کشمیر: کیا انڈیا کی حکومت کشمیری علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرے گی؟


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر

جس گھر میں مسلح شدت پسند موجود ہوں اس گھر کو انڈیا کی فوج مسمار کر دیتی ہے

نئی دلی اور کشمیری علیحدگی پسندوں کے درمیان مذاکرات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ماضی کی تمام کوششیں فریقین کی طرف سے شرائط پر آکر رُک جاتی تھیں۔

علیحدگی پسندوں کا موقف ہے کہ انڈیا پہلے کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کرے، فوجی قوانین معطل کرے، قیدیوں کو رہا کرے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کشمیری علیحدگی پسندوں کو بنیادی فریق تسلیم کرے۔ لیکن حکومت ہند کا کہنا ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ آئین ہند کے طے شدہ ضابطوں کے تحت بات چیت پر تیار ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حریت کانفرنس کشمیر کو ہندوستان کا ‘اٹوٹ انگ’ (جزو لاینفک) تسلیم کرے اور اقوام متحدہ میں منظور شدہ قراردادوں پر عمل کے لیے اصرار نہ کرے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر کی سنگ بار لڑکیاں

کشمیر میں اخبارات سادہ کیوں شائع ہوئے؟

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیری خطوں میں رائے شماری کے ذریعہ آبادی کے سیاسی مستقبل کا تعین ہوگا۔

گذشتہ پانچ سال کے دوران کشمیر میں ہلاکتوں، پرتشدد مظاہروں، مظاہرین کےخلاف مہلک ہتھیاروں کے استعمال، قید و بند اور حریت رہنماوں پر پابندیوں کا سلسلہ ماضی کے مقابلے میں شدید تر رہا۔

شبیر شاہ، نعیم خان اور دیگر درجنوں علیحدگی پسندوں کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے مختلف معاملات کے تحت دلی میں قید کیا گیا ہے۔

سید علی گیلانی دس سال سے گھر میں نظربند ہیں، یاسین ملک بھی جیل میں ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق کو اکثر اوقات وادی کی سب سے بڑی مسجد میں خطبے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

اسی پس منظر میں اتوار کو ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے سرینگر میں ایک تقریب کے دوران یہ دعوی کیا کہ حریت کانفرنس مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

پلوامہ میں انڈین فوجیوں کے قافلے پر حملے میں چالیس فوجی مارے گئے تھے

پلوامہ میں انڈین فوجیوں کے قافلے پر حملے میں چالیس فوجی مارے گئے تھے

میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں قائم حریت دھڑے نے اس اعلان کو مثبت تبدیلی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دلی اور اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

میرواعظ کے ساتھی اور حریت کانفرنس کے سابق چئیرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ کہتے ہیں: ’کشمیر کا مسلہ میدان جنگ میں نہیں بلکہ بات چیت کی میز پر حل ہوسکتا ہے۔ اگر واقعی نئی دلی اس بات کی قائل ہوگئی ہے تو حریت کانفرنس مذاکرات کی کسی بھی کوشش میں تعاون دینے کے لیے تیار ہے۔‘

قابل ذکر ہے کہ انڈیا کی حکومت گذشتہ 25 سال کے دوران مسلح عسکریت پسندوں اور حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار کرچکی ہے۔ لیکن ہر بار یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے۔

بھارت کا زیرِ انتظام کشمیر

انڈیا کے خلاف مظاہروں میں خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں

میرواعظ عمر فاروق کی سربراہی والی حریت کانفرنس نے سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ کے ساتھ کئی بار مذاکرات کیے۔ تاہم حکومت ہند نے ہر بار کہا کہ حریت کانفرنس کوئی ٹھوس مطالباتی ایجنڈا تشکیل دینے میں ناکام رہی۔ فی الوقت مذاکرات کی باتیں کشمیرکے گورنر اور حریت کانفرنس کی قیادت تک محدود ہے۔ جس تقریب کے دوران گورنر نے مذاکرات کی بات کہی ہے، اُس میں نریندر مودی کی کابینہ کے دو ارکان بھی موجود تھے، تاہم مذاکرات کے بارے میں حکومت ہند نے ابھی سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا ہے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ نریندر مودی اقتدار کی دوسری مدت کے دوران کشمیر کے بارے میں نرم رویہ اپنانے پر آمادہ ہیں۔ صحافی اور تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں: ’بھارت نے زمینی سطح پر مسلح عسکریت پسندی کی نئی لہر کو فوجی طاقت سے کمزور کردیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ زبردست کشیدگی کے باوجود سفارتی تعلقات بحال ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسمبلی انتخابات سے قبل کشمیر میں بات چیت کسی نہ کسی شکل میں بحال ہوگی، لیکن یہ بہت ہی پیچیدہ عمل ہے۔‘

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت حریت کانفرنس ایک کمزور فریق کی حیثیت سے میدان میں ہے، لہذا وہ نئی دلی کے ساتھ لین دین کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ماضی میں جب بھی کشمیر میں مسلح تشدد کی سطح بڑھ جاتی تھی تو نئی دلی علیحدگی پسندوں کو بات چیت کی پیشکش کرتی تھی۔ لیکن اس بار صورت حال مختلف ہے، انڈیا کی حکومت کے لیے زمینی سطح پر کوئی عسکری چیلنج موجود نہِیں ہے۔ گو اس سال دو بڑے حملے ہوئے جن میں 40 سے زیادہ فوجی اہلکار ہلاک ہوئے مگر فوجی آپریشنوں میں گذشتہ پانچ سال کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مسلح عسکریت پسند مارے گئے جبکہ سینکڑوں نہتے مظاہرین بھی مارے گئے۔

ریاض ملک کہتے ہیں: ’ابھی یہ واضح نہیں کہ جنوبی ایشیا میں بدلتے سیاسی حقائق کے پیش نظر بھارت اب پاکستان کے ساتھ متنازع معاملات درست کرنا چاہتا ہے یا داخلی سطح پر حالات کو بحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات میں لوگوں کی شرکت یقینی بن جائے۔‘

کشمیر یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی محقق انشاء آفرین کے مطابق مذاکرات کے لیے پرامن ماحول کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور امن کی بحالی کے لیے پہلا قدم انڈیا کی حکومت کو اُٹھانا ہے۔ ’پانچ سال سے فوجی آپریشن جاری ہے، حریت والے جیلوں یا گھروں میں نظر بند ہیں، نوجوانوں کا پولیس تعاقب کررہی، مسلح نوجوانوں کو محاصرہ کرکے مار دیا جاتا ہے۔ ایسے میں آپ کس موضوع پر بات چیت کریں گے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp