‘کرتارپور راہداری پر پاک انڈیا مذاکرات: ‘ذرا موسم تو بدلا ہے۔۔۔ابھی کچھ دن لگیں گے’


پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعمیر کی جانے والی کرتارپور راہداری کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر کتنے سکھ یاتری پاکستان میں واقع گرودوارہ دربار صاحب کرتارپور کے درشن کو آ پائیں گے؟ کیا اس کے لیے انہیں ویزا لینا پڑے گا یا ان کو بغیر ویزا کسی خصوصی اجازت نامے کے ذریعے داخلے کی جازت ہو گی؟

کرتارپور راہداری کے حوالے سے اس طرح کے سوالات کے بارے میں پاکستانی حکام نے مذاکرات کے دوسرے دور کے بعد بھی واضح تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ پاکستان اور انڈیا کے حکام کے درمیان کرتارپور راہداری کے حوالے سے مذاکرات کا یہ دوسرا دور لاہور میں واہگہ کے مقام پر ہوا۔

مزید پڑھیے

’کرتارپور راہداری کی تعمیر ایک معجزہ ہے‘

’کرتارپور راہداری نے مثبت سیاست کی بنیاد رکھ دی‘

کرتارپور راہداری: یہ بھی کوئی یو ٹرن ہے

پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والے وزارتِ خارجہ کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل جنوبی ایشیا ڈاکٹر محمد فیصل نے مذاکرات کے اختتام پر بتایا کہ ‘مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور 80 فیصد سے زائد معاملات پر اتفاق ہو گیا ہے۔’

تاہم ان 80 فیصد معاملات میں کیا کچھ شامل تھا اور کس پر اتفاق ہونا باقی ہے، اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ تفصیلات نہیں دیں سکیں گے کیونکہ ‘یہ بین الاقوامی قواعد کے خلاف ہے کہ مخصوص تفصیلات اس طرح فراہم کی جائیں۔’

ابر آلود لاہور میں اتوار کی صبح مذاکرات سے قبل ڈاکٹر محمد فیصل پُر امید تھے۔ ‘ہمیں معنی خیز مذاکرات کی امید ہے کہ ہم امید اور عقیدے کی اس راہداری کو حقیقت میں بدل پائیں گے۔’

تاہم مذاکرات کے اختتام پر ڈاکٹر محمد فیصل اور ان کا وفد جب واہگہ کے مقام پر ‘امن کا پودا’ لگانے کے لیے آیا تو انڈین وفد کے حکام ان کے ساتھ نہیں تھے۔

پودا لگانے کے بعد ڈاکٹر فیصل نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ دی۔ آغاز میں انھوں نے بتایا کہ ‘دونوں اطراف نے تمام معاملات کو جلد مکمل کرنے پر اتفاق کیا ہے تا کہ رواں برس بابا گرونانک کی 550 ویں برسی کے موقع پر کرتارپور راہداری کو کھولا جا سکے۔’

مگر ا سں کے آگے انھوں نے شاعری کا سہارا لیا۔

‘ذرا موسم تو بدلا ہے، مگر پیڑوں کی شاخوں پر، نئے پتوں کے آنے میں، ابھی کچھ دن لگیں گے۔ بہت سے زرد چہروں پر، غبارِ غم ہے کم بے شک، پر ان کو مسکرانے میں، ابھی کچھ دن لگیں گے۔’

ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ ‘امن کا پودا’ لگانے کے لیے انھوں انڈیا کے مذاکراتی وفد کو ‘دعوت تو دی تھی مگر ان کے پاس شاید وقت کم تھا۔’

انڈین وفد نے مذاکرات کی معلومات بتا دیں

مذاکرات کا دوسرا دور تقریباً تین سے چار گھنٹے تک جاری رہا۔ مذاکرات کے حوالے سے پاکستان نے انڈین میڈیا کے چند نمائندوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اس کے اختتام پر ایک مشترکہ بریفنگ ہوگی۔

تاہم انڈین وفد کے شرکا مذاکرات کے اختتام کے ساتھ ہی سرحد کے دوسری طرف چلے گئے۔ وہاں اٹاری کے مقام پر انھوں نے وہاں کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بریفنگ دی۔ اس حوالے سے ایک بیان انڈیا کی وزارتِ داخلہ کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔

اس میں انڈین وزارتِ داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری ایس سی ایل داس کی سربراہی میں مذاکرات میں شریک ہونے والے وفد نے اس بیان میں زیادہ مخصوص معلومات فراہم کی ہی۔

انڈین وفد کے مطابق کن نکات پر‘اتفاق’ ہوا؟

ان کے مطابق انڈین وفد نے پاکستانی حکام کو بتایا کہ وہ اپنی طرف جو سہولیات تعمیر کر رہے ہیں وہ ایک دن میں 15000 یاتریوں کو نمٹانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

‘اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ انڈین پاسپورٹ رکھنے والوں کو ہفتے کے سات دن بغیر ویزا سفر کی اجازت ہو گی اور یہ کہ ایک دن میں 5000 یاتریوں کو یاترا کی اجازت دی جائے گی۔’

‘پاکستانی حکام نے اصولی طور پر پاکستان کی طرف دریائے راوی اور زیرو لائن کے درمیان موجود کھاڑی پر پُل بنانے کی حامی بھری ہے۔’

انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ ‘پاکستان سے یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ وہ سکھ یاتریوں کے جذبات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ویزا فیس یا پرمٹ وغیرہ جیسی شرط کے حوالے سے بھی نظرِ ثانی کرے۔’

انڈین وفد نے ایک ڈوزیئر یعنی دستاویزات کا مجموعہ بھی پاکستانی حکام کے حوالے کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘پاکستان میں موجود کچھ افراد یا ادارے زیارت کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یاتریوں کے جذبات ابھار سکتے ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ‘پاکستانی وفد نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ کسی بھی انڈیا مخالف کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔’

پاکستان کا اس پر کیا کہنا ہے؟

پاکستانی وفد کی سربراہی کرنے والے وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے ان نکات پر ایک مرتبہ پھر زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی۔ تاہم انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایک ڈوزیئر ان کے حوالے کیا گیا ہے۔

‘انھوں نے ایک ڈوزیئر دیا ہے مگر ایسے تو ہم بھی انھیں بارہ ڈوزیئرز دے چکے ہیں، ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔’

ایک دن میں 5000 یاتریوں کو داخلہ دینے کے حوالے سے ‘اتفاق’ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ تفصیلات میں نہیں جائیں گے تاہم ‘پاکستان یہ کہتا ہے کہ انتظامی طور پر جس قدر یاتری ایک دن میں سنبھالنے کی صلاحیت ہوئی ان کو آنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔’

وہ دیگر نکات جن کے حوالے سے انڈین وزارتِ داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان پر ‘اتفاق’ ہوا ہے ڈاکٹر فیصل نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ‘اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ یہ بین الاقوامی قواعد اور طریقوں کے خلاف ہے۔ ہم نے تفصیلات شیئر کرنے پر اتفاق نہیں کیا تھا۔’

تاہم بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ 80 فیصد سے زائد معاملات پر اتفاق ہو چکا ہے، جو 20 فیصد رہتا ہے اس کے لیے اگر ضرورت پڑی تو مزید مذاکرات سے دور ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ بابا گرو نانک کی 550 ویں برسی کے موقع پر، یعنی رواں برس نومبر میں، کرتارپور راہداری یاتریوں کے لیے کھول دی جائے گی۔

‘پاکستان کی طرف 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے’

واہگہ کے مقام ہر ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے موقع پر ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایا کہ کرتارپور راہداری پر پاکستان کی طرف تعمیر کی جانی والی سہولیات اور دیگر بنیادی ڈھانچے پر 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔

‘پاکستان کی طرف تعمیر کی جانے والے گرودوارہ کملیکس، بارڈر ٹرمینل اور سڑک پر 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ ہم پراعتماد ہیں کہ بابا گرو نانک کی 550 ویں برسی کے موقع پر کرتارپور راہداری کو یاتریوں کے لیے کھولا جا سکے گا۔’

پاکستان کیا سہولیات تعمیر کر رہا ہے؟

گرودوارہ دربار صاحب کرتارپور سے انڈین سرحد تک 4 عشاریہ 5 کلو میٹر طویل پکی سڑک تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس سڑک پر دریائے راوی کے مقام پر ایک پُل بھی تعمیر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ سرحد کے قریب ایک بارڈر ٹرمینل بنایا جا رہا ہے جہاں رجسٹریشن، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات موجود ہوں گی۔

دربار صاحب کے احاطے کو چوڑا کیا گیا ہے۔ اس سے متصل انڈین یاتری، مقامی یاتری اور بین الاقوامی یاتریوں کے لیے الگ الگ پارکنگ کی جگہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ گرودوارہ کمپلیکس قیام وطعام کی سہولیات بھی ہوں گی اور دوسرے مرحلے میں رہائش کا بندوبست بھی ہو گا۔

تاہم انڈیا کا مطالبہ تھا کہ پاکستان دریائے راوی اور زیرو لائن کے درمیان بننے والی کھاڑی میں مٹی ڈال کر سڑک بنانے کے بجائے اس پر بھی پُل تعمیر کرے۔ اس حوالے سے ان کا مؤقف تھا کہ ‘مٹی ڈال کر سڑک تعمیر کرنے سے سیلابی پانی انڈیا میں داخل ہونے کا خطرہ ہو گا۔

‘وہ یاتریوں کے لیے محفوظ بھی نہیں ہو گا۔ انڈیا چاہتا ہے کہ یاتریوں کے لیے راہداری کا راستہ تمام موسموں کے لیے موزوں اور محفوظ ہو۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp