تاریخ کی آخری کتاب


باب دوئم: محمود غزنوی کے سترہ سفر

محمود غزنوی نامی ایک خاندانی ترک غلام وہ پہلا شخص تھا جس نے سلطان کا لقب اختیار کیا۔ وہ علم و ادب کا قدردان تھا۔ ایک طرف تو اس نے فردوسی سے شاہنامہ لکھوا کر عالمی ادب میں ایک گرانقدر اضافہ کیا اور بیکار پڑے ایرانی پہلوانوں اور اژدھوں وغیرہ کو زندہ جاوید کر دیا اور دوسری طرف اپنے پلے سے کثیر پیسہ خرچ کر کے اپنے درباری عالم البیرونی کو سنسکرت سکھانے کے لیے سترہ بار ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کیا۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں ہندوستانی جنگلوں میں موجود تمام طوطے مینا اور دیگر جنگلی جانور بھی سنسکرت میں ہی بات کرتے تھے۔ اس بات کی گواہی اس دور کی مشہور کتاب پنچ تنتر سے ملتی ہے جو ان ہی بولنے والے جانوروں کی سچی کہانیاں بیان کرتی ہے۔

محمود اور البیرونی نے تحصیل علم کی خاطر ہندوستان میں مختلف جنگلوں کا سترہ مرتبہ دورہ کیا۔ وہاں قسم قسم کے جانور دیکھ کر وہ حیران ہوئے اور ان کی باکمال تعمیرات دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک اعلی درجے کا گھونسلہ ان جنگلوں میں پایا جاتا تھا۔ بلکہ محمود نے تو کئی جانوروں کے طرز تعمیر کا راز جاننے کی خاطر ان کے بنائے ہوئے پتھر کے گھونسلوں توڑا تو ان کے اندر سے اسے سفر خرچ کے لیے کافی سونا چاندی وغیرہ مل گیا جسے وہ اٹھا کر غزنی لے گیا تاکہ وہاں سکون سے بیٹھ کر اس پر خوب علمی تحقیق کر سکے۔

ان گھونسلوں میں بیٹھے ہوئے طوطوں اور کبوتروں وغیرہ نے البیرونی کو ودیا ساگر کا خطاب دے کر رخصت کیا۔ محمود اور البیرونی واپسی پر کافی حیران ہوتے رہے کہ اس وسیع و عریض علاقے میں انسان کیوں نہیں رہتے ہیں۔

ملتان کی فتح پر ان کا شکوہ دور ہوا۔ وہاں ابن قاسم کے کچھ لشکریوں کی اولاد اسے مل گئی۔ اور ان پر حکمران قرامطی نسل کے صحرائی بن مانس بھی اسے ملے جنہیں وحشی دیکھ کر اس نے مار دیا۔

محمود غزنوی کی اولاد وہ پہلی انسانی نسل تھی جو برصغیر میں لاہور کے مقام پر رہائش پذیر ہوئی۔

باب سوئم: شہاب الدین غوری اور سلاطین دہلی

شہاب الدین ایک مشہور بادشاہ ہے جو غور میں رہنے کے سبب غوری کہلایا۔ اس لقب کا غور و فکر سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ایسا کوئی کام درہ خیبر سے آنے والے حملہ آوروں نے کبھی نہیں کیا جس میں دماغ کا استعمال کیا جاتا ہو۔ دماغ وغیرہ صرف یہود و ہنود استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ ہمارے خلاف سازشیں کر سکیں اور طرح طرح کی ایجادات کر کے ہمیں ان کا محتاج بنا دیں۔ بہرحال واپس تاریخ پر چلتے ہیں۔ محمود غزنوی کے کوئی دو سو سال بعد شہاب الدین غوری کا ارادہ ہوا کہ وہ ایک سرکس بنا کر سینٹرل ایشیا کے دورے پر نکلے تاکہ چار پیسے بنیں۔ اس مقصد کی خاطر اس نے سرکس کے لیے جانور حاصل کرنے کے لیے برصغیر پر حملہ کر دیا۔

ان دو سو سال میں لاہور میں رہنے والے غزنوی نسل کے انسان بھی غائب ہو چکے تھے اور پورا ہندوستان دوبارہ ایک جنگل بن چکا تھا۔ ہندوستان میں اسے ایک مرغوں کا قبیلہ ملا جس کا سردار پرتھوی راج رائے پتھورا نامی ایک اصیل نسل کا مرغا تھا۔ افغانوں کا کبھی اصیل مرغوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ مرغ مسلم سے ناواقف افغان قوم صرف انسانوں کی گردنیں کاٹ کر ان پر جلتا توا رکھ کر رقص بسمل ہی دیکھتی تھی۔ پرتھوی راج کے اصیل مرغوں نے غوریوں کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔

شہاب الدین غوری نے عہد کیا کہ جب تک وہ پرتھوی مرغوں سے بدلہ نہیں لے گا، وہ کپڑے نہیں بدلے گا۔ دو سال تک اس کی حالت ایسی ہو گئی کہ صورت حال اس کے شہر والوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی۔ غور والوں نے اسے زبردستی دوبارہ ہندوستان فتح کرنے بھیج دیا تاکہ غور کی آب و ہوا کچھ بہتر ہو جائے۔ اس بار قسمت غوری پر مسکرا رہی تھی۔ پرتھوی راج اس وقت تک سنجوگتا نامی ایک کبوتری کی وجہ سے قنوج کے کبوتروں کو دشمن بنا چکا تھا۔ انہوں نے غوری کی فضائی مدد کی اور پرتھوی راج ترائن کے جنگل میں مارا گیا۔

شہاب الدین غوری نے اپنے معتمد خاص قطب الدین ایبک کو دہلی کے تخت پر بٹھایا۔ اس طرح برصغیر میں نسل انسانی نے اپنے قدم مستقل طور پر جما دیے اور برصغیر کی باقاعدہ انسانی تاریخ کا آغاز ہوا۔
9 ستمبر 2015

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments