19 نومبر کو بچوں کے عالمی دن پر مرنے والی بچی اور ڈاکٹر کے الفاظ


دو بچوں کے بعد ہمارا خیال تھا کہ خاندان مکمل ہوچکا ہے۔ آج کل کے زمانے میں دو بچوں کی ہی اچھی تعلیم اور تربیت ہوجائے تو بڑی بات ہے لیکن نجانے کیا ہوا کہ احتیاط کے باوجود شازیہ نے مجھے بتایا کہ وہ ابتدائی حمل سے ہے۔ ایک دو دوستوں نے مشورہ بھی دیا کہ اگر بچے کی ضرورت نہیں ہے تو حمل ساقط بھی کرایا جاسکتا ہے مگر ہم دونوں کا خیال تھا کہ ہم تیسرے بچے کا خرچ تو برداشت کر ہی سکتے ہیں لہٰذا آنے والے کی تیاری کرنی چاہیے۔ اگر ہم لوگ غریب ہوتے اوردو بچوں کے بعد تیسرے کا بوجھ برداشت کرنا مشکل ہوتا تو شاید اسقاطِ حمل کے مرحلے سے بھی گزرتے۔ لیکن بھی سوچا نہیں تھا کہ ایسا ہوگا لہٰذا یہی مناسب تھا کہ ایک بچہ اور سہی۔

ابتدائی الٹراساؤنڈ سے ہمیں پتا لگ گیا کہ نئی مہمان لڑکی ہوگی۔ نورین کی پیدائش دو ہفتے قبل ہی ہوگئی تھی۔ خوشی کے ابتدائی گھنٹوں کے بعد ہمیں پتا لگا کہ نورین نارمل لڑکی نہیں ہے۔

ہوا یہ تھا کہ پیدا ہونے کے فوراً بعد ہی سے اس کو سانس لینے میں مشکل ہورہی تھی۔ اس خیال سے کہ وہ وقت سے تھوڑا پہلے دنیا میں آگئی ہے اور شاید اس کے پھیپھڑے کام نہیں کررہے ہیں اسے فوری طور پر نوزائدہ بچوں کے کمرے میں بھیج دیا گیا جہاں اس کو آکسیجن دی جانے لگی تھی۔ مگرآکسیجن دینے کے باوجود اس کی طبیعت نہیں سنبھلی تو ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اسے آغا خان ہسپتال میں بچوں کے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں بھیجنے کی ضرورت ہوگی جہاں مشین سے آکسیجن دیا جاسکے گا۔ وینٹی لیٹر مشین کا نام تھا جو ہر ہسپتال میں نہیں ہوتی ہے۔ مجھے بعد میں پتا لگا تھا کہ کراچی جیسے شہر میں لاکھوں کی آبادی کے لیے مشکل سے پندرہ بیس وینٹی لیٹر ہیں جو قطعی طور پر ناکافی ہیں۔

میں نے فوری طور پر آمادگی کا اظہارکردیا۔ آغا خان ہسپتال میں فوری جگہ تو نہیں ملی۔ مگر ہسپتال کے ایک ڈاکٹر صاحب کے بار بار فون کرنے کے بعد ہسپتال میں جگہ مل گئی تھی۔ نورین کومستقل آکسیجن کی ضرورت تھی جو اسے وہاں وینٹی لیٹر کے ذریعے دی جانے لگی تھی۔

شازیہ ابھی تک ہسپتال میں تھی اور شیشے کے کمرے کے پیچھے میں کھڑا نورین کو تک رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے تولیوں میں پھنسی ہوئی چھوٹی سی نورین کی آنکھیں بند تھیں۔ میں اسے چھو بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنی آنکھوں سے جتنے بھی بوسے لیے جا سکتے، لیتا رہا۔ واپس ہسپتال جا کر میں نے شازیہ کو تسلی دی کہ ہماری نورین کی طبیعت ٹھیک ہے اور وہ اچھی ہوجائے گی۔

مگر وہ ٹھیک نہیں ہوئی۔ آغا خان ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بہت سارے ٹیسٹ کیے توپ تا لگا کہ نورین کو کسی قسم کا سنڈروم ہے جس میں کئی چیزیں خراب ہوتی ہیں اور یہ بیماری پیدائشی طور پر ہوتی ہے۔ اس کی آنکھیں چھوٹی تھیں، اس کے دل کے ایک والو میں سوراخ تھا اور اس کے جسم کے خاص خلیوں نیورون جن کا نام تھا، میں کوئی ایسی خرابی تھی جس سے جسم کی نشوونما عام بچے کی طرح نہیں ہوسکتی تھی۔ ڈاکٹروں نے بہت کچھ سمجھایا اور بتانے کی کوشش کی تھی مگر ہم لوگوں کی سمجھ میں یہی کچھ آیا تھا۔

ہسپتال سے گھر آنے کے بعد یکایک شازیہ نے اپنے آپ کو قصوروار ٹھہرانا شروع کردیا کہ نورین میں یہ خرابی اس کی کسی غلطی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں تھی کیوں کہ حمل سے پہلے یا بعد میں اس نے کوئی دوا کھائی تھی اور نہ ہی کوئی ایسا کام کیا تھا کہ جس سے یہ شک پیدا ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حمل نہ ہونے کے لیے بھی، حمل روکنے کی دواؤں کے بجائے ہم لوگوں نے نیچرل طریقوں کو اپنایا تھا۔ پورے حمل کے دوران اس نے کوئی بھی بے احتیاطی نہیں کی۔ اچھی غذا، آئرن کی گولیاں مچھلی، تازہ سبزیاں جو ڈاکٹر کہتے تھے وہ کرتی رہی تھی۔

ہم دونوں ایک بار پھر بچوں کے ایک اور بڑے ماہر سے ملنے گئے۔ جس نے ہمیں صاف صاف بتادیا کہ یہ سنڈروم کسی کو بھی ہوسکتا ہے۔ اس بیماری کا کوئی تعلق ماں یا باپ سے نہیں ہے اور سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ نورین بہت دنوں تک زندہ نہیں رہے گی۔

ہم دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو تکتے رہے اورشازیہ بے قرار ہوکر رو پڑی تھی۔

قدرت کا یہ سنگ دل مذاق ہمارے پورے خاندان پر بہت گراں گزرا تھا۔

اسما اورعامر کو بھی اپنی کم عمری کے باوجود اندازہ ہوگیا کہ گھر میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ شازیہ نے پریشانی میں دونوں بچوں کو ایک دن بہت ڈانٹا تھا اورپھر ڈانٹنے کے بعد خود بھی ان کے ساتھ رو دی تھی۔ اس کا دل اس کے آنکھوں میں آنسو بن کر پگھل رہا تھا۔

وقت بڑا مرہم ہے۔ کچھ ہفتے گزرنے کے بعد ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ نورین کے دل کا آپریشن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دل کے والو کو صحیح کردیا جائے جس کے بعد اسے مشین سے آکسیجن دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پھر شاید وہ گھر پر بھی جاسکے گی۔ انہوں نے مجھے سمجھایا بھی کہ اگر میں چاہوں تو یہ آپریشن نہ کراؤں کیوں کہ نورین کی زندگی ویسے بھی بہت طویل تو نہیں ہے پھر اس آپریشن پر پیسے بھی خرچ ہوں گے۔ میں نے سوچا کہ ڈاکٹر اوپر والے سے زیادہ طاقتور تو نہیں ہیں۔ مجھے کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اتنے پیسے تو میں افورڈ کرسکتا ہوں۔ شاید اس آپریشن سے فائدہ ہو۔ شاید کوئی معجزہ ہوجائے۔ شاید کوئی صورت نکل آئے۔ شاید اس کی زندگی بچ جائے۔ شاید وہ بھی ہمارے دوسرے بچوں کی طرح کھل کھلا کر ہنسے، روئے، ضد کرے، رات کے بیچ میں کوئی ایسی فرمائش جس کو سن کر ہم دونوں گھنٹوں دنوں ہفتوں ہنستے رہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5