19 نومبر کو بچوں کے عالمی دن پر مرنے والی بچی اور ڈاکٹر کے الفاظ


اس دفعہ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے آنتوں کی حرکت بند ہوگئی ہے جس کی وجہ سے فضلہ خارج نہیں ہورہا ہے اوربچی کی طبیعت خراب ہورہی ہے۔ شروع میں دیکھیں گے اگر دواؤں سے صحیح نہیں ہوا توپھر آپریشن کی ضرورت پڑجائے گی۔

ہم دونوں تو ہر حال میں راضی تھے۔ کچھ بھی کریں ہماری بچی کو صحیح کردیں یہی تمنا تھی میری۔ بچوں کے وارڈ کی نرسیں بہت مستعد اورمہربان تھیں۔ ہم باہر بیٹھے رہتے اور وہ آتے جاتے ہمیں تسلی دیتی رہتی تھیں۔ جتنے دن وہ ہسپتال میں رہی، نرسری ہمارے لیے ایک عبادت گاہ بن گئی تھی۔ آرزوؤں کا ایک مندر، خواہشات کا ایک گرجا، آنسوؤں میں لپٹا ہوا دور پہاڑی پہ جیسے کوئی پگوڈا جہاں پیلے کپڑوں میں ملبوس بودھسٹ آہستہ آہستہ نورین کے نام کی مالا جپ رہے ہوں۔

تیسرے دن سے اس کی حالت درست ہونے لگی، اس کا پیٹ پھولنا بند ہوگیا بلکہ کم ہوگیا۔ اس کے چہرے پہ تھوڑی سی رونق آئی۔ ہمیں لگا کہ ہماری دعائیں قبول ہورہی ہیں۔ نرسوں نے ہمیں مبارکباد دی۔ ان کے چہروں پہ رونق دیکھ کر ہمارے دلوں کے اندر بھی جیسے کہیں گھنٹی بج اٹھی تھی۔

اسی دوپہر میں نے ڈاکٹر سے تفصیل سے بات کی۔ مجھے پتا تھا کہ میرے سوال بچکانہ ہیں۔ شاید میں اور شازیہ بار بار ایک ہی سوال کررہے تھے۔ ہمارے دل میں تھا کہ جیسے ڈاکٹر کہہ دے کہ بچ جائے گی۔ تھوڑے دن کے بعد صحت مند ہوکر گھر چلی جائے گی مگر شاید ڈاکٹر نے پریشان ہوکر غصے سے کہا، ”دیکھیں جناب میں دس دفعہ آپ کو سمجھا چکا ہوں، آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ نورین ایک نارمل بچی نہیں ہے اس کے بہت سارے مسائل ہیں۔ اس نے آخر کار مر ہی جانا ہے۔ اسے بہت دن تک زندہ نہیں رکھا جاسکے گا۔ آپ کو اپنی بچی کی پڑی ہے، یہاں اور بھی بہت سارے بچے ہیں انہیں بھی ہم نے دیکھنا ہے۔ کچھ ہمارا بھی خیال کریں۔ ہم سارا وقت آپ کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتے ہیں۔“ دروازہ زور سے بند کر کے وہ کمرے سے چلا گیا تھا۔

میں شل ہوکر رہ گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری عبادت گاہ، میرا مندر، میرا گرجا، میرا پگوڈا ایک دوسرے پر گر کر کرچی کرچی ٹوٹ گئے ہیں، ریزہ ریزہ بکھر گئے ہیں۔

ہم دونوں نے شیشے کی دیوار کے پیچھے اسے دیکھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ مسکرا رہی ہے مگر ہم دونوں کے درمیان صرف شیشے کی دیوار نہیں ہے لاکھوں کروڑوں اربوں کوسوں کا فاصلہ ہے۔ نجانے کتنے ستارے ہیں جو میرے اور اس کے درمیان آگئے ہیں۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنے آنسوؤں کو روکا تھا۔

وہ ٹھیک ہورہی تھی۔ اس نے پاخانہ بھی کرلیا، اس کا پیٹ بالکل صحیح ہوگیا اور ڈاکٹر اسے ڈسچارج کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ یکایک ساتویں دن اسے الٹی ہوئی تھی اور اس رات تین بج کر گیارہ منٹ پر وہ ہمارا ساتھ چھوڑگئی۔

اتنا دکھ مجھے زندگی میں کبھی بھی نہیں ہوا۔ ایسا لگا جیسے میری دنیا بکھر کر رہگئی ہے۔ میں شازیہ کو سمجھاتا رہا اور خود کو بھی سمجھاتا رہا۔ بار بار اپنے دونوں بچوں سے لپٹ لپٹ کر اپنے آنسوؤں سے انہیں بھی تر کرتا رہا خود بھی بلکتا رہا۔ میرے والد نے مجھے گلے سے لگا کر تسلی دی۔ بہت دیر تک مجھے تھامے رہے۔ میری ماں کا چہرہ میرے لیے جلتا رہا۔ میری تکلیف دیکھ کر وہ بے قرار ہوگئیں۔ مجھے ان سب سہاروں کے باوجود دنیا ویسی نہیں لگی جیسی نورین کی زندگی میں تھی۔ وہ ننھی سی روح ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی تھی ایسا تو میں نے نہیں سوچا تھا۔ کیا سوچا، کیا ہوگیا۔

وقت سے بڑا کوئی بھی بے وفا نہیں۔ زندگی آہستہ آہستہ دوبارہ چل نکلتی ہے لیکن ابھی بھی ہر اُنیس نومبر کی صبح تین بج کر گیارہ منٹ تک مجھے نیند نہیں آتی ہے۔ میں اسے یاد کرکے اس کے لیے دعا کرتا ہوں۔ مجھے وہ ڈاکٹر بھی یاد آجاتا ہے جس نے کہا تھا نورین نہیں بچ سکتی ہے۔ اس نے صحیح کہا تھا۔ میری امیدوں سے بلند اس کا یقین تھا۔ میری تو ایک ہی بچی بیمار ہوئی تھی، اسے تو بہت سوں کو دیکھنا تھا۔ میں نے تو صرف ایک اپنی بچی کی موت کو دیکھا اس نے تو نجانے کتنوں کو مرتا ہوا دیکھا ہوگا۔ انہیں مردہ قرار دیا ہوگا، دن رات دوپہر شام سہ پہر کسی بھی وقت پہ۔ پر وہ کبھی بھی اُنیس نومبر کی صبح تین بج کر گیارہ منٹ پہ دعائیں نہیں مانگتا ہوگا۔ میرے دل میں نجانے کیوں شدت سے یہ خیال آتا ہے، کاش کاش، اس ڈاکٹر نے اس دن وہ جملے نہ کہے ہوتے۔ ہماری بیٹی نے تو شاید مر ہی جانا تھا، اس دنیا سے چلے ہی جانا تھا مگر کیا ضروری تھا کہ اس کے ساتھ ہمارا اعتبار اعتماد بھی چلا جاتا۔ کیوں ضروری تھا یہ! ؟

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5