ایک عورت، تین بدمعاش، ایک مولوی اور پولیس


جمیلہ کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور چلا گیا۔ میری سمجھ میں اب آگیا تھا کہ آخر وہ کیوں فلسفیانہ باتیں کرتی ہے۔ زندگی کی یونی ورسٹی میں اس نے کم عمری میں ہی بے شمار ماسٹرز اور پی ایچ ڈیز کرلی تھیں۔ وہ جن تجربات سے گزری تھی ان کے بعد انسان بالکل پاگل ہوجاتا ہے یا پھر فلاسفر۔ میں اس کی باتیں بہت توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا۔

”رفیق، میرا بیٹا میری بات سمجھ گیا۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں یہ سمجھانا مشکل ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کیوں مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں، زندگی اتنی دکھ بھری کیوں ہوگئی ہے؟ پولیس والوں نے بند کمرے میں میرے ساتھ کیا کیا؟ مجھے بلدیہ کیوں آنا پڑا؟ جاوید کہاں ہے؟ اگرزندہ ہے تو ہمارے درمیان کیوں نہیں؟ اگر مرگیا ہے تو کیوں مرا؟ میں نے دیکھا، اس کا چہرہ سرخ ہوگیا، اس کا جسم کپکپارہا تھا۔ میں نے اسے اپنے قریب کرکے گلے لگالیا۔ بیٹے سب اچھا ہوجائے گا، ہم سب مل کر اچھا کریں گے۔ ہم دونوں بہت دیر تک ایک دوسرے کو تکتے رہے۔

مولوی صاحب کومیرا انکار اچھا نہیں لگا۔ بہت جلد میرے بارے میں عجیب عجیب باتیں شروع ہوگئی تھیں۔ مولوی صاحب نے ہی پھیلانی شروع کی تھیں۔ بیوہ کا اس طرح رہنا تو صحیح نہیں ہے۔ اس کے چال چلن کا کیا بھروسا، اس کے پاس تو لوگ آتے ہیں، پھر عورت ہے چھ گنا زیادہ شہوت ہوتی ہے ان میں۔ مرد تو قابو کرلیتا ہے عورت قابو نہیں کرسکتی۔ اگر ایسے رہے گی تو محلے میں بھی گناہ پھیلائے گی وغیرہ وغیرہ اور جانے کہاں کہاں کی بے کار بے کار باتیں شروع کردی تھیں اس منہوس نے۔ ہر تھوڑے دنوں کے بعد محلے کی کوئی عورت کسی نہ کسی بہانے سے کوئی قصہ لے کر چلی آتی تھی سنانے کے لیے۔ میں سنتی اور خاموش رہتی اور سوچتی کہ اب شاید یہ محلہ بھی چھوڑنا پڑے گا۔

شاید باتیں اوربھی پھیلتیں شاید مسئلہ اور بھی بڑھتا مگر رفیق نے کمال ہی کردیا۔ ایک دن مغرب کی نماز کے بعد وہ مسجد میں گھس گیا اورسارے نمازیوں کے سامنے باآواز بلند اس نے مولوی صاحب سے کہا، مولوی میری ماں پر نظر نہ رکھنا۔ وہ تجھ سے شادی نہیں کرے گی۔ میں تیرے پیٹ میں چاقو گھسیڑ دوں گا، تیرے منہ پہ تیزاب ڈال دوں گا، تیری داڑھی جل جائے گی، تیری آنکھیں بہہ جائیں گی۔ میری ماں ہے وہ، بکاؤ مال نہیں ہے۔ آئندہ کبھی میری ماں کو بری نظر سے نہ دیکھنا، کبھی اس کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات نہ کرنا۔ مجھے اس نے بتایا تھا کہ نمازیوں کو سانپ سونگھ گیا۔ مولوی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے؟ وہ صرف تکتا ہی رہا تھا اورمیرا رفیق مسجد سے سیدھا میرے پاس آگیا۔

دوسرے دن سے اس نے اسکول جانا چھوڑدیا۔ میرے بہت سمجھانے کے باوجود وہ نہیں مانا۔ اس نے کہا، ماں میں سبزی کی دکان کھولوں گا۔ دکان میں نے دیکھ لی ہے۔ میں کام کروں گا تو سب پڑھ لیں گے ماں۔ میں انکار نہیں کرسکی۔

بازار میں ایک دکان مل گئی۔ رفیق دوسرے دکان والوں کے ساتھ سبزی منڈی سے سبزیاں لے کر آتا ہے میں دکان کھول کر بیٹھتی ہوں۔ وہی پرانا کام لہسن چھیلنے کا ساتھ میں رفیق کی مدد کرتی ہوں۔

دکان چل نکلی ہے۔ مولوی کو ہمت پھر نہیں ہوسکی اور میرا بیٹا میرا سایہ بن کر میری حفاظت کررہا تھا۔ بہت سے لوگوں نے بری نگاہ ڈالی مگر ہمت کسی کی نہیں ہوسکی تھی۔ رفیق چھوٹا تھا مگر سب کو پتا تھا کہ اس نے مولوی کوسیدھا کردیا ہے۔

ایک دن اخباروں میں پولیس کے کسی چھاپے کی خبر تھی جس میں کئی لوگ مارے گئے تھے پولیس مقابلے میں۔ مرنے والوں کی تصویر میں جاوید کا چہرہ صاف پہچان میں آگیا تھا۔

میں اوررفیق دکان میں اخبار کی تصویر دیکھتے رہے نہ مجھ سے کچھ کہا گیا نہ وہ کچھ بولا۔ وہ خاموش بیٹھا رہا، میں خاموش روتی رہی۔ رفیق جاوید سے بہت ہل گیا تھا، بہت چاہتا تھا اسے۔ شام گئے تک ہم دونوں دکان میں بیٹھے رہے پھر اس نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ کہا تھا۔ ماں! تو اب بیوہ ہوگئی ہے، میں یتیم ہوگیا، کوئی نہیں ہے ہمارا۔ سب لٹ گیا۔ سب لٹ گیا۔ سب ختم ہوگیا مگر زندہ رہنا ہے ماں اسی دنیا میں انہی وحشیوں کے درمیان پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے، رک رک کر چلنا ہے مگر چلنا ہے۔ میں ہوں نا ماں۔ مجھے لگا وہ بڑا ہوگیا ہے بہت بڑا۔

دوسرے دن میں اور رفیق جاوید کی لاش لینے ایدھی کے سرد خانے گئے تھے مگر پولیس والوں کو دیکھ کر میں ایک بار پھر تھرتھراگئی۔ رفیق کا ہاتھ پکڑ کر بھاگ آئی وہاں سے۔ وہ ایک بے نام آدمی طرح ایک غیر بن کر ایدھی کے کارکنوں کے ہاتھ ایک بے نام قبرستان میں دفن ہوگیا ہوگا۔

گھر آکر نہ میں کچھ کھاسکی نہ رفیق نے کچھ کھایا۔ یہ سوگ ہم ماں بیٹا نے خاموشی سے ہی منایا۔ نہ جنازہ نہ نماز نہ قبر نہ تیجا نہ تیرہویں نہ چہلم۔ ایک بے نام آدمی ایک بے بس بیوی۔ چند لاچار یتیم اورایک بیوہ ماں، زندگی ایک طوفان کی طرح شروع ہوئی اور طوفان کی طرح ہی چل رہی ہے۔

رفیق اب بیس سال کا ہوگیا ہے۔ اس کی شادی کردی ہے میں نے۔ وہ باپ بننے والا ہے۔ بچے کالج اوراسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔
سبزی کی دکان اچھی چل رہی ہے۔ مولوی مسجد چھوڑ کر جاچکا ہے۔ پولیس والوں کو دیکھ کر ابھی بھی میں خوف سے کانپ جاتی ہوں۔ وہ رات ایک چیخ کی طرح میری ریڑھ کی ہڈی تک ٹیسلگاتی ہے۔

رفیق کی آمدنی سے سب کچھ اچھا ہی ہورہا ہے۔ بیٹے بھی پڑھ رہے ہیں۔ بیٹیاں بھی پڑھ رہی ہیں۔ میں اپنی ماں بننے والی بہو کو دیکھتی ہوں تو مجھے اپنا چہرہ نظر آتا ہے۔ مگر مجھ سے بھی صاف چہرہ اس کا، میری بیٹیوں کا، میرے گھر میں ہر ایک کا۔ میں نے ہر ایک کو بتایا ہے، ہر ایک سمجھتا ہے کہ تیزاب صرف عورتوں کے چہرے کونہیں جلاتا، ہر چہرہ یہاں تک کے مردوں کا چہرہ بھی جل جاتا ہے اس سے۔ ”
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی تھی مجھے لگا جیسے اس کی آنکھوں میں بھی تیزاب بھرا ہوا ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4