بجٹ، عوام اور اتحادی


قومی اسمبلی میں دوسری بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن سابق صدر آصف علی زرداری، پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اور لندن میں بانی ایم کیو ایم کی گرفتاری کے ہنگامے میں پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے 3 ہزار 151 ارب خسارے کا پہلا بجٹ پیش کر دیا، وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر غیر منتخب مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی ہدایات پر عوام پہ ساڑھے پانچ سو ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہے تھے تو اپوزیشن کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنے رہنماؤں کی گرفتاری پہ احتجاج کرے یا عوام کی زندگی اجیرن ہونے پہ بین کرے۔

اس صورتحال کو اگر صحیح معنوں میں کسی نے انجوائے کیا تو وہ اسی ایوان کے قائد یعنی وزیراعظم عمران خان تھے جن کو اپوزیشن کے احتجاج سے غرض تھی نہ ہی اس بجٹ کے ذریعے عوام کے زخموں پہ نمک پاشی کی بلکہ ان کے اندر کی خوشی ان کے چہرے سے چھلک رہی تھی کہ بالآخر انہوں نے عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کر دیا کہ میں انہیں رلاؤں گا۔ اپنے انہی جذبات کا اظہار وہ بجٹ پیش کرنے سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں بھی ان الفاظ میں کر چکے تھے کہ دیکھو میں نے نیلسن منڈیلا کوجیل بھیج دیا، ٹی ٹی شریف کو بھی جیل کی ہوا لگوائی، جو کہتا تھا سب پہ بھاری ہوں اسے بھی میں نے اندر کر دیا اور تو اور جس کا نام کبھی کراچی میں دہشت کی علامت ہوا کرتا تھا اس کو بھی لندن میں اندر کرا دیا، ان کی طرف سے بار بار میں کی تکرار پہ ایک رکن سے نہ رہا گیا اور اس نے دریافت کر ہی ڈالا کہ جناب وزیراعظم صاحب ان سب کو آپ نے اندر کرایا ہے؟

اپوزیشن بھی حکومت پہ یہی الزام تو لگاتی ہے کہ احتساب کا سارا عمل حکومت کی اشیرباد سے ہو رہا ہے، وزیراعظم کو فوری اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا مطلب تھا کہ وہ بدعنوانی کے مرتکب افراد کو قابلِ احتساب بنائیں گے۔ پارلیمانی پارٹی کے ارکان کو سنائی جانے والی آپ بیتی خاصی طویل اور بور ہوئی تو ارکان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ ایک رکن نے اٹھ کر وزیراعظم سے شکوہ کیا کہ ان تک رسائی نہیں ہوتی جبکہ ان کے علاقے کے مسائل بھی حل نہیں ہو رہے، بس پھر کیا تھا ارکان کی اکثریت نے کھڑے ہو کر یک زبان گلے شکوے شروع کر دیے جس پہ انہیں روایتی یقین دہانی کراتے ہوئے اجلاس برخاست کر دیا گیا۔

خوردنی اشیاء سے میٹرو کے کرایوں تک اضافے سے عوام کی کمر دہری کرنے والے بجٹ کو منظور کیسے کرانا ہے اس کی فکر کا اندازہ جناب وزیراعظم کے اسی رات قوم سے خطاب سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ روایت کے مطابق سرکاری ٹی وی کے ذریعے ریکارڈنگ کی بجائے نجی کمپنی کی خدمات لینے اور تقریر کی ایڈیٹنگ سے ٹیلی کاسٹ کے دوران آواز بند ہونے جیسی نادر مثالیں قائم کرنے کو نظر انداز کرکے صرف عمران خان صاحب کے لب ولہجہ کا ذکر کریں تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بجٹ پہ عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے تاہم عوام پھر بھی یہ پوچھنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ ظل الٰہی اگر آپ کے تمام ارشادات پہ ایمان لا کر ملک کی تمام سابق سیاسی قیادت کو بدعنوان سمجھ لیا جائے تو کیا وجہ ہے کہ اس دور میں تمام معاشی اشاریے مثبت تھے، ان کی زندگی سہل تھی، اگر حکومت کے اس مفروضے پہ بھی آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا جائے کہ ماضی میں روپے کی قدر سے ترقیاتی بجٹ تک سب مصنوعی تھا تو آئی ایم ایف سے عالمی بینک تک سب پاکستان کی ترقی کی شرح کا تخمینہ اگلے دو سے تین سال میں سات فیصد تک کیوں لگا رہے تھے؟

جناب عالی عوام کو اس سے بھی غرض نہیں کہ آپ نے اب کس اپوزیشن رہنما کو اندر کرنا ہے، انہیں آپ کی یا کسی اور کی انا کی تسکین سے لینا دینا نہیں، ان کی نیندیں تو آپ کی طرف سے پیش کردہ بجٹ دستاویزات میں یہ پڑھ کر حرام ہو چکی ہیں کہ آئندہ تین سال تک مہنگائی کی شرح 11 سے 13 فیصد تک ہی رہے گی۔ ان کے بنیادی مسائل یعنی صحت اور تعلیم کے لیے مختص رقم میں بھی کمی کی جا چکی ہے، رہا تنخواہ دار طبقہ تو ان کو تو دھیمے لہجے والے حفیظ شیخ نے ایسے خوبصورت طریقے سے زہر کی گولی دی ہے کہ وہ رو سکتے اور نہ ہی ہنس سکتے ہیں۔

ایک طرف ان کی تنخواہوں میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف معمولی اضافہ کیا گیا تو دوسری طرف ان پہ عائد انکم ٹیکس میں غیر معمولی اضافہ کرکے عملی طور پہ ان کی تنخواہوں میں کمی کر دی گئی ہے۔ ملک کے تمام مسائل کی جڑ قرضوں کو قرار دینے والی حکومت کی اقتصادی منصوبہ بندی کا یہ عالم کے ڈالر کو بے لگام چھوڑ کر سود کی مد میں گھنٹوں کے حساب سے خطیر رقم کا اضافہ کیا جا رہا ہے، اس وقت ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں 158 کی ریکارڈ سطح پہ جا پہنچی ہے۔

وزیراعظم نے رات کے پچھلے پہر کیے گئے اپنے خطاب میں عوام کو گزشتہ دس سال میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کی نوید سنا کر بہلانے کی کوشش کی لیکن اسے حد درجہ پُر اعتمادی کہیں یا ڈھٹائی کہ جس دور کا حساب کتاب لینا ہے اس میں پیپلز پارٹی کے تین ساڑھے تین سال وہی مالیاتی جادوگر قرضے لے رہے تھے جو آج تحریک انصاف کی معاشی پالیسیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ وزیراعظم تحقیقاتی کمیشن کے قیام جیسے تردد کی بجائے اپنے مشیر خزانہ سے ہی دریافت کر لیتے کہ اس وقت لیا گیا قرض کہاں گیا تو بالواسطہ قومی خزانے پر بوجھ نہ ڈال کر کفایت شعاری مہم میں مزید حصہ ڈال دیتے۔ صرف دس ماہ کی قلیل مدت میں چار ہزار ارب روپے سے زیادہ قرضہ لینے والوں کو تو ویسے ہی اندازہ ہو جانا چاہیے تھا کہ قرض کیوں لیا جاتا ہے اور کدھر جاتا ہے۔
بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).