سراب کا مستقبل: تخلیق سگمنڈ فرائیڈ


ساتواں باب۔ سراب کا مستقبل

مذہبی عقائد کو سرا ب کہنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ؛
کیا انسانی تہذیب اور ثقافت کے بارے میں ہمارے دیگر نظریات بھی سراب نہیں ہیں؟
ہماری سیاسی اور رومانوی زندگیوں کی بنیاد جن نظریات پر ہے، کیا وہ بھی سراب نہیں ہیں؟

اور
کیا یہ نظریہ کہ ہم زندگی اور کائنات کی حقیقتوں کی تفہیم اور ادراک سائنس کے علم کے ذریعے کر سکتے ہیں، بذاتِ خود ایک سراب نہیں ہے؟

میرا خیال ہے کہ ہمیں ان سب اعتراضات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ ایسی سوچ مذہبی عقائد کو سراب ثابت کرنے میں ممد ثابت ہو۔ لیکن موجودہ مضمون میں، میں نے اپنی توجہ صرف مذہبی عقائد پر مرکوز کروں گا۔

میری گفتگو کے اس مرحلے میں مجھ پر بھی یہ اعتراض ہو سکتاہے کہ ”آثار قدیمہ کی کھدائی اور تحقیق کا عمل خوب سہی لیکن کوئی بھی محقق کسی ایسی کھدائی کے عمل میں شریک نہ ہوگا جس کے نتیجے میں قریبی شہر کے لوگون کا ان گہرائیوں میں گر کر مر جانے کا اور ان کھنڈرات کا ان کی قبریں بن جانے کا خطرہ ہو۔

ہم مذہبی عقائد کے بارے میں زندگی کے باقی نظریات کی طرح بحث نہیں کر سکتے۔ انسانی تہذیب اور ثقافت کی عمارت ان بنیادوں پر استوار ہے اور اس عمارت کا قیام اس بات پر منحصر ہے کہ عوام کی اکثریت ان عقائد پر ایمان لائے۔

اگر انسانوں کو یہ درس دیا گیا کہ نہ تو کوئی طاقتور اور منصف خدا اور نہ ہی کوئی روحانی دنیا موجود ہے اور نہ ہی موت کے بعد زندگی کی کوئی حقیقت ہے تو وہ تہذیب کی سب روایات، اقدار اور قوانین کو ماننے سے انکار کردیں گے۔ ہر شخص خودغرضانہ زندگی گزارنا شروع کردے گا۔ طاقت کا ناجائز استعمال ہوگا۔ ظلم اور جبر کا دور دورہ ہوگا۔ معاشرے میں بد امنی پھیل جائے گی اور انسانی تہذیب کے ارتقا کا ہزاروں سالوں کا کام نیست و نابود ہو جائے گا۔

اگر ہم پر یہ حقیقت آشکار ہو بھی جائے کہ مذہب کے دامن میں سچائیاں نہیں ہیں تب بھی ہمیں اس حقیقت کو عوام سے چھپا کر رکھنا چاہیے کیونکہ اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔ اگر ہم نے قوم سے ان کے عقائد چھین لئے تو بڑاظلم ہوگا۔ ان گنت لوگ اپنی بیساکھیوں کے سہارے زندگی گزارتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس نے آج تک کوئی بھی بڑے کارنامے سر انجام نہیں دیے اور اگر اس نے کارنامے سر انجام دیے بھی ہوتے، تب بھی وہ انسا ن کی ساری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ انسان کی بہت سی نفسیاتی اور جذباتی ضروریات کا سائنس کے پاس کوئی علاج نہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ ماہر نفسیات جو ساری عمر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ انسانی اعمال اور زندگی کے محرکات کا تعلق عقل سلیم سے کم اور جبلتوں اور خواہشات سے زیادہ ہے، آج انسانیت کو ان کی جبلی اور جذباتی خواہشات کی تسکین سے روک رہا ہے اور انہیں عقل کا ایسا درس دے رہا ہے جو انسانی تہذیب کی بقا کے لیے نہایت مضر ہے۔

اگرچہ اس اعتراض پر میرے موقف اور نقطہ نظر پر بہت سے حملے کیے گئے ہیں۔ لیکن میں ان کا جواب دینے کو تیار ہوں۔ میری نگاہ میں انسانی تہذیب اور ارتقاء کے لیے ان مذہبی عقائد پر ایمان لانا، نہ لانے سے زیادہ خطرناک ہے۔

جب میں نے اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کرتا ہوں تو مجھے اس حقیققت کا احساس ہوتاہے کہ مذہبی عقائد رکھنے والے شخص پر ان کا کوئی اثر نہ ہوگا اور وہ میرے خیالات کی وجہ سے اپنے ایمان کو خبر باد نہ کہے گا۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ میں نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جو مجھ سے پہلے اصحابِ فکرو نظر نے نہ کہی ہو۔ میں نے صرف ان کے دلائل اوراعتراضات کو نفسیاتی بنیادیں فراہم کی ہیں۔ کوئی مجھ سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ اگر میرے دلائل سے لوگوں کے ایمان میں فرق نہ آئے گا تو پھر مجھے اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے، میں ان سوال کے بعد میں جواب دوں گا۔

میری اس تحریر سے اگر کسی شخص کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو وہ خود میری اپنی ذات ہے۔ لوگ مجھ پر تنگ نظری، سطحی پن اور انسانیت کی اعلی اقدار کی مخالفت کرنے کے اعتراضات کر سکتے ہیں، لیکن میرے لیے ایسے اعتراضات کوئی نئی بات نہیں۔ مجھ جیسا شخص جس نے جوانی میں ہی اپنے عصروں کی تنقید اور توصیف سے بے نیاز ہو کر اپنا کام شروع کیا تھا، وہ بڑھاپے میں کہاں قلم روک سکتا ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب اگر کوئی خدا یا مذہبی عقائد پر اعتراض کرتا تو اس کا دائرہ حیات تنگ کردیا جاتا، لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔

اب ایسی تحریریں نہ تو مصنف اور نہ ہی قارئین کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتاہے کہ اس کتاب کی طباعت، ترجمے اور تقسیم پر بعض ممالک میں پابندی لگا دی جائے اور وہ صرف وہی ممالک ہوں گے جنہیں اپنے نظریات اور عقائد پر بڑا گھمنڈ ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی قسمت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو تو اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے۔

اس تحریر سے ایک اور نقصان ہو سکتا ہے اور وہ نقصان ذاتی نہیں بلکہ تحلیلِ نفسی کے نقطہ نظر اور تحریک کو ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحلیل نفسی کا مکتبہ فکر میری تخلیق ہے اور اب تک وہ بہت سے اعتراضات اور حملے سہہ چکا ہے۔ میری موجودہ تحریر سے میرے مخالفین تحلیلِ نفسی کو نشانہ ہدف بنا سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں ”ہم نہ کہتے تھے کہ تحلیلِ نفسی ایک نقصان دہ نظریہ ہے۔ اب اس کا نقاب اتر گیا ہے اور واضح ہو گیا ہے کہ تحلیل نفسی کے در پردہ دہریت کا پرچار ہوتارہا ہے اور اخلاقی اقدار سے نجات پانے کا درس دیا جاتا ہے اب ہمارے سب شبہات یقین میں بد ل گئے ہیں۔ “

اس قسم کا اعتراض میرے لئے نہایت تکلیف دہ ہوگا کیونکہ میرے تحلیلِ نفسی کے کئی رفقاء کار میرے مذہب کے بارے میں نظریات سے اتفاق نہیں کرتے، لیکن مجھے امید ہے کہ اس قسم کے اعتراضات سے تحلیلِ نفسی کے مکتبہ فکر کو نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اس سے پہلے بھی وہ بہت سے طوفانوں کا سامنا کر چکا ہے اور وہ اس طوفان کا دلیرانہ طور پر مقابلہ کرے گا۔

میری نگاہ میں تحلیلِ نفسی ریاضی کی کیلکولس کی طرح ایک غیر جانبدارانہ طریقہ کار کا نام ہے۔ اگر ایک ما ہر طبعیات اپنی کیلکولس کی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچے کہ عنقریب کرہ ارض تباہ ہونے والا ہے تو کیا وہ اس نتیجے کا الزام ریاضی کے سر لگائے گا۔ میں نے مذہبی عقائد کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس نقطہ نظر کو مجھ سے اور تحلیلِ نفسی کی پیدائش سے بیشتر بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ تحلیل نفسی کے علم نے صرف اس نقطہ نظر کو چند نفسیاتی دلائل پیش کیا ہیں اور مذہبی عقائد کی سچائیوں کا تجزیہ کیا ہے۔ میرا کوئی مخالف تحلیلِ نفسی کو اپنے عقائد کو سچ ثابت کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail