رضیہ محسود: ’میرے کام کی اہمیت کا اندازہ ہوا تو مخالفت کم ہوتی گئی‘


رضیہ محسود

Kamran Atlas
رضیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے صحافت کا آغاز اپنے علاقے کے مسائل کو منظرِعام پر لانے کے لیے کیا

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں حال ہی میں شامل ہونے والے قبائلی اضلاع وہ علاقے ہیں جنھیں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔

ماضی میں یہاں متعدد صحافیوں کو فرائض کی ادائیگی کے دوران جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ ان علاقوں میں کسی بھی صحافی کے لیے خدمات انجام دینا آسان نہیں سمجھا جاتا اور اگر صحافی کوئی خاتون ہو تو مسائل کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

تاہم جنوبی وزیرستان کی پہلی خاتون سٹیزن جرنلسٹ رضیہ محسود نے ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔

ایک تعلیم یافتہ خاندان میں آنکھ کھولنے والی رضیہ محسود کا آبائی علاقہ جنوبی وزیرستان ہی ہے۔ ان کے والد خانزادہ محسود ایک ماہرِ تعلیم ہیں اور میران شاہ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ رضیہ نے خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رضیہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے صحافت کا آغاز اپنے علاقے کے مسائل کو منظرِعام پر لانے کے لیے کیا۔

یہ بھی پڑھیں

’پہلے خواتین نے ووٹ ڈالا اب ایک قدم آگے جانا چاہتی ہوں‘

’فاٹا کی خواتین کو برابری کی سطح پر نمائندگی دی جائے‘

’طالبان سے بھی ڈر لگتا تھا اور فوج سے بھی‘

ان کے مطابق انھیں وزیرستان میں تعلیم اور صحت جیسے مسائل کو اجاگر کرنے پر بااثر افراد کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں تاہم وہ اس راہ میں درپیش خطرات سے پہلے ہی سے بخوبی آگاہ تھیں اس لیے خطرے کے باوجود انھوں نے اپنا کام جاری رکھا۔

ان کے مطابق ’میں اپنے روایتی کلچر کو اچھی طرح سمجھتی ہوں اور اس کی مکمل طور پر پابند بھی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اخلاص سے کام شروع کیا اور لوگوں نے دیکھا کہ میں روایتی کلچر پر مکمل عمل درآمد کرتی ہوں تو ان کے اندر میرے لیے قبولیت بڑھتی گئی تھی۔‘

رضیہ کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو میرے کام کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور ان کو فائدہ پہنچا تو آہستہ آہستہ میری مخالفت کم ہوتی گئی۔ اب بھی مخالفت ہوتی ہے مگر یہ عام لوگوں کی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ ’ملک‘ لوگ کرتے ہیں کیونکہ میرے کام کی بدولت زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ تبدیلی کے آثار پیدا ہونا شروع ہو چکے ہیں۔‘

’آغاز میں قبول نہیں کیا گیا مگر اب حالات ٹھیک ہیں‘

رضیہ محسود کے مطابق وہ صحافت کے میدان میں آنے سے قبل ہی سماجی خدمات کے شعبے سے منسلک رہی ہیں۔

’جب شروع کیا تھا تو یہ انتہائی مشکل تھا۔ شروع میں تو میری ساس بھی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ وہ مجھے کہا کرتی تھیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ ہماری بہو کیا کر رہی ہے، لوگوں سے ملتی ہے۔ قبیلے، قوم، علاقے کے لوگ باتیں بناتے تھے مگر اس موقع پر میرے خاوند نے میرا حوصلہ بڑھایا اور پوری طرح میرا ساتھ دیا، بلکہ ان ہی کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے خدمات کا آغاز کر سکی۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میری ساس جو پہلے مخالفت کرتی تھیں جب ان تک میری تعریفیں پہنچیں اور لوگوں نے انھیں بتایا کہ میری وجہ سے ان کے مسائل کچھ کم ہوئے ہیں تو اب وہ میری مدد کرتی ہیں بلکہ ہم دونوں میاں بیوی کو سراہتی بھی ہیں۔‘

رضیہ نے یہ بھی بتایا کہ ’تین، چار سال پہلے جب میں وزیرستان جاتی تھی تو طنزیہ باتیں اور چھبتی نظریں دیکھنے کو ملتی تھیں مگر اب ان ہی نظروں میں میرے لیے احترام ہوتا ہے اور لوگ میری مدد کرتے ہیں بلکہ راہ بھی ہموار کرتے ہیں جو کہ میری بہت بڑی کامیابی ہے۔‘

اپنے لوگوں کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے صحافت شروع کی

رضیہ کے مطابق 2011 میں شادی کے بعد انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کے شوہر بھی ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

’شادی کے بعد ہی اکثر ہماری بات چیت ہوتی رہتی تھی جس میں، میں اس خواہش کا اظہار کرتی تھی کہ مجھے دنیا میں کچھ کرنا ہے۔ کچھ ایسا کرنا ہے جس سے وزیرستان اور وزیرستان کے لوگوں کو فائدہ ہو سکے۔ اس پر کامران بھی میرا ساتھ دیتے تھے۔

’تعلیم مکمل کرنے اور بچوں کے کچھ بڑے ہونے کے بعد جب وزیرستان میں آپریشن ختم ہوا اور لوگوں نے واپس اپنے علاقوں میں جانا شروع کیا تو کامران ہی نے مجھے سماجی خدمات میں صحت کے شعبے سے روشناس کروایا۔‘

رضیہ کا کہنا ہے کہ وہ بھی ان افراد میں شامل تھیں جو طویل عرصے کے بعد 2016 میں اپنے علاقے میں واپس گئیں اور وہاں جا کر انھیں اندازہ ہوا کہ لوگوں کے لیے نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی علاج اور تعلیم کی سہولیات میسر تھیں۔

رضیہ کے مطابق وزیرستان میں انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے علاج معالجے کی مناسب سہولتیں دستیاب ہونے کی وجہ سے خواتین اور بچوں کو موت کے منھ میں جاتے دیکھا۔

’ایسے واقعات اور حالات کو دیکھ کر دل بہت کڑھتا تھا مگر ان مسائل پر کوئی بھی بات نہیں کرتا تھا جیسے یہ مسائل ہی نہ ہوں۔ اسی دوران مجھے کامران کی وساطت سے سٹیزن جرنلسٹس کی ایک تربیتی ورکشاپ میں حصہ لینے کا موقع ملا تو اس موقع کو غنیمت جان کر اور ضروری تربیت حاصل کرنے کے میں نے عملاً کام شروع کر دیا تاکہ میرے اپنے لوگوں کے مسائل کی نشاندہی ہو سکے۔‘

رضیہ کے شوہر کامران اطلس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اہلیہ سماجی خدمات اور صحافت کے لیے انتھک کام کرتی ہیں۔

’وزیرستان کے کئی علاقوں میں بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں اور انھیں اکثر پیدل سفر کرنا پڑتا ہے مگر پھر بھی یہ تھکتی نہیں ہیں۔ یہ اپنے لوگوں کے لیے محنت کر رہی ہیں جس پر مجھے فخر ہے۔‘

’وزیرستان میں گھوسٹ اساتذہ‘

رضیہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیرستان میں لڑکیوں کے سکولوں میں ’گھوسٹ اساتذہ‘ یا خواتین اساتذہ کی عدم موجودگی پر بھی آواز اٹھائی اور یہ بات سامنے لائیں کہ ان اساتذہ کی اکثریت گھروں میں بیٹھ کر تنخواہ لے رہی ہیں۔

’چند ہفتے قبل میں گرلز مڈل سکول سراوغہ گئی تو دیکھا کہ عمارت بھی موجود ہے اور طالبات بھی مگر وہاں پر کوئی بھی خاتون استاد موجود نہیں تھی۔ وہاں پر موجود طالبات سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار حاضری لگانے کے لیے کوئی استانی آجاتی ہے ورنہ یہاں پر پڑھائی نہیں ہوتی۔‘

’جن کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں وہ اپنے فرائض پورے نہیں کررہی تھیں اور انھیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں تھا بلکہ الٹی ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔‘

رضیہ محسود کے مطابق اس خبر کی اشاعت کے بعد مقامی طور پر انھیں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

’جس ’ملک‘ کے علاقے میں وہ سکول تھا انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی بیٹیاں پڑھ لکھ کر پروفیسر اور ڈاکٹر بن چکی ہیں لیکن اس سوال پر کہ اپنی بیٹیوں کو پڑھانے بعد وہ وزیرستان کی بیٹیوں کو کیوں تعلیم سے دور رکھ رہے ہیں، وہ ہتھے سے اکھڑ گئے اور مجھے اپنے تعلقات کا حوالہ دینے لگے۔‘

رضیہ کے مطابق انھیں ان کے کام سے باز رکھنے لیے رقم کی پیشکش بھی کی جاتی رہی لیکن ان کی صحافت کا محور وزیرستان کے لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے جس کے لیے وہ کام کرتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp