سراب کا مستقبل: تخلیق سگمنڈ فرائیڈ


میراخیال ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس مصنوعی تقدس سے نجات حاصل کریں اور اس بات کا اقرار کریں کہ انسانی معاشرے کے قیام اور ارتقا ء کے لیے ہمیں خداؤں کی ضرورت نہیں رہی۔ اب انسان اجتماعی طور پر قوانین خود بناسکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ قوانین آسمانوں سے اتر کر زمین پر آجائیں گے، ان میں حالات اور انسانی معاشرے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی لائی جاسکیں گی اور وہ حقیقت پسندانہ بھی ہوں گے۔ ایسا کرنے سے عوام کا ان قوانین کے بارے میں رویہ بھی ہمدردانہ اور دوستانہ ہوگا اور وہ ان کے خلاف اس غصے، تلخی اور نفرت کا اظہار بھی نہ کریں گے جو وہ آسمانی قوانین کے بارے میں کرتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہوگا کہ وہ قوانین ان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں ان کی اپنی بہتری مضمر ہے۔ اس طرح انسانی تہذیب کا ارتقا ء نئے خطوط پر استوار ہونا شروع ہو جائے گا۔ لیکن جب انسانی معاشرے کے قوانین کی عقلی اور معاشرتی ضرورت کی دلیل پیش کرتے ہیں تو بہت سے لوگ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا انسانی قتل کی ممانعت کے قانون کا تاریخی جوازدرست ہے؟ میراخیال ہے کہ نہیں۔ مجھے یہ ایک جذباتی مسئلے کا عقلی حل نظر آتا ہے جسے ہم تحلیل نفسی کی زبان میں Rationalization کہتے ہیں جو جذباتی مسائل پر عقل پر دہ ڈالتا ہے۔ ہم تحلیل نفسی کے علم سے یہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب کسی انسان میں کسی کام کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے تو وہ اس کے حق میں دلائل پیش کرتاہے۔ ایسے دلائل جن کا اس کام سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہوتا۔

پرانے زمانے کے انسان میں، اپنے جابر باپ کے خلاف اتنا غصہ پیدا ہو جاتاتھا کہ بعض دفعہ اس کے دل میں اپنے باپ کو قتل کرنے کے جذبات ابھرتے تھے۔ ان جذبات پر قابو پانے کے لیے معاشرے نے باپ کے قتل کی مخالفت کا قانون پاس کیا لیکن آہستہ آہستہ وہ قانون صرف باپ کے قتل کے لیے ہی نہیں بلکہ سب انسانوں کے قتل کے لیے استعمال ہونے لگا۔

ہم پر انسانی تاریخ کے تجزیے سے واضح ہوا ہے کہ خدا کا تصور بھی باپ کے تصور کا رہین منت ہے۔ اس لیے کہ کہا جاسکتا ہے کہ قتل نہ کرنے کا قانون صرف معاشرتی ضروریات کے تحت وجود میں نہیں آیا بلکہ مذہبی عقائد کے مطابق یہ خدا کا حکم بھی ہے اور یہ عقیدہ تاریخی حقیقت کا بھی اظہار کرتا ہے، جبکہ ہمارے منطقی استدلال معاشرتی ضرورت کا تو اقرار کرتا ہے، خدا کی اہمیت کو نہیں مانتا۔

اب ہم مذہبی عقائد کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ عقائد صرف انسانی خواہشات کا ہی اظہار نہیں کرتے بلکہ وہ تاریخی یادداشتوں کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس طرح مذہبی عقائد کو حال اور ماضی دونوں قسم کے محرکات طاقتور بناتے ہیں۔ ہم انسانی تاریخ اور تہذیب کے ارتقاء کا انسانی بچے کی نشوونما سے موازنہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں تحلیلِ نفسی کے علم نے بتایا ہے کہ بچہ بلوغت کی زمینوں کو عبور کرتے ہوئے ایک نفسیاتی طور پر غیر صحتمند نیوروٹک (Neurotic) دور سے بھی گزرتا ہے جس میں اسے اپنی جبلی خواہشا ات کو دبانا پڑتا ہے کیونکہ اس کا ذہن ان پابندیوں کو عقلی طور پر نہیں سمجھ سکتا اور کچھ عرصے کے لیے ان خواہشات کو لاشعور میں پناہ لینی پڑتی ہے۔ اکثر بچوں کی وہ نفسیاتی گرہیں آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی کھل جاتی ہیں اور جوانی تک پہنچتے پہنچتے وہ بچے ان مسائل کا صحتمند حل تلاش کرلیتے ہیں اور وہ نوجوان جو اس دباؤ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں وہ تحلیلِ نفسی کے علاج سے ایک صحتمند زندگی گزارنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ایک انسان کے جذباتی اور ذہنی مدارج کی طرح پوری انسانیت بھی ارتقاء کے مدارج سے گزررہی ہے اور وہ بھی اپنی جہالت، کم عقلی اور بہت سے مسائل کو لاشعور میں دباؤ میں دبا رکھنے کی وجہ سے نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگئی ہے۔ انہی الجھنوں میں مذہبی عقائد بھی شامل ہیں جنہیں انسان آج تک گلے سے لگائے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ہم مذہب کو انسانیت کا عالمی نفسیاتی مسئلہ کہہ سکتے ہیں۔ (Universal Obsessional Neurosis Humanity) بچوں کے نفسیاتی مسائل کی طرح اس کی جڑیں بھی ایڈی پس کملیکس اور بچے کے باپ کے ساتھ تضادات تک پھیلی ہوئی ہیں اور جس طرح بچوں کو جوانی تک پہنچنے کے لیے، ان مسائل اور الجھنوں کو پیچھے چھوڑنا پڑتا ہے اسی طرح انسانیت کو بھی بلوغت تک پہنچنے کے لیے مذہبی عقائد کو پیچھے چھوڑنا ہوگا۔ جس طرح ایک مشفق استاد بچوں کی تربیت میں ان کی بلوغت کے سفر میں ان کا معاون ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی ان انسانوں سے جوان عقائد سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرر ہے ہیں، ہمدردی سے پیش آنا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

جب ہم مذہبی عقائد کی تاریخ سے واقف ہوتے ہیں تو ہمارے دلوں میں ان کی قدر بڑھ جاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں بلوغت کے سفر کو ترک کرکے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے سینے سے لگائے رکھناچاہیے۔ تاریخ کے مطالعہ نے ہم پر یہ بھی اجاگر کیا ہے کہ ان عقائد پر ایمان لانے میں لاشعوری محرکات نے اہم کردار ادا کیاہے اور وہ مرحلہ آگیا ہے کہ ہم ان لاشعوری عوام کی بجائے اپنے شعور اور عقل پر زیادہ انحصار کریں، جس طرح ایک ذہنی مریض اپنی الجھنوں کی تفہیم کے بعد اپنا نقطہ نظر اور لائحہ عمل بدلتا ہے اور زندگی کے فیصلے عقل و دانش کی بنیادوں پر کرتاہے۔

میری نگاہ میں یہ قدم انسانی تہذیب کے ارتقاء کے اگلے مرحلے کے لیے راہ ہموار کرے گا اور اس کے لیے مدلل اور معقول بنیادیں فراہم کرے گا۔ مذہبی عقائد اور نظریات صدیوں کے سفر کے بعد اتنا گردوغبار سے اٹ گئے ہیں کہ ان میں سے سچ اور حق تلاش کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ جب بچے پوچھتے ہیں کہ نومولود کہاں سے آتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ وہ آسمانوں سے اترتے ہیں اور انہیں پرندے لے کر آتے ہیں۔ ہم بچوں سے تشبہیوں اور استعاروں کی زبان میں بات کرتے ہیں۔

لیکن بچے ان تشبہیوں اور استعاروں کو حقیقت سمجھ لیتے ہیں اور بڑے ہو کر جب انہیں اصل حقیقت کا ادراک ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں والدین نے دھوکا دیا تھا۔ اب ہم جان گئے ہیں کہ بچوں سے استعاراتی زبان میں بات کرنے سے بہتر ہے کہ ہم ان کی عقل کے مطابق انہیں زندگی کی حقیقتوں کے بارے میں بتائیں۔ یہی صورتِ حال مذہبی عقائد کو ماننے والے انسانوں کی بھی ہے، (جاری ہے )

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail