بلوچستان میں پولیس پر حملہ: ایک اہلکار، تین حملہ آور ہلاک


لورالائی حملہ

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع لورالائی میں عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں کم از کم تین حملہ آور، ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ بدھ کو تین خود کش حملہ آوروں نے کیا۔

لورالائی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ حملہ صبح آٹھ بجے پولیس لائن پر کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ پہلے حملہ آور نے خود کو پولیس لائن کے مرکزی دروازے پر اڑا لیا جس کے بعد دو خود کش حملہ آور پولیس لائن کے اندر داخل ہوئے۔

حکام کے مطابق دوسرے خود کش حملہ آور نے خود کو پولیس لائن کے اندر اڑا لیا جبکہ تیسرا حملہ آور سیکورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔

پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق کمپاؤنڈ کو کلیئر کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

لورالائی میں چھاؤنی پر حملہ، حملہ آوروں سمیت آٹھ ہلاک

لورالائی میں ڈی آئی جی کے دفتر پر حملہ، نو ہلاک

لورالائی: ایک ماہ میں چار حملے کیوں؟

حکومتِ بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے بتایا کہ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا جبکہ دو اہلکار زخمی ہوئے۔

بعض دیگر اطلاعات کے مطابق زخمیوں کی تعداد پانچ ہے۔

ترجمان حکومت بلوچستان کے مطابق ’پولیس اہلکاروں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حملے کو ناکام بنا کر ایک پروفیشنل اور باصلاحیت فورس ہونے کا ثبوت دیا۔’

انھوں نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اس واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔

واقعے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔

زخمی اہلکار

حملے میں زخمی ہونے والے ایک پولیس اہلکار کو مقامی ہسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے

لورالائی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شمال مشرق میں اندازاً 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

مختلف پشتون قبائل کی آبادی پر مشتمل اس ضلع کی سرحدیں شمال میں ژوب اور قلعہ سیف اللہ سے ملتی ہیں۔ ژوب اور قلعہ سیف اللہ کے افغانستان سے متصل ہونے کے ساتھ ساتھ ژوب کی سرحد صوبہ خیر پختونخوا میں جنوبی وزیرستان سے بھی ملتی ہے۔


لورالائی مسلسل حملہ آوروں کے نشانے پر کیوں؟

تجزیہ، خدائے نور ناصر، بی بی سی

لورالائی کوئٹہ سے لگ بھگ 200 کلومیٹر پر واقع پشتونوں کا شہر ہے جہاں مختلف قبائل آباد ہیں۔ سنہ 2012 اور 2013 میں جب بلوچستان کے پشتون علاقوں میں اغوا اور دہشت گردی کے بعض واقعات رونما ہوئے تو یہ اطلاعات تھیں کہ لورالائی کے جنوب مشرق میں ضلع ژوب کے تحصیل مرغہ کبزئی اور شمال مغرب میں ضلع زیارت کی تحصیل سنجاوی کے بعض علاقوں میں مسلح طالبان سرگرم ہیں۔

بعد میں سکیورٹی فورسز نے انہی اور آس پاس کے علاقوں میں متعدد آپریشنز کیے، جن میں دہشت گردوں کو مارنے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔

اُس وقت بھی یہ اطلاعات تھیں کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کی وجہ سے دہشت گرد بلوچستان کے پشتون علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔

لورالائی میں بعض حکومتی ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کے ‘سلیپر سیلز’ عرصہ دراز سے موجود تھے لیکن سرگرم نہیں تھے تاہم اب اُن کے اچانک متحرک ہونے کے سوال کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔


لورالائی میں رواں سال سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے

  • 01 جنوری 2019: فرنٹیئر کور کے تربیتی مرکز پر حملے میں 4 اہلکار اور 4 حملہ آور ہلاک
  • 11 جنوری 2019: سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ، 2 اہلکار زخمی
  • 29 جنوری 2019: ڈی آئی جی پولیس لورالائی رینج کے دفتر پر حملے میں 8 اہلکار، ایک سویلین، 3 حملہ آور ہلاک
  • 16 فروری 2019: فائرنگ کے واقعے میں 2 ایف سی اہلکار ہلاک
  • 26 جون 2019: پولیس لائن پر حملے میں ایک اہلکار، 3 حملہ آور ہلاک

ان تینوں اضلاع میں پہلے بھی شدت پسندی کے وقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم رواں سال لورالائی شہر میں ایسے واقعات میں ماضی کے مقابلے میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

لورالائی میں رواں سال عسکریت پسندی کے دیگر واقعات کے ساتھ ساتھ ایف سی کے تربیتی مرکز اور ڈی آئی جی پولیس لورالائی رینج کے دفتر پر بھی خود کش حملے ہوئے تھے۔

رواں سال ان واقعات میں مجموعی طور پر 15 سے زائد سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ لورالائی میں سیکورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں چار مبینہ حملہ آور بھی ہلاک ہوئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp