تیونس کی حکومت نے سرکاری عمارتوں میں نقاب پہننے پر پابندی عائد کر دی


نقاب

تیونس کے وزیر اعظم يوسف الشاهد نے حفاظتی انتظامات کے پیشِ نظر سرکاری دفاتر میں نقاب پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ احکامات ملک کے دارالحکومت تیونس میں ایک ہفتے میں ہونے والے تین خودکش دھماکوں کے بعد جاری ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ یہ پابندی عارضی ہو گی۔

طویل عرصے تک تیونس پر حکمرانی کرنے والے زین العابدین بن علی نے بھی سرکاری عمارتوں میں حجاب پر پابندی لگائی تھی تاہم سنہ 2011 میں ان کی حکومت گرنے کے بعد اس پابندی کو ختم کر دیا گیا تھا۔ جمعہ کو يوسف الشاهد کے دفتر سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ ‘حفاظتی وجوہات کی بنا پرانتظامیہ اور اداروں (کے دفاتر) میں چہرا ڈھانپنے پر پابندی ہے۔’

انسانی حقوق کی تنظیم ‘دی لیگ آف دی ڈیفینس آف ہیومن رائٹس’ کے کارکن جمیل مُصلم نے حکومت سے کہا کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ پابندی عارضی ہو۔ جمیل مُصلم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘ہم اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کے حق کے ساتھ ہیں، لیکن آج کی صورتحال اور تیونس اور خطے میں پھیلے دہشتگردی کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس فیصلے کے جواز ملتے ہیں۔’ انھوں نے حکومت سے کہا کہ سکیورٹی حالات نارمل ہوتے ہی اس پابندی کو ختم کر دیا جائے۔

نقاب

اس سے پہلے ایسی پابندی کن ملکوں میں لگ چکی ہے؟

سری لنکا میں اپریل 2019 میں ایسٹر سنڈے کو ہونے والے خودکش حملوں کے بعد عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ فرانس پہلا یورپی ملک ہے جہاں سنہ 2011 میں برقعے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ چیلنج کیے جانے کے باوجود اس پابندی کو انسانی حقوق کے یورپی کورٹ نے جولائی سنہ 2014 میں برقرار رکھا۔ ڈنمارک میں جب اگست سنہ 2018 میں برقعے پر پابندی عائد کی گئی تو اس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ وہاں کے قانون کے مطابق جو کوئی بھی ایسا لباس پہنتا ہے جس سے پورا چہرہ چھپ جائے تو اسے ایک ہزار کرونے یعنی 110 ڈالر سے زیادہ (116) کا جرمانہ ہو گا اور اگر دوبارہ ایسا کیا گیا تو جرمانہ دس گنا زیادہ ہو گا۔

نیدرلینڈ کی پارلیمان نے جون سنہ 2018 میں عوامی مقامات جیسے سکول، ہسپتال اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ایسے لباس پہننے پر پابندی عائد کر دی جو پوری طرح سے چہرے کو ڈھانپ دے۔ اگر آپ سڑک پر ہیں تو اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جرمنی میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے نقاب غیر قانونی ہے۔ جرمنی کے ایوان زیریں نے ججوں، سرکاری ملازمین اور فوجیوں کے لیے جزوی پابندی کی منظوری دے رکھی ہے۔ جو خواتین نقاب کرتی ہیں انھیں بھی شناخت کے لیے اپنے چہرے سے نقاب ہٹانا ضروری ہے۔ آسٹریا میں سکول اور عدالت میں برقعے پر پابندی اکتوبر سنہ 2017 میں عائد کی گئی تھی۔

برقع نقاب
برقع پر پابندی کے خلاف ڈنمارک میں ہونے والا مظاہرہ

بیلجیئم میں برقعے پر جولائی سنہ 2011 میں پابندی عائد کرنے کا قانون منظور ہوا۔ اس کے تحت پارک اور سڑک جیسے عوامی مقامات پر ایسے ہر لباس پر پابندی عائد کی گئی جس سے پہننے والے کی شناخت میں دشواری ہو۔ ناروے میں جون سنہ 2018 میں ایک بل منظور ہوا جس کے تحت تعلیمی ادارے میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بلغاریہ کی پارلیمان نے سنہ 2016 میں ایک بل منظور کیا جس کے تحت ان خواتین پر جرمانے اور سرکاری فوائد سے محروم کیے جانے کی بات کہی گئی جو عوامی مقامات پر برقعہ پہنیں۔ لگزمبرگ میں بھی ہسپتال، عدالت، اور سرکاری عمارتوں میں برقعے پر پابندی ہے۔ بعض یورپی ممالک میں مخصوص شہروں اور علاقوں میں پابندی عائد ہے۔

اٹلی بھی اس میں شامل ہے جہاں بہت سے شہروں میں نقاب یا برقعے پر پابندی عائد ہے۔ ان شہروں میں نوارا بھی شامل ہے جہاں پابندی سنہ 2010 میں عائد کی گئی تھی۔ سپین کے شہر بارسلونا میں مخصوص مقامات میں برقعے پر سنہ 2010 میں پابندی لگائی گئی تھی اور کوئی میونسپل دفاتر، سرکاری بازار اور لائبریریوں میں برقعہ نہیں پہن سکتا۔ سوئٹزرلینڈ کے بعض علاقوں میں بھی برقعے پر پابندی ہے۔

برقع
جرمنی کے ایوان زیریں نے ججوں، سرکاری ملازمین اور فوجیوں کے لیے جزوی پابندی کی منظوری دے رکھی ہے۔

چاڈ، گبون اور کیمرون کے شمالی علاقوں، نائجر کے ڈیفا علاقے اور کانگو جمہوریہ میں برقعے پر سنہ 2015 کے حملوں کے بعد پابندی عائد کی گئی تھی۔ ان حملوں میں چند برقعہ پوش خواتین نے علاقے میں کئی جگہ خودکش حملے کیے تھے۔ الجزائر میں سرکاری ملازمین پر برقعہ پہننے پر اکتوبر سنہ 2018 سے پابندی ‏عائد ہے۔ چین کے سنکیانگ علاقے میں عوامی مقامات پر برقعہ یا نقاب پہننا یا غیر معمولی طور پر لمبی ڈاڑھی رکھنے پر پابندی ہے۔ سنکیانگ اوغیر مسلمانوں کا آبائی علاقہ ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ وہاں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp