ایتھوپیا کے آرتھوڈاکس مسیحی: آکسم شہر کی تقدس پر تن، من، دھن قربان ہے


مسجد

ایتھوپیا کے آرتھوڈاکس مسیحیوں کے لیے آکسم نامی تاریخی شہر ایک مقدس جگہ ہے

ایتھوپیا کے آرتھوڈاکس (راسخُ العقیدہ) مسیحیوں کے لیے آکسم نامی تاریخی شہر ایک مقدس جگہ ہے کیونکہ اس شہر کے بارے میں انجیل میں ذکر آیا ہے جہاں ’کوئین آف شیبا‘ کی حکومت تھی اور اور ’آرک آف دی کووینینٹ‘ بھی یہیں تھا۔

’آرک آف دی کووینینٹ‘ لکڑی کا تابوت ہے جس میں توریت کی لوحیں محفوظ تھیں۔

اس صندوق میں عبادت اور اخلاقیات کے وہ 10 رہنما اصول موجود ہیں جو خدا کی طرف سے حضرت موسیٰ کو دیے گئے تھے۔ اس صندوق کے حوالے سے کہا جاتا ہے اس کی حفاظت اس شہر میں موجود راہب کرتے ہیں۔

گذشتہ کچھ عرصے سے چند مسلمان اس شہر میں مسجد کی تعمیر کی مہم چلا رہے ہیں تاہم اس تجویز کو مسیحی رہنماؤں نے سختی سے مسترد کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘جن راستوں سے حضرت عیسیٰ گزرے’

کونمارا پبلک لائبریری، انڈیا کا قدیم کتب خانہ

ایک بہن نے مسجد بنوائی، ایک نے قدیم ترین یونیورسٹی

سینیئر مذہبی رہنما گوڈیفا مہرا کا کہنا ہے کہ ’آکسم ہمارا مکہ ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ جیسے اسلام کے مقدس مقامات پر چرچز بنانے پر پابندی ہے بالکل اسی طرح آکسم میں مساجد نہیں بنائی جا سکتیں۔

گوڈیفا مہرا کہتے ہیں کہ ‘آکسم ایک مقدس جگہ ہے۔ یہ شہر ایک مسیحی خانقاہ ہے۔’ گوڈیفا آکسم میں قائم ایک چرچ کے نائب سربراہ ہیں۔

تاہم راسخُ العقیدہ مسیحیوں کا یہ دیرینہ موقف اب ایک تنازع کا باعث بن رہا ہے کیونکہ چند مسلمان یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں اس شہر میں مسجد بنانے اور لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کا حق دیا جائے۔

چرچ

آکسم میں واقع ور لیڈی میری آف زائیون چرچ

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تنازع کھڑا ہونا بدقسمتی کی بات ہے کیونکہ دنیا کی قدیم ترین ثقافتوں میں سے ایک آکسم کسی زمانے میں مذہبی رواداری اور برادشت کی وجہ سے مشہور تھا۔

دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے مطابق اس شہر میں مسلمانوں کی پہلی مرتبہ آمد چھٹی صدی عیسوی میں اسلام کے ظہور کے فوراً بعد اس وقت ہوئی جب وہ مکہ میں غیر مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں ان پر ہونے والے مظالم کے باعث بھاگ کر یہاں آئے۔

اس وقت یہاں کے مسیحی بادشاہ نے ان کا کھلے دل سے استقبال کیا اور جزیرہ نما عرب سے باہر اسلام کو پھلنے پھولنے کی جگہ دی۔

آج آکسم کی 73 ہزار نفوس کی آبادی میں سے دس فیصد مسلمان ہیں جبکہ 85 فیصد راسخ العقیدہ (آرتھوڈاکس) مسیحی۔ جبکہ پانچ فیصد کا تعلق مسیحیوں کے دوسرے فرقوں سے ہے۔

مسلمان شہر سے باہر عبادت پر مجبور

اس شہر کے مسلمان باسی عبدو محمد علی نے بتایا کہ ان کا خاندان نسل در نسل مسیحیوں کے گھروں کو کرائے پر حاصل کرتا رہا ہے تاکہ وہاں عبادت کی جا سکے۔

انھوں نے شکایت کی کہ ’یہاں 13 عارضی مساجد ہیں۔ جمعے کے دن اگر وہ (مسیحی) ہمیں لاؤڈ سپیکر استعمال کرتے سن لیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم سینٹ میری کا تقدس پامال کر رہے ہیں۔‘

مسجد

یہ تنازع یہاں بسنے والے گروہوں میں کشیدگی کا باعث بن رہا ہے

ایک اور رہائشی عزیز محمد کا کہنا ہے کہ مساجد کے نہ ہونے کے باعث چند مسلمان کھلے آسمان تلے عبادت پر مجبور ہیں۔ عزیز ایک روائتی ڈاکٹر ہیں اور وہ گذشتہ 20 برسوں سے آکسم میں رہ رہے ہیں۔

’یہاں ہم مسلمان اور مسیحی اکھٹے رہتے ہیں۔ مسیحی ہمیں عبادت کرنے سے نہیں روکتے مگر گذشتہ کئی برسوں سے ہم گلیوں میں عبادت کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک مسجد کی ضرورت ہے۔‘

یہ تنازع یہاں بسنے والے گروہوں میں کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔

عبدو محمد میرے مسیحی ہونے کی وجہ سے مجھ سے بات کرنے سے گریزاں تھے اور انھوں کافی منت سماجت اور میری شناخت دیکھنے کے بعد گفتگو کی۔

اسی طرح عزیز محمد، جن کے والد مسلمان اور والدہ مسیحی تھیں، نے بھی اس موضوع پر مزید بات کرنے سے انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا ’یہاں ہم ایک دوسرے کے خوف تلے زندگی بسر رہے ہیں۔‘

’ہمیں امن چاہیے‘

اس ہی نوعیت کے تنازعات نے 50 برس قبل بھی اس وقت سر اٹھایا تھا جب ایتھوپیا میں شہنشاہ ہیلی سیلاسی کی حکومت تھی۔

اس وقت شہر کے رہنما نے مسلمانوں سے ایک مفاہمتی سمجھوتا کیا تھا جس کے تحت انھیں وکیرو مرے نامی آبادی سے 15 کلومیٹر دور ایک مسجد تعمیر کی گئی۔

اس علاقے کے دورے کے دوران میری ملاقات کیرییا مسعود سے ہوئی جو مسلمان عبادت گزاروں کے لیے کھانا تیار کر رہی تھیں۔

اس علاقے میں اب پانچ مسجدیں قائم ہو چکی ہیں۔ ان مساجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیرییا مسعود نے کہا ’ہمیں آکسم میں ایک مسجد کی ضرورت ہے مگر ہم انھیں مجبور نہیں کر سکتے۔ ہمیں پرامن طریقے سے رہنے کی ضرورت ہے۔‘

سلطنتِ آکسم:

مسجد

• آکسم کے قدیمی شہر میں واقع کھنڈرات کو اقوام متحدہ کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹس کا درجہ حاصل ہے
  • سلطنت آکسم پہلی صدی عیسوی سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی تک بحیرہ احمر کے ذریعے ہونے والی تجارت پر کنٹرول کے باعث امیر اور طاقتور بنی۔
  • فریمناٹوس نے اس علاقے کو عسائیت سے روشناس کروایا اور 333 عیسوی میں مسیحیت کو یہاں کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا۔
  • مقامی روایات کے مطابق کوئین آف شیبا نے حضرت سلیمان سے ملاقات کے لیے آکسم سے بیت المقدس (یروشلم کا سفر کیا)
  • ان کے بیٹے مینیلک ون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یروشلم سے ’آرک آف دی کووینینٹ‘ کو واپس آکسم لائے
  • ’آور لیڈی میری آف زائیون چرچ‘ میں رکھے گئے ’آرک آف دی کووینینٹ‘ کو کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے
  • آرتھوڈاکس کرسچئین چرچز میں آرک کی مشابہت رکھتا ایک تابوت ہونا لازمی ہے
  • آکسم کے قدیمی شہر میں واقع کھنڈرات کو اقوام متحدہ کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹس کا درجہ حاصل ہے

مذہبی رہنما گوڈیفا مہرا کا کہنا ہے مسلمان اور مسیحی پرامن طریقے سے رہتے ہیں اور یہ کہ دین ابراہیمی کے پیرو دونوں مذاہب میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔

مسجد

مذہبی رہنما گوڈیفا مہرا کا کہنا ہے کہ دین ابراہیمی کے پیرو دونوں مذاہب میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں

انھوں نے بتایا کہ ان کے سب سے قریبی دوست ایک مسلمان ہیں اور وہ شادیوں، جنازوں اور دوسری تقریبات میں اکھٹے شرکت کرتے ہیں۔

’صرف مسیحی حمدیہ گیت‘

ان کا خیال ہے کہ ایتھوپیا کے دوسرے علاقوں میں بسنے والے مسلمان مسجد کی تعمیر کی مہم کے پیچھے ہیں۔

تاہم انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد سے کیے گئے آکسم شہر کے ’تقدس‘ کی حفاظت کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔

’اگر کوئی مسجد تعمیر کرنے آیا ہم مر جائیں گے۔ اس کی کبھی اجازت نہیں دی گئی اور اپنے جیتے جی ہم بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہمارے لیے یہ مرنے کا مقام ہو گا۔ ہمیں عزت باہمی کے تحت رہنا ہو گا جیسا کہ ہم صدیوں سے رہتے آ رہے ہیں۔‘

آرتھوڈاکس مسیحیوں کا ماننا ہے کہ صرف مسیحی حمدیہ نغموں کی گونج شہر میں سنائی دی جانی چاہیے۔ ان کے مطابق یہ شہر آرک آف دی کوونیننٹ’ کی وجہ سے 7500 برس قبل بسایا گیا تھا۔

مسیحی مبلغ ایمسیل سیبوہ نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام وہ مذاہب جو عیسی کی پیدائش، ان کے سولی پر چڑھائے جانے، ان کے اس دنیا میں پھر سے زندہ واپس آنے اور بپتسمہ کی مقدس رسم کو نہیں مانتے وہ ایسی جگہ نہیں رہ سکتے جہاں آرک آف کووینینٹ موجود ہو۔ اگر کوئی اس کے خلاف جائے گا تو ہم جان کی بازی لگا دیں گے۔‘

مسجد

آکسم شہر 7500 برس قبل آباد ہوا تھا

اس شہر کی انتظامیہ نے اس حوالے سے موقف دینے سے انکار کیا۔ اپنے جواب میں ان کا صرف اتنا کہنا تھا کہ دونوں مذاہب کے لوگ پرامن طور پر اکھٹے رہ رہے ہیں۔

کافی لوگوں کو امید ہے کہ شہنشاہ ہیلی سیلاسی کی طرح موجودہ وزیر اعظم ابیی احمد، جن کی اپنی والدہ مسیحی تھیں، بھی کوئی اس مفاہمانہ ڈیل کریں گے جس کے باعث آکسم کی امن گاہ ہونے کی وجہ شہرت قائم رہ سکے۔

تاہم مسلمان اپنے مطالبے کے حق میں ڈٹے کھڑے رہنے پر بضد ہیں۔

اس حوالے سے علاقے کے مسلمان رہنماؤں پر مشتمل بنائی گئی کمیٹی کا ارادہ ہے کہ وہ مسیحیوں کو آکسم میں مسجد کی تعمیر پر آمادہ کرنے کے لیے ان سے گفت وشنید کریں گے۔

اس کمیٹی کے رکن محمد خاسے کا کہنا ہے کہ ’مسلمان اور مسیحیوں کو اس پر متفق ہونا ہو گا اور ضرورت اس امر کی ہے کہ مسجد کی تعمیر میں مسیحی ہماری مدد کریں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp