ایک عورت، تین بدمعاش، ایک مولوی اور پولیس


کتنی آسانی کے ساتھ ایک لڑکی یا عورت کی زندگی بدل جاتی ہے۔ اس کا اپنا آپ ختم ہوجاتا ہے، اس کے پلان بکھر جاتے ہیں، اس کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ وہ چاہتی کچھ اور ہے، اسے کرنا کچھ اور پڑتا ہے۔ وہ سمجھتی کیا ہے، اسے سمجھنا کچھ اور پڑتا ہے۔ ”میں سوچتا رہا تھا۔

”میرا کالج چھوٹ گیا، میرے ماں باپ بچھڑگئے، مجھ میں ہمت ہی نہیں رہی کہ میں دوبارہ اس گھر کے دروازے پر پیررکھتی۔ کئی دفعہ شاہد نے کہا بھی مگر میں سوچتی تھی کہ محلے والے کیا کہیں گے، کیا جواب دوں گی؟ ہر ایک یہی سمجھ رہا ہوگا کہ میں نے ہی ان لوگوں کو کہا ہوگا۔ میں نے ہی شاہد کو اپنے اوپر دیوانہ کرلیا ہوگا۔ نجانے کتنے منہ کتنی باتیں۔ بہت سالوں کے بعد پتا لگا کہ میرے ابا، میرے نکاح نما اغوا کے بعد زیادہ دن زندہ نہیں رہے۔ میری دونوں چھوٹی بہنوں کی شادیاں دسویں کلاس میں پہنچنے سے پہلے ہی ہوگئی تھیں۔ اس محلے میں کوئی بھی نہیں رہا نہ مکان نہ مکین، نہ دکان نہ دکاندار۔

شروع میں شاہد سے مجھے نفرت تھی، شدید نفرت۔ لیکن یہ نفرت یکایک محبت میں بدل گئی۔ شاہد نے مجھے کالج آتے جاتے دیکھا اور میرے علم کے بغیر ہی میری محبت میں گرفتار ہوگیا۔ نہ اس نے مجھ سے بات کی اور نہ ہی میں نے اسے دیکھا۔ اس نے میرے ابا سے پوچھوایا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر ان کے منع کرنے کے بعد اس کے بقول اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مجھے اغوا کرلیتا۔

ہم لوگ جس جگہ رہتے ہیں وہاں پر ہر ایک، ایک ہی زبان بولتا ہے۔ وہاں پر ہی یہ فیصلہ ہوا کہ مجھ سے زبردستی نکاح کرکے مجھے یہاں لے آیا جائے۔ شاہد نے ایک دن بہت پیار سے مجھے سمجھایا۔ اگر میں یہ نہیں کرتا تو کیا کرتا؟ تمہارے ابو راضی نہیں تھے اور میں یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ میرے علاوہ کوئی تمہیں ہاتھ لگائے، تمہیں دیکھے، تمہیں چومے، تمہارا رشتہ آئے پھر تم دلہن بنو اور کوئی تمہیں اپنے ساتھ ہمیشہ کے لیے لے جائے۔

تمہیں تومیں نے اپنی نس نس میں، انگ انگ میں رچابسالیا تھا۔ میرے خوابوں میں تم تھیں اور تمہارے بغیر مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ میں مجبور ہوگیا تھا اپنے دل کے ہاتھوں۔ وہ میرے سامنے آنسوؤں سے رو دیا۔ مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگریہ مجھ سے نکاح نہیں بھی کرتے تو میں کیا کرلیتی۔ اس نے مجھے عزت تو دی تھی۔ پیار توکیا تھا۔ شاہد نے ہی کہاک تھا کہ تمہاری کسی اور سے شادی کے بعد بھی تم کو اغوا کرسکتے تھے مگر اس میں زیادہ مسائل تھے۔ ابھی تو صرف تمہارے ابو تھے، اس وقت دوسرا خاندان بھی آجاتا۔ مناسب یہی سمجھا گیا کہ تم سے نکاح کرلیا جائے۔ ”

یہ کہہ کر جمیلہ خاموش ہوگئی، میں نے پلی دفعہ دیکھا کہ اس کے سخت چہرے پر آہستہ آہستہ ایک نرمی سی آگئی تھی۔
میری نرس پانی کا گلاس اور چائے کے دو مگ لے کر آگئی۔ میں نے کہا، ”جمیلہ! چائے پیاؤ۔ تمہاری زندگی کی کہانی توایسی ہے کہ سننے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ “

وہ دھیرے سے مسکرائی اور پھر بولی، ”چھ ہفتے کے بعد ہی پتا لگ گیا کہ مجھے بچہ ہونے والا ہے۔ میں نے غصے اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے شاہد کوبتایا کہ میں ماں بننے والی ہوں۔ اس کی دیوانگی کی حد تک خوشی کودیکھتے ہوئے نجانے کیوں مجھے اس پر پیار آگیا۔ پھر آہستہ سے میں نے حالات سے سمجھوتا کرلیا تھا۔

میں سات مہینے کے حمل سے تھی کہ شاہد غائب ہوگیا۔ دو دن کے بعد اس کی لاش ملی تھی، ریل کی پٹڑی کے ساتھ۔ کسی نے اس کے سر پر گولی مار کر اسے ہلاک کردیا تھا۔

یہ غم میرے لیے اتنا بڑا نہیں تھا جتنا میں پہلے سہہ چکی تھی۔ شاہد کے دوستوں نے میرا ساتھ دیا۔ گلی کی عورتیں، شاہد کے دوست سب نے میرا خیال کیا۔ کوئی نہ کوئی میرے ساتھ رہا۔ مجھے پیسے بھی ملتے رہے، گھر بھی چلتا رہا۔ وقت تو گزرتا ہی ہے اور گزر بھی گیا۔ نویں مہینے کے فوراً بعد گھر میں ہی پہلے بچے کی پیدائش ہوگئی تھی۔

ابھی بیٹے کی پیدائش کے دس دن ہی ہوئے تھے کہ شمشاد جو شاہد کا دوست تھا اس نے مجھ سے کہا کہ میں اس سے شادی کرلوں۔ مجھے شمشاد بالکل ہی پسند نہیں تھا مگرمیرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ اس دفعہ مجھے دلہن بھی بنایا گیا، مہندی بھی لگائی گئی اورنکاح کے بعد شمشاد میرا مالک بن گیا۔

شمشاد اور شاہد میں بڑا فرق تھا۔ شاہد اپنی بدمعاشی کے باوجود شریف آدمی تھا۔ شراب پیتا مگر میری عزت بھی کرتا اور اپنے مقصد میں ایمان دار بھی تھا۔ شمشاد ایک دوسرے قسم کا آدمی تھا۔ ایک خوف کا احساس ہوتا تھا اس کے ساتھ۔ کچھ کمی تھی اس میں یا کچھ اور تھا اس میں جو شاہد میں نہیں تھا۔ اپنے سرد رویے کے باوجود وہ بھی مجھے دیوانوں کی طرح چاہتا تھا جس کا احساس مجھے جلد ہی ہوگیا۔ شمشاد سے میری شادی کو دس مہینے بھی نہیں ہوئے تھے۔

ابھی میں اسے سمجھ نہیں پائی تھی، ابھی اس کی محبت اور چاؤ کا امتحان بھی نہیں لیا تھا میں نے کہ شمشاد کی لاش کے ٹکڑے بوری میں بندھے ہوئے ملے تھے۔ اس زمانے میں کراچی کا یہ عام واقعہ تھا۔ کٹی ہوئی لاشیں، جلے ہوئے بدن، لٹی ہوئی لڑکیاں ملتی ہی رہتی تھیں۔ مجھے اس کی موت سے نہ خوشی ہوئی اور نہ ہی افسوس۔ ایک احساس سا ہوا کہ شاید میں آزاد ہوگئی ہوں۔ شمشاد ایسا ہی آدمی تھا۔ سخت دل، سخت گیر جس نے کسی کی بھی عزت کرنا نہیں سیکھا تھا۔

مجھ سے محبت کے دعوؤں کے باوجود شاید میں اس کے لیے ایک بازی تھی۔ ایک جیتی ہوئی عورت تھی۔ وہ مجھ پر اس طرح سے ٹوٹ کر گرتا جیسے مجھے کہیں سے لوٹ کر لایا ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ شاہد کیوں شمشاد سے نفرت کرتا تھا لیکن شاید جس طرح کے کام یہ لوگ کرتے تھے اس میں رازداری اور اس قسم کی دوستی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

جس دن مجھے بتایا گیا کہ شمشاد کو سزا کے طور پر قتل کیا گیا ہے کیوں کہ اس نے محض مجھ سے شادی کرنے کے لیے شاہد کو قتل کیا تھا، اسی دن مجھے یہ بھی پتا لگا کہ میں ایک دفعہ پھر حاملہ ہوچکی ہوں۔ شمشاد میرے ہونے والے بچے کا باپ ہے۔

میری زندگی بھی کیا تماشا تھی۔ میں اسی دن دل بھر کے شاہد کے لیے روئی۔ شاہد کے ایک اور دوست جاوید نے مجھ سب کچھ بتایا۔ اسی نے بتایا کہ میرے نکاح نما اغوا سے پہلے شاہد اور شمشاد میں میرے اوپر جھگڑا بھی ہوا تھا۔ وہ دونوں ہی میرے عاشق تھے مگر آخری فیصلہ شاہد کے حق میں کیا گیا اور شمشاد کوکہہ دیا گیا تھا کہ وہ میرے چکر میں نہ پڑے۔ میں شاہد کو الاٹ کردی گئی تھی کسی خالی پلاٹ کی طرح، کسی اپارٹمنٹ فلیٹ کی طرح۔

پلاٹ، اپارٹمنٹ، فلیٹ سے کون پوچھتا ہے، صرف الاٹمنٹ کا پروانہ چاہیے ہوتا ہے قبضہ کرنے کے لیے۔ شاہد کے قتل کو بھی سمجھا گیا کہ وہ پولیس کے ہاتھوں مارا گیا ہے مگر بعد میں پتا چل گیا کہ شمشاد اور نظیر نے مل کر شاہد کوماردیا تھا تاکہ شمشاد بعد میں مجھ سے شادی کرسکے۔ نظیر نے یہ باتیں بتائی تھیں جس کے بعد شمشاد کا بھی صفایا کردیا گیا اورنظیر کو زندگی بخش دی گئی تھی، سچ بولنے پر۔

میں نے سوچا کہ نجانے میں کن لوگوں میں پھنس گئی ہوں۔ یہ کراچی کے اندر ایک اور کراچی ہے۔ اس پاکستان میں کسی اور پاکستان کے قانون چل رہے ہیں۔ زندگی اتنی حقیر ہوگی، کس نے سوچا تھا۔ شہر کے اندر بھی جنگل کے قانون ہوں گے، انسانوں کے لیے بھی وہ دستور ہوں گے جو جنگل کے دستور ہیں اور دہشت کے قانون ہیں۔ یہ کیسا شہر ہے؟ یہ شہر شہر نہیں ہے، یہ بھی ملتان مظفر گڑھ ہے، کوٹ ادّو ہے۔ جہاں عورتوں کے ننگے جلوس نکالے جاتے ہیں، جہاں جاگیردار کے قانون کے تحت غریب کی بیوی بیٹی کوننگا کر کے بازار میں گھمایا جاتا ہے، یہ لاڑکانہ ہے، خیرپور ہے، جیکب آباد ہے جہاں لڑکیوں کو قتل کردیا جاتا ہے، عزت کے نام پہ، غیرت کے اصولوں کے تحت۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4