔ جس میں، میں بچپن کے بے پرواہ دنوں میں اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ گلیوں میں شور مچاتا۔ ’ٹین ٹالو‘ ’ٹِلی‘ اور ’باڈی‘ کھیلا کرتا تھا۔ جیسے ان کھیلوں کے ناموں کا ترجمہ نہیں کہ یہ کھیل جس نے کھیلے ہیں بس وہی ان کے مزاج اور مزے کو جانتا ہے۔

 بالکل اسی طرح میں ”آماچ (پہاڑ) کے دامن میں پھیلی ہوئی اس برف جیسی روشنی اور سرد سرگوشیوں کو بیان نہیں کرسکتا۔ یہ وہی جانتا ہے جس نے سردیوں میں وادیوں کے سکوت میں کسی نامعلوم کے عشق میں جھُوم کر اچانک سے کوئی گیت گانا شروع کر دیا ہو۔ میں ایسے ہی موسموں میں کسی نامعلوم سے چہرے اور نامحرم سے لمس کے عشق میں مبتلا ہوا تھا۔ اور آج تک اس کو تلاش کرنے میں نہ جانے کتنے ہی چہروں کا سفر کیا اور نہ جانے کتنے لمس ٹٹولے۔

 مگر وہ عشق شاید خود سے ہی تھا۔ اس لئے میں ایسے موسموں میں ظفرمعراج کو لے کر آماچ کے دامن میں پہنچتا۔ اور مستونگ کی گلیوں اور میدانوں میں ظفرکو تلاش کرتا۔ وہ دن بھی اس عشق اُگانے والے موسم کا ایک حسین دن تھا۔ جب آسمان خاموشی کی چادر تانے مستونگ کی گلیوں سے نکل کر میدان میں پھیلتے ہوئے معصوم بچوں کی شور مچاتی ہوئی آوازیں سُن رہاتھا۔ بالکل اُس بوڑھے بابا کی طرح جو بظاہر آنکھیں موندھے دیوار سے پیٹھ لگائے سو رہا ہوتا ہے۔

 مگر گھرکے صحن میں کھیلتے ہوئے بچوں کے شور میں تھوڑی دیر کے لئے اپنے ناسیٹلجیا میں سانس لیتے ہوئے۔ اپنا بچپن یاد کر رہا ہوتا ہے۔ میدان میں کھیلتے ہوئے بچوں کی آوازیں، کلمہ شہادت کی سرگوشیوں کو توڑ توڑ کر میرے پاس آ رہی تھیں۔ اور مجھ چالیس سال کے آدمی کو اُس کے چار سالہ بچپن میں گھسیٹ گھسیٹ کر لے جارہی تھیں۔ اس لئے میں باوجود بہت ضبط کے۔ اپنے Grace کو بچا نہیں پایا۔ اور ایک چارسالہ بچے کی طرح پھُوٹ پھُوٹ کر رو پڑا تھا جب میرے بابا کی میت لحد میں رکھی جا رہی تھی۔

 گلیوں میں کھیلتے ہوئے میں نے بھی کئی بار اس طرح کے جنازے دیکھے تھے۔ زمیں میں دفن ہوتے ہوئے باپ، اور اُن کی قبر پہ چیختے چلاتے بچے میں نے بیسیوں مرتبہ دیکھے تھے۔ اور ہر بار میں نے رات کو بابا کے بازو پر سر رکھ کر سونے سے پہلے اس منظر کو بیان کیا تھا۔ اور ہر بار میرے بابا نے مجھے اپنے سینے سے چمٹا کر خاموش ہونے کو کہا تھا۔ اس رات وہ مجھے میری نیند میں جانے تک اپنے سینے سے الگ نہیں کرتے، آج میرے گھنے بالوں والا وہ تکیہ خود زمین میں دفن ہو رہا تھا۔

 اور میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کس کے سینے سے لگ کر روؤں۔ لحد میں رکھتے وقت بابا کے جسم کا جو حصہ میں نے تھام رکھا تھا۔ یہ اُن کی پیٹھ تھی۔ جس پر کالے رنگ کا ایک دھبہ پیٹ تک پھیلا ہوا تھا۔ اس دھبے کو دیکھ کرغُسل دینے وقت مولوی صاحب گھبرا گئے تھے کہ میت خراب ہورہی ہے۔ اس لئے اس کے سرہانے بیٹھ کر بین کرنے کی بجائے اس کو راتوں رات دفنا دیا جائے۔ اُس وقت میں کراچی سے کوئٹہ جانے والی سڑک پر ڈرائیو کر رہا تھا۔

 اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں کسی طرح سے اُڑ کر بابا تک پہنچ جاؤں۔ کیونکہ آج وہ خود نہیں، اُن کی میت میرا انتظار کر رہی ہے۔ اُس وقت میرے موبائل فون پر مولوی صاحب کے اس فیصلے کی اطلاع پہنچی تو تب میں نے پہلی بار بابا کے جسم پر اُس دھبے کا راز افشا کیا تھا۔ بابا کی پیٹھ پر پھیلا ہوا وہ کالا دھبہ اس فوجی آپریشن کی دین تھی جو 1973 میں بلوچ باغیوں کے خلاف کیا گیا تھا۔ ان دنوں بابا پبلک ٹرانسپورٹ چلاتے تھے اور اُستاد معراج کے نام سے جانے جاتے تھے۔

 آپریشن کرنے والوں کو شک تھا کہ میرے بابا بھی اُس“ ناسور ”کو پھیلانے میں کوئی کردار ادا کررہے ہیں۔ جو بغاوت کے نام پر وڈھ سے لے کر کوہلو تک بندوق لے کر پہاڑوں پہ مورچہ بند تھا۔ بابا پہ الزام تھا کہ وہ ڈھکے چُھپے اپنی لاری میں راشن کا سامان پہنچا کر اُن باغیوں کو توانا کر رہے ہیں۔ شاید اُن پر آپریشن کرنے والی قوتوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسے باغیوں کی توانائیاں تو وہ نا انصافیاں ہوتی ہیں۔ جو آزاد زمین پر بھی غلامی کی گُھٹن بنتی ہیں۔

 جہاں سونے چاندی اور تیل اور گیس سے بھرے پہاڑوں پر زندگی جھونپڑی بنا کر رہ رہی ہوتی ہے۔ بابا کے جسم پر وہ کالے دھبے خود میرے لئے کبھی بہت بڑاسوال تھے۔ بچپن میں تو بابا اُسے جن بھوتوں کی کہانیوں سے وابستہ کرکے ہر بار کوئی نئی کہانی سُنا کر ٹال دیے تھے۔ مگر کچھ عرصہ پہلے میں نے زور دے کر اُن سے پوچھا کہ آیا وہ الزام صحیح تھایا غلط؟ تو اُنھوں نے بہت سوچ کر جواب دیا“ بچہ، اُس وقت کی لڑائی میں ڈرائیور کو بھی معلوم تھا کہ اُس نے کیا کرنا ہے۔

 مگر آج کی لڑائی میں تمھارے پڑھے لکھوں کو بھی نہیں معلوم کہ ہو کیا رہا ہے ”پھر بابا نے اپنے بہت سارے قصے اور واقعات سُنائے تھے۔ اور پھر اُداس ہو کے ان واقعات کی گرمجوشی سے نکلتے ہوئے کہا تھا“ کل کی لڑائی اُمید کی لڑائی تھی آج کی لڑائی مایوسی اور بے بسی کی لڑائی ہے ”۔ کل کا نوجوان ایک اُمید بن کر پہاڑوں پہ گیا تھا۔ آج کا نوجوان اپنے لوگوں سے مایوس ہوکر مورچہ باندھے بیٹھا ہے۔ کل کی لڑائی کا کوئی حل تھا مگر آج کی لڑائی کا کوئی تصفیہ نہیں ہے۔

یہ وہ آگ ہے جو خود بجھنے تک جلتی رہے گی۔ سب جل جائے گا بس ایک سڑک باقی رہ جائے گی۔ میں نے بابا کی اُس داغ دار پیٹھ کو بہت دھیرے سے اُس مٹی میں رکھ دیا۔ جس مٹی کے لئے وہ داغ دار ہوئی تھی۔ بابا کے دل پہ بھی داغ تھے۔ جو غسل دینے والے مولوی یا اس کے اردگرد کے لوگوں کو نظر نہیں آئے وہ داغ جو بابا کی پیٹھ پر لگنے والے داغوں سے زیادہ گہرے تھے۔ مگر وہ داغ اپنوں نے دیے تھے۔ آخر اُمید سے مایوسی اور بے بسی تک کا سفر اُستاد معراج نے بھی تو طے کیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4