’بچوں کو جنسی زیادتی سے بچانے کے لیے ان سے دوستانہ ماحول میں بات کریں‘


پاکستان

پاکستان میں کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے بڑھتے واقعات کے بعد ایک غیر سرکاری تنظیم نے اس سلسلے میں آگہی مہم شروع کی ہے۔ یہ مہم ملک کے چار شہروں میں شروع کی گئی ہے جس میں بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں۔

گذشتہ سال پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے تقریباً پونے چار ہزار واقعات پیش آئے۔ غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق سنہ 2018 میں تقریباً 3,832 واقعات پیش آئے جو سنہ 2017 کی نسبت 11 فیصد زیادہ تھے۔

خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں چند روز پہلے ایک ہی دن میں تین کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور اسی روز ضلع کرک میں ایک بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اسے قتل کر دیا گیا۔

ضلع دیر میں بھی کچھ روز قبل ایک بچے سے زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ چند ماہ پہلے ایک بچے نے اس وجہ سے خود کشی کر لی تھی کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والا شخص اسے مسلسل بلیک میل کر رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو میں ایک اور بچی کا ریپ

زینب قتل کا ایک سال: ’قصور کے بچے آج بھی محفوظ نہیں‘

اسلام آباد: بچی کا ریپ اور قتل، عدالتی تحقیقات کے حکم پر احتجاج ختم

کمسن فرشتہ ریپ کیس کا مرکزی ملزم گرفتار

یہ چند ایک واقعات ہیں تاہم ساحل کے مطابق پاکستان میں روزانہ اوسطاً دس بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔

پاکستان میں اب یہ بحث بھی چل نکلی ہے کہ کیا ان واقعات میں حقیقی طور پر اضافہ ہوا ہے یا سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی وجہ سے یہ واقعات اب رپورٹ ہونا شروع ہوئے ہیں۔

پاکستان

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد پاکستان میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور حکومت نے اس بارے میں قانون سازی اور واقعات کی روک تھام کے لیے بڑے بڑے وعدے کیے تھے لیکن ان واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہو سکی۔

ایک غیر سرکاری تنظیم ’گروپ ڈیولپمنٹ پاکستان‘ نے ریڈیو کے ذریعے بچوں اور والدین کے لیے آگہی مہم شروع کی ہے۔ ان ریڈیو پیغامات کے ذریعے بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ ان واقعات سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

ان ریڈیو پیغامات میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے قانون پر عمل درآمد ضروری ہے اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو رپورٹ ضرور کریں تاکہ ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دی جا سکے۔

اس تنظیم کی سربراہ ویلری خان یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان پیغامات میں سامعین کو بتایا جا رہا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کیا ہے اور اگر خدا نہ کرے کسی کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو وہ کہاں جا کر رپورٹ کر سکتے ہیں۔

پاکستان

ابتدائی طور پر یہ ریڈیو پیغامات لاہور، اسلام آباد، پشاور اور صوابی میں ایف ایم ریڈیو کے ذریعے نشر کیے جا رہے ہیں۔

اس تنظیم کی جانب سے بچوں اور والدین کے ساتھ اس موضوع پر مباحثے بھی کیے جاتے ہیں اور والدین کو درپیش مسائل بھی زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کے ایک مباحثے میں شریک ایک بچی کی والدہ سعدیہ ضمیر نے بتایا کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں تمام موضوعات پر بات چیت کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا ’والدین کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں لیکن اس اختیار کو اتنا استعمال نہ کریں کہ بچہ والدین سے ڈرنا شروع ہو جائے اور ان سے بات ہی نہ کرے کیونکہ عام طور پر ایسے حالات میں بچے کو لگتا ہے کہ اسی نے کچھ غلط کیا ہے جس کی وجہ سے اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp