اردو کے بہترین کالم نگارکون ہیں؟


مجھ سے دو سوال بہت پوچھے جاتے ہیں، ایک، آپ کے والد صاحب کے نام کے ساتھ قاسمی ہے مگر آپ پیرزادہ ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ دوسرا، آپ کے پسندیدہ کالم نگار کون کون سے ہیں؟ پہلے سوال کا جواب تو بڑا سیدھا ہے کہ قبلہ والد صاحب کا پورا نام پیرزادہ محمد عطا الحق قاسمی ہے بلکہ ایک زمانے میں تو شاید وہ اپنے نام کے ساتھ امرتسری بھی لکھتے تھے، پھر انہوں نے امرتسری نکال دیا، کچھ عرصے بعد پیرزادہ بھی لکھنا چھوڑ دیا، وہ پیرزادہ میں نے نام کے ساتھ جوڑ لیا اور قاسمی نکال دیا، بس اتنی سی بات ہے۔

دوسرے سوال کا جواب ذرا مشکل ہے کیونکہ میں جتنی بھی دیانتداری کے ساتھ اور ”میرٹ“ پر بہترین کالم نگاروں کی فہرست بنا لوں، جن کالم نگاروں کا نام اس میں نہیں ہو گا وہ قیامت تک مجھے معاف نہیں کریں گے اور کسی کالم نگار کی بد دعا لینے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ اپنے ہاں تو یار لوگ جس دن پہلا کالم لکھتے ہیں اسی دن خود کو صف اول کا کالم نگار سمجھنا شروع کر دیتے ہیں چاہے ان کا کالم روزنامہ کالک میں ہی کیوں نہ شائع ہوتا ہو اور دوسری طرف ایسے کالم نگار بھی ہیں جو صف اول کے اخبارات میں شائع ہوتے ہیں مگر اصل میں ان کا کالم روزنامہ کالک میں لگنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔

سو کوئی لگا بندھا معیارطے کرنا بہت مشکل ہے جس کی بنیاد پر بہترین کالم نگاروں کا تعین کیا جا سکے لیکن اخبار کے قاری کے ذہن میں بہرحال کوئی نہ کوئی معیار ضرور ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کی فہرست بناتا ہے اور صبح اخبار کھول کر لاشعور ی طور پر وہ انہی کے کالم پڑھتاہے۔

ذاتی طور پرمجھے وہ کالم نگار پسند ہیں جن کی تحریروں میں ادب کی چاشنی ملتی ہے اور جوصاحب اسلوب ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کالم نگاروں میں سے بیشتر کے نظریات سے میں بالکل اتفاق نہیں کرتا مگر ان کی تحریروں میں ایسی روانی ہوتی ہے کہ بندہ بے اختیار پڑھتا چلا جاتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے اپنی تحریر کے جادو سے انہوں نے قاری کو جکڑ لیا ہو مگر ان میں سے بھی بہترین کالم نگار وہ ہیں جن کی تحریریں وقت کے ساتھ بوڑھی نہیں ہوتیں، یہ وہ لکھاری ہیں جو حالات حاضرہ کے موضوع پر بھی لکھیں تو ادب کا تڑکا لگا کر لکھتے ہیں جس سے کئی برس بعد بھی ان کے کالم کی تازگی برقرار رہتی ہے۔ دوسری طرف کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک آدھ کالم میں کوئی بھولا بسرا تخلیقی جملہ تو لڑھکا دیتے ہیں مگر مجموعی طور پر ان کے آج کے کالم اور تیس سال پہلے کے کالم میں کوئی فرق نہیں کیونکہ مدت سے یہ اپنے کالم میں ایک ہی لکیر پیٹ رہے ہیں، یہ کالم نگار جامد ہو چکے ہیں۔

جنگ کے ایک بزرگ کالم نگار ہوا کرتے تھے، کئی دہائیوں تک ان کا کالم ادارتی صفحے کی پیشانی پر شائع ہوتا رہا، آج اگر کہیں سے ان کاکوئی کالم مل جائے تو شاید اسے مکمل پڑھنا مشکل ہو کیونکہ اصل میں وہ کالم نہیں لکھتے تھے بلکہ اس وقت کی سیاسی خبروں پر تجزیہ کرتے تھے جس کی عمر ایک ہفتے سے زیادہ کی نہیں ہوتی تھی سو آج اگر کوئی آپ کو بہترین کالم نگار لگتا ہے تواس کی تحریر کو وقت کے لٹمس ٹیسٹ سے گزار کر دیکھیں، حیرت انگیز نتائج نکلیں گے۔

کالم نگار کا اصل لٹمس ٹیسٹ یہ ہے کہ کالم نگار طاقتور کے خلاف لکھنے کی ہمت کرتا ہو، کوئی بھی کالم نگار چاہے وہ صاحب اسلوب ہی کیوں نہ ہو اور کتنی ہی خوبصورت نثر کیوں نہ لکھتا ہو، اگر طاقتورکے خلاف نہیں لکھتا بلکہ الٹا طاقتور کے ایما پر ظاہری حکمرانوں کو ٹھاپیں لگا کر مرد مجاہد بنا پھرتا ہے تو دراصل وہ ہوا میں تلوار چلاتا ہے، اس کی تحریریں اٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینک دینی چاہئیں۔ کچھ لوگ طاقتور کا مطلب حکومت وقت سے لیتے ہیں اور ایسے کالم نگاروں کو بہت نڈر اور بہادر سمجھتے ہیں جو ہر کالم میں حکومتی عہدے داروں کے لتے لیتے ہیں اور ان پر بد ترین تنقید کرتے ہیں، ایسے معصوم قارئین سے میری استدعا ہے کہ اس ملک میں اگر سب سے آسان کام کوئی ہے تو وہ سیاست دانوں کو تخلیقی گالیاں دینا ہے چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، یہ بیچارے اگر طاقتور ہوتے تو کوئی ان کے خلاف چوں بھی نہ کرتا، لکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ کسی بھی ملک میں طاقتور لوگ، طبقہ یا گروہ وہ ہوتا ہے جس کے خلاف لکھنے سے پہلے آپ کو ہزار مرتبہ سوچنا پڑے، یہ مذہبی انتہا پسند بھی ہو سکتے ہیں اور ڈکٹیٹر بھی۔

زیادہ دور کیوں جائیں، 1999 سے 2002 تک کی آمریت کا دور یاد کر لیں یا پھر طالبان کا وقت، جو کالم نگار اس وقت ان طاقتور طبقات کے خلاف لکھ رہے تھے ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ہاں جب یہ دور گزر گئے تو سب طرم خان کالم نگار کمر کس کر میدان میں آ گئے اور لگے ٹھاپیں لگانے بغیر وردی کے ڈکٹیٹر کو اور بعد ازاں شکست خوردہ دہشت گردوں کو تاکہ شہیدوں میں اپنا نام لکھوا سکیں اور کہہ سکیں کہ ہم نے بھی آمریت اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کی تھی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے یزید کے دور میں توکالم نگار واقعہ کربلا پر آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں اور مختار ثقفی کے آنے پر یزید کے خلاف کالم لکھنے لگیں۔

اس لٹمس ٹیسٹ کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جو کالم نگار مزاحمتی کالم نہیں لکھتے وہ سرے سے کالم نگار ہی نہیں، شگفتہ تحریریں، فکاہیہ کالم یا ایسے کالم جو ادبی فن پاروں کا درجہ رکھتے ہوں بہرحال بہترین تحریروں میں شمار ہوں گے، اسی طرح اچھوتے موضوعات تلاش کرنا اور ان کو تخلیقی انداز میں لکھنا بھی کالم نگاری کی ایسی جہت ہے جو نسبتاً نئی ہے اور ایسے کالم لکھنے والوں کو پورے نمبر دینے چاہئیں۔ لیکن یہ تمام لٹمس لگانے کے بعد اگر پوری ایمانداری سے بہترین کالم نگاروں کی فہرست بنائی جائے تو شاید ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ بنے۔ اب اگر کوئی یہ جاننا چاہتاہے کہ وہ دس کالم نگار کون سے ہیں تو اس کے لیے خاکسار سے ملاقات کا وقت لے، مستورات کے لیے پردے کا علیحدہ انتظام ہے!

(یہ کالم آج 23 اکتوبر 2022 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا )

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments