فیٹف: مابعد نوآبادیاتی اور اقتصادی حاکمیت کا استعماری حربہ


پاکستان مابعد نوآبادیاتی شکنجہ سے جز وقتی آزادی ملنے پر، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کی سرمئی یعنی گرے فہرست سے خارج ہونے پر جشن منا رہا ہے، وطن عزیز کے حکمران طبقات کی جانب سے بذریعہ میڈیا پیغام جشن نشر اور شائع کیے جا رہے ہیں۔ ہم بھی خوشی کے ان رنگوں میں خود کو رنگنے کی جستجو میں ہی ہیں لیکن آزادی کے وسیع تر بیانیہ نے سوچنے اور فکر کرنے کی جانب راغب کر دیا ہے۔ عالمی حاکمیت کے تصورات ہر دہائی بعد تبدیل ہوتے چلے آرہے ہیں اور اس حاکمیت کو برقرار رکھنے کے نوآبادیاتی تجربے کو اصلیت اور دائمی حیثیت حاصل ہے۔

حاکمیت کے نوآبادیاتی ماڈل میں نو آبادکاروں نے ریاستوں کو محکومیت میں جکڑنے کے لیے عسکریت پسندی کا استعمال، غیر معمولی اور سیاسی نظریہ کے امتزاج کے ذریعے حکمرانی کی، جو دراصل محکوم اقوام کو کنٹرول کرنے کے نوآبادیاتی ماڈل پر مشتمل تھی۔ اس نوآبادیاتی ماڈل میں چار خصوصیات مشترکہ ہیں : اقتصادی توسیع و اصلاحات، مرکزیت، عسکریت پسندی اور غیر معمولی ضابطے و اقدامات۔ مغرب اب بھی طاقت کے غیر مساوی ستونوں کے ذریعے باقی ماندہ دنیا پر غلبہ رکھتا ہے۔ مابعد نوآبادیاتی عہد میں مغربی کمپنیوں اور مارکیٹوں میں توسیع ہوئی۔ مابعد نوآبادیاتی دور میں اقتصادی کنٹرول کی صورت گری میں، ہتھیاروں کی تجارت، سابقہ نوآبادیات اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مغربی مالی امداد، ریاستوں کے اقتصادی ڈھانچوں اور مالیاتی نظام پر مغربی نگرانی کو برقرار رکھا گیا ہے۔ آج عالمی معیشت پر مغربی تسلط، دراصل نوآبادیاتی نظام کی باقیات کے باعث ہے۔

عالمی حاکمیت کے تصورات کے حامی ممالک نے نیشن۔ اسٹیٹ کو نوے کی دہائی میں ہی چیلنج کر دیا تھا اور قومی جمہوری ریاستوں کے مقابلے پر عالمی اداروں کی بالادستی کے تصورات کو رائج کیا اور ان تصورات کو قانونی شکلوں میں تبدیل کیا گیا۔ فیٹف کی تشکیل کی روح میں بھی اسی بالادستی کو قائم رکھنا ہے۔ روس کے خلاف سرد جنگ اور جہاد افغانستان میں ملیشیا گروہوں کی تشکیل، جہادی کیمپوں کی مالی معاونت کے ذریعے ایشیائی ممالک کو دہشت گردی کی لپیٹ میں دھکیلنے کے لیے فیٹف کے بنیادی اراکین نے ہی امریکا کی معاونت کی تھی پھر جب بی سی سی آئی جیسے بینکوں کے ذریعے سے اس جنگ کے اہداف پورے ہوئے تو دہشت گردی کی مالی معاونت کے سدباب کا نام لے کر فیٹف کی تشکیل کی گئی، بی سی سی آئی کو بند کر دیا، اس کا ریکارڈ تلف کر دیا گیا۔

فیٹف دراصل، مابعد نوآبادیاتی سیاسی و اقتصادی تصورات کے تحت، محکومیت کا شکنجہ مضبوط کرنے کے لیے سپرا نیشنل تنظیم قائم کی گئی جسے بین الحکومتی تنظیم قرار دیا گیا، فیٹف 1989 ء میں جی ایٹ (موجودہ جی سیون) ممالک کی جانب سے تشکیل کیا گیا۔ اس کے بنیادی مینڈیٹ میں منی لانڈرنگ روکنا تھا، تاہم بعد میں اسے دہشت گردوں کی مالی معاونت سے نمٹنے کے حوالے سے بھی قومی ریاستوں کے مقابلے پر ریگولیٹری باڈی کا درجہ دے دیا گیا، یہ توسیع نائن الیون کے حملوں کے بعد کی گئی۔ فیٹف کے رکن ممالک نے ریاستوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 پر عمل درآمد کریں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو جرم قرار دیں۔

فیٹف کے بانیان میں سات ممالک تھے جن کی تعداد اب بڑھ کر 39 ہو چکی ہے، قومی جمہوری ریاستوں پر گرفت رکھنے کی غرض سے سپرا نیشنل اداروں کی تشکیل عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، فیٹف کی تشکیل بھی نوآبادیاتی پالیسی کا تسلسل اور سامراجیت کی ادارہ جاتی شکل ہے۔ فیٹف کو انسٹی ٹیوشنل ڈارون ازم کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جس میں اقتصادی طور پر مضبوط ممالک، تیسری دنیا، پسماندہ ممالک پر سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالتے ہیں، یہ مغربی ماتحتی کی مابعد نوآبادیاتی شکل ہے۔ فیٹف ممالک میں آپریٹ کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں، عالمی سرمایہ داروں، بینکوں یا بینکاروں کے ذریعے سے حریف ممالک کی اقتصادی شہ رگ کو کاٹنے کی دھمکی دینا آسان ہے۔ اقتصادی دباؤ کے ذریعے سے سیاسی فیصلوں اور قومی اداروں، قانون سازی کے عمل کو کنٹرول کر کے، قوموں کی خود مختاری، سالمیت کو پامال کرنا، نوآبادیاتی حربوں کی زندہ مثالیں ہیں۔

یہ جدید طرز کی اقتصادی توسیع ہے، جس نے نوآبادیاتی عہد میں بھی تسلط اور طاقت کے ذریعے ایشیائی و افریقی اقوام کو محکوم بنایا۔ فیٹف کے ذریعے سے سرمایہ داری کو عالمی معاشی نظام کے طور پر قائم کرنے اور اس کی پیوند کاری کی راہیں ہموار کی جاتی ہیں۔ مغربی ممالک مالی امداد کے ذریعے سیاسی طور پر دوسرے ممالک پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جو برتر اور کم تر تعلقات کو برقرار رکھنے کا بالواسطہ طریقہ ہے۔

وگرنہ پانامہ پیپرز نے یہ قلعی کھول دی تھی کہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جو منی لانڈرنگ کے تحت قائم ہیں، تاہم فیٹف کے بانی ممالک کو سرمئی فہرست میں ڈالنے اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی وارننگ تک نہیں دی جاتی، مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے داعش جیسی تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والے مغربی ممالک کو فیٹف جیسے اداروں سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ فیٹف کی ڈوریاں ہلانے والے بھی یہ خود ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کی خون ریزیوں کے بعد ، نوآبادیاتی عہد کا تو خاتمہ ہو گیا تاہم کالونیل ملٹری ازم کی مہمات کو عالمی ادارے روکنے میں ناکام رہے۔ امریکا، اتحادیوں اور نیٹو ممالک نے ملٹری ازم کے تحت ریاستوں کی خود مختاری کو چیلنج کیا۔ فرانس نے 1960 ء سے لے کر 2005 ء تک اپنی سابقہ افریقی کالونیز میں 46 ملٹری آپریشن کیے۔ عراق، لیبیا، شام، تیونس میں دہشت گرد گروہوں کو اسلحہ کی فراہمی اور مالی معاونت میں فیٹف کے رکن ممالک اور امریکا پیش پیش رہے، تاہم انھیں فیٹف کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ فیٹف، بنیادی طور پر، عالمی جنوب اور عالمی شمال کے درمیان سیاسی و اقتصادی پولرائزیشن کو تقویت دینے کا اہم ٹول ہے، یہ بھی واضح رہنا چاہیے فیٹف کوئی ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک واچ ڈاگ ہے، اس واچ ڈاگ تنظیم کے پاس ریاستوں کو کنٹرول کرنے کا اختیار میسر آنا، درحقیقت عالمی استعماریت کے خفیہ منصوبوں کا پردہ چاک کرتی ہے۔

امریکا نے 2017 ء میں، اینٹی منی لانڈرنگ الزامات پر پاکستان کے حبیب بینک پرائیویٹ لمیٹڈ کو 225 ملین ڈالرز جبکہ نیشنل بینک پرائیویٹ لمیٹڈ کو 2022 ء میں 55 ملین ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا، یہ بینکار خود عالمی بینکاری نیٹ ورک کا حصہ ہیں، ان بینکوں کے آپریشن کو جاری رکھا گیا تاہم ریاست پاکستان کی بقاء کو خطرے سے دوچار کر دیا گیا۔ فیٹف کی طرز پر، اقتصادی اشاریوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک اور امریکی تنظیم موڈیز، آزاد ریاستوں کی کریڈٹ ریٹنگ جاری کر کے، امریکی ورلڈ آرڈر کو مضبوط کرنے میں معاونت کرتی ہے اور گزشتہ 120 برس سے یہ تنظیم کریڈٹ ریٹنگ جاری کر کے سرمایہ کاروں کے رجحانات کو کنٹرول کر رہی ہے۔ پاکستان کے میڈیا ہاؤسز موڈیز کی کریڈٹ ریٹنگ کو آسمانی صحیفہ قرار دیتے ہیں اور موڈیز کے پیچھے کار فرما عالمی استعماریت کے محرکات کی نشاندہی تک نہیں کرتے، پاکستان کے حکمران طبقات کی جڑیں لندن اور واشنگٹن ہونے کی بناء پر قومی خود مختاری 75 برسوں سے یونہی روندی جا رہی ہے۔

اجتماعی طور پر، مغربی نوآبادیاتی طاقتیں نئی اقتصادی اصلاحات ترتیب دے رہی ہیں اور انہیں فیٹف جیسی سپرا نیشنل باڈیز کے ذریعے پوری دنیا میں نافذ کر رہی ہیں، فیٹف کے ضابطوں پر پورا نہ اترنے والے ممالک کو بلیک لسٹ کرنے، ان ممالک کے اقتصادی سسٹم کو توڑنے اور گرے لسٹ میں ڈالنے کی سعی کی جاتی ہے، فیٹف کو حاصل شدہ اختیارات سرمایہ داریت کے فروغ اور استعماریت کی عالمی مرکزیت کو برقرار رکھنے کا منصوبہ ہے۔ اب یہ کتنی المناک بات ہے کہ ریاست پاکستان کے حکمران طبقات فیٹف کی قانونی حیثیت پر بات کرنے کے برعکس، اس تنظیم کے احکامات پر قانون سازی کرنے پر قائل ہوتے ہیں اور پاکستان کے میڈیائی دانش وروں کے ذریعے سے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کو اہم ترین تاریخی سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ فیٹف قومی خود مختاری، سالمیت اور ریاستی آزادی کو سلب کرنے کا استعماری حربہ، طریقہ اور منصوبہ ہے۔ فیٹف کے باعث پاکستان کی معیشت کو چار برس تک عالمی مالیاتی سسٹم کی جکڑ بندیوں کے ذریعے بستر مرگ پر رکھا گیا، پاکستان میں داخلی طور پر غربت میں اضافہ ہوا، روپے گراوٹ کا شکار ہوا، قومی سرمایہ داروں نے اپنی دولت یورپی ممالک منتقل کی، ملٹی نیشنل کمپنیوں نے قومی استحصال کیے، کیا پاکستان کو فیٹف کی سرمئی فہرست میں ڈالنے اور خارج کرنے میں عالمی طاقتوں نے خفیہ فوائد حاصل نہیں کیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments