عثمان بزدار کا چیلنج


وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو ابتدائی طور پر تین بڑے چیلنجز کا سامنا تھا۔ اول ان کے سیاسی مخالفین نے ان کی وزیراعلی کے طور پر تقرری کو سیاسی میدان میں بہت زیادہ چیلنج کیا اور کہا کہ یہ تقرری پنجاب کے مفاد اور ترقی کے خلاف ہے۔ دوئم تحریک انصاف کے اندر بھی ایک ایسا بڑا طبقہ موجود تھا جو سمجھتا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا مقابلہ کرنے کے لیے عثمان بزدار کی تقرری سود مند نہیں ہوگی۔ سوئم اہل دانش کی سطح پر بھی ان کی تقرری کو ایک کمزور وزیر اعلی کے طور پر لیا گیا تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ پنجاب کا وزیر اعلی بہت جلد تبدیل ہوگا اور وزیر اعظم عمران خان کسی اہل فرد کو نیا وزیر اعلی نامزد کریں گے۔ اس تناظر میں کئی بڑی سیاسی پیش گوئیاں مختلف ناموں کے ساتھ دی گئیں، مگر وزیر اعلی پنجاب بدستور وزیراعلی پنجاب ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب کی حقیقی طاقت عمران خان ہیں اور وزیر اعلی سمجھتے ہیں کہ جب تک ان کو وزیر اعظم عمران خان کی حمایت حاصل ہوگی کوئی ان کو تبدیل نہیں کرسکے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تمام تر خدشات کے باوجود وزیر اعلی نہ صرف قائم ہیں بلکہ اب کافی متحر ک اور فعال بھی دیکھے جاتے ہیں۔ ابتدائی طور پر ان کا بطور وزیر اعلی کردار اور آج کا کردار کافی مختلف ہے۔ یقینی طور پر یہ سب کچھ انہوں نے کم عرصہ میں سیکھا اور اب وہ وزیر اعلی کے طور پر بہت کچھ کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں اور اس کے عزائم بھی رکھتے ہیں۔ بنیادی فرق سمجھنا ہوگا کہ لوگ جب بھی وزیر اعلی کا موازنہ کرتے ہیں تو ان کا مقابلہ شہباز شریف سے کیا جاتا ہے۔ حالانکہ شہباز شریف سیاسی طور پر بھی بطور وزیر اعلی کے طور پر بھی ایک بڑا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ اس لحاظ سے عثمان بزدار کا مقابلہ شہباز شریف سے کرنا درست تجزیہ نہیں ہو گا۔

یہاں وزیر اعلی عثمان بزدار کو داد دینی ہوگی کہ انہوں نے حالیہ پیش کردہ بجٹ میں جو سیاسی، سماجی اور معاشی ترجیحات سمیت ترقی کا جو روڈ میپ پیش کیا ہے وہ کافی حد تک اپنے اندر جان رکھتا ہے۔ اگرچہ ہمارے یہاں بڑے بڑے منصوبوں کا کاغذی طور پر اعلان تو کردیا جاتا ہے، مگر عملدرآمد کا نظام کافی ناقص ہوتا ہے اور عملی طور پر وہ سب کچھ نہیں ہوتا جو بولا یا دکھایا جاتا ہے۔ اس لیے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہی ہے کہ رواں مالی سال بجٹ میں جو کچھ ترقی کا منظر نامہ انہوں نے مختلف منصوبوں کی بنیاد پر پیش کیا ہے اس ترقی کا عملی تصویر سب کے سامنے واضح اور شفاف نظر آنی چاہیے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کی ترقی کا محور پنجاب کے چند صوبے یا محض چند شہری علاقے نہیں وہ پنجاب کی مجموعی ترقی جس میں شہری اور دیہی دونوں علاقے شامل ہیں کو بنیاد بنا کر کام کرنے کی کوشش کر کے عملا نتائج دینے کے خواہش مند ہیں۔

سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ اس وقت سماجی شعبہ میں کافی سرگرم نظر آتے ہیں۔ جن میں یتیموں، بیواوں، بزرگوں، معذوروں، اقلیتوں سمیت خواجہ سرا کے لیے 2019-20میں نئے منصوبے شامل ہیں۔ مثال کے طور پر معذور افراد کے لیے ”ہم قدم پروگرام، تیزاب سے جلنے والی یا تشدد کا شکار عورتوں کے لیے ” نئی زندگی پروگرام“ پنجاب احساس پروگرام جس میں 65 برس سے زیادہ افراد کے لیے ” باہمت پروگرام “ کام کرنے والی خواتین ورکرز کے لیے 23 ڈے کئیر سنٹر، صحت انصاف کارڈ کا اجرا، بے روزگار نوجوانوں کے لیے بلاسود قرضے، ہنر مند نوجوان منصوبے، پناہ گاہوں کا قیام، ایسے اقدام ہیں جن کی سماجی شعبہ میں خاص اہمیت ہے۔ کیونکہ اس معاشرے میں سب سے زیادہ استحصال یا ظلم کمزور اور محروم طبقات کا ہو رہا ہے۔ یہ کمزور طبقہ مختلف بنیادی نوعیت کی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث مشکل زندگی گزار رہا ہے۔ یہ شعبہ عمومی طور پر ہماری حکومتی ترجیحات کا اہم حصہ نہیں رہا۔ سرکاری دستاویزات میں ان منصوبوں کا ذکر تو ہوتا ہے مگر عملاً اس میں ہمیں کوئی بڑے خاطر خواہ بہتر نتائج دیکھنے کو نہیں ملتے۔

اسی طرح پنجاب میں نو جدید ہسپتالوں کی تعمیر اور چھ نئی یونیورسٹیوں کا قیام اچھا فیصلہ ہے۔ کیونکہ جب تک ہم اختیارات، وسائل اور بنیادی نوعیت کی سہولت کو عام اور مقامی لوگوں تک نہیں پہنچائیں گے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کیونکہ پنجاب میں ضلعی اور تحصیل کی سطح پر ہسپتالوں اور اس میں بنیادی نوعیت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے محض نئے ہسپتالوں سمیت ایک بڑے ہنگامی آپریشن اور بڑی سرجری کی ضرورت ہے، کیونکہ اس مسئلہ نے عام لوگوں کی زندگیوں اور علاج کی سہولتوں کو ناممکن بنا دیا ہے۔ تعلیم اور صحت ایسے منصوبے ہیں جس میں نجی شعبوں کی اجارہ داری کو ختم کر کے پبلک سیکٹر کے اداروں کو زیادہ متحرک اور فعال کرنا ہو گا اور ساتھ ساتھ نجی شعبہ کے معاملات میں شفاف ریگولڑی کے نظام کو شفاف بنانا ہوگا تاکہ نجی شعبہ کی جانب سے استحصال میں کمی ہو۔ نجی شعبہ کا پھیلاؤ بری چیز نہیں بلکہ ان کو ریگولیٹ کرنا زیادہ اہم اور بنیادی کام ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ وزیر اعلی پنجاب نے پنجاب کے مجموعی ترقیاتی بجٹ کا 30 فیصد حصہ جنوبی پنجاب کے لیے مختص کیا ہے تو اس میں معاشی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر نوجوانوں کو ترقی کے عمل میں سامنے لایا جائے۔

ایک بڑا چیلنج پنجاب کی سطح پر نوجوان طبقہ ہے۔ اس طبقہ میں پڑھے لکھے یا نہ پڑھ سکنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں ہیں جن کو یقینی طور پر بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔ اس طبقہ کے لیے پنجاب کی سطح پر ایک بڑے ہنگامی پروگرام کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنائے۔ اس کے لیے مائکرو انٹرپنیور شپ طرز کے پروگراموں سمیت چھوٹی صنعتوں کے جال کو پھیلانا ہوگا۔ کیونکہ ہر ایک کو روزگار دینا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ حکومت کا اصل کام ایک ایسا ماحول اور سازگار معاشی حالات پیدا کرنے ہیں جو ملک میں معاشی ترقی کے نئے سے نئے مواقع پیدا کر سکے۔ خاص طور پر جو نوجوان پڑھ لکھ نہیں سکے ان کے لیے کچھ ایسے فنی تربیت کے عمل کو فروغ دینا ہوگا جو ان کو کچھ کرنے کی طرف راغب کرسکے۔

وزیر اعظم عمران خان کا وعدہ تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے پولیس ریفارمز پر توجہ دیں گے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اب پنجاب میں پولیس ریفارمز حکومت کا ایجنڈا نہیں رہا۔ کیونکہ اول تو اصلاحات کا عمل کہیں نظر نہیں آرہا اور دوئم روزانہ کی بنیادوں پر پولیس کی جانب سے عام لوگوں پر تشدد کے واقعات اور تھانوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی یا سیاسی طور پر مداخلتوں کا کھیل عروج پر ہے۔ وزیر اعلی عثمان بزدار پولیس میں اصلاحات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں کیونکہ اگر ہم نے پولیس کو ماضی کی پولیس کے طرز پر ہی نظام کو چلانا ہے تو بس پھر پولیس کی سطح پر کچھ نہیں ہو سکے گا۔ اس میں تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے ہی ارکان اسمبلی کی جس مداخلت کا سامنا ہے اس کا علاج تلاش کیا جانا چاہیے۔

ایک مسئلہ منصوبوں کی تکمیل میں نگرانی اور جوابدی کے نظام کا ہوتا ہے۔ کیونکہ عملی طور پر جب منصوبے اپنے مطلوبہ نتائج نہیں دیتے تو اس کی ایک بڑی وجہ کمزور نگرانی اور جوابدہی کا نظام ہوتا ہے۔ نگرانی اور جوابدہی کے نظام کو موثر بنانے کے لیے دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کو مضبوط کرکے اس امر کو یقینی بنایاجاتا ہے کہ نظام شفافیت اور عوامی توقعات کے مطابق چلے۔ ابھی تک پنجاب میں مقامی نظام حکومت کا معاملہ کافی پیچھے ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کو مقامی نظام حکومت کے فوری انتخابات اور نظام کو آئین کی شق -A 140 کے تحت ان اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دے کر حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنایا جائے۔ کیونکہ یہ جو مصنوعی مہنگائی ہے اس کی وجہ نظام کی کمزوری ہے اور اس میں جب تک پوری حکمرانی کے نظام میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات نہیں کی جائیں گی، کچھ نہیں ہوسکے گا۔

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار جس انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اس میں مزید بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی بنیاد جہاں بھی عوام کی ضرورت، توقعات اور ترجیحات کی بنیاد پر ہوگی وہیں حکمرانی کے نظام کی ساکھ پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے مسئلہ محض عثمان بزدار کی اپنی کامیابی کا نہیں بلکہ اپنی جماعت سمیت صوبوں کے لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی پیدا کرنے سے جڑا ہے اور یہ ہی وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا چیلنج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).