رائے بہادر سر گنگا رام


ماہر تعمیرات ، سول انجینئر ، ماہر زراعت ، زرعی سائنسدان ، سماجی کارکن،فادر آف ماڈرن لاہور ، رائے بہادر ، سر ، ممبر آف MVO سر گنگا رام ، 13 اپریل 1851 کو مانگٹاں والا ، ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد دولت رام جونیئر سب انسپکٹر تھے۔کچھ عرصہ بعد وہ امرتسر آگئے اور کورٹ میں کاپی-رائٹر بن گئے۔ گنگا رام نے یہیں سے میٹرک کیا اور 1869 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1871 میں تھامس کالج میں سکالرشپ پر ایڈمشن لیا اور 1873 میں گولڈ میڈل کے ساتھ سول انجینئر کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تعیناتی اسسٹنٹ انجینئر کے طور پر ہوئی اور انھیں امیرئل بلڈنگ بنانے میں مدد کی خاطر دہلی بلوا لیا گیا۔

انھوں نے پی ڈبلیو ڈی میں کچھ عرصہ ملازمت کے بعد ذراعت میں قدم رکھا۔ منٹگمری میں حکومت سے 50,000 پچاس ہزار ایکڑ زمین پٹہ پر لی جو کہ بنجر صحرا تھا۔ اس زمین کو سیراب کرنے کے لیے موٹرین منگوائیں جو اتنی بڑی تھیں کہ عام سواری پر لاد کر نہیں لے جائی جا سکتی تھیں۔ چنانچہ پٹڑی بچائی گئی اور یہ موٹرین اس پٹری پر چلتی گاڑی پر لاد کر اپنے مقام پر پہنچائی گئیں۔ اس بنجر زمین میں گنگا رام نے ہزاروں میل لمبی کنالیاں بنائیں اور اپنے خرچے پر صرف تین سالوں کے اندر اندر اس زمین کو سیراب کر کے وہاں لہلہاتی فصلیں اگا دیں۔ یہاں سے انھوں نے لاکھوں کمائے اور غریبوں / ضرورتمندوں میں تقیسم بھی کیے۔ پنجاب کے گورنر ہیلے کا کہنا تھا کہ “گنگا رام نے ہیرو کی طرح کمایا اور صوفی کی طرح خرچ کیا”

لاہور عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، ایچیسی کالج، میواسکول آف آرٹس، میو ہسپتال کا سر البرٹ وکٹر ہال اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ سر گنگا رام نے ڈیزائن کیے۔

جبکہ سرگنگارام ہسپتال، ڈی اے وی کالج (موجودہ اسلامیہ کالج سول لائنز)، سرگنگارام گرلزاسکول (موجودہ لاہور کالج فارویمن)، ادارہ بحالی معذوراں اور دیگر بے شمار فلاحی ادارے اُنھوں نے اپنے ذاتی خرچ سے قائم کیے۔

اس کے علاوہ لاہور ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ کا پلان مرتب کیا ،رینالہ خورد کا پاور ہاؤس بنایا ، پٹھان کوٹ اور امرتسر کے درمیان ریلوے ٹریک بھی تعمیر کیا۔ پٹیالہ میں ، باغ ، سکول ، کورٹ اور پولیس سٹیشن تعمیر کیے۔

لائل پور (فیصل آباد) میں منفرد گھوڑا ٹرین چلائی۔ آدمیوں سے بھری یہ ٹرالیاں گھوڑے کھینچتے تھی۔ بُچیانہ سٹیشن سے لے کر گنگا پور گاؤں تک یہ لائنیں بچائی گئیں اور آنے جانے والی گھوڑا ٹرین اسی پر چلتی تھی۔ لائن ایک تھی اور ٹرینیں دو ، تو جب یہ ٹرینیں آمنے سامنے آ جاتیں تو مسافر ایک ریل سے اتر کر دوسری پر جا بیٹھتے اور گھوڑوں کا رخ دوسری طرف موڑ دیا جاتا ، اس طرح ایک صدی پہلے لوگوں کو وہ سہولت دی گئی جس کا تصور آج بھی ناممکن ہے۔ افسوس ! مرمت نہ کرنے کی وجہ سے گھوڑا ٹرین 1980 میں خراب ہو گئی لیکن اس کا زیادہ تر حصہ آج بھی قابل استعمال ہے اور 20 روپے فی سواری کے حساب سے لوگ اس پر آج بھی سفر کرتے ہیں۔

1925ء میں انہیں امپیریل بینک آف انڈیا کا صدر بنایا گیا ۔ اسی دوران میں اُنہوں نے گنگارام ٹرسٹ کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ زراعت میں جو بھی بہتر کارکردگی دکھاتا اسے 3000 روپیہ گنگا رام ایوارڈ دیا جاتا تھا۔

خدمات کو یاد رکھنے کے لیے سر گنگا رام کا مجسمہ مال روڈ پر پبلک سکوئر پر لگا ہوا تھا۔ سعادت حسن منٹو کی ایک کہانی کے مطابق 1947 میں مذہبی لڑائی میں ایک گروہ نے یہ کوشش کی کہ لاہور میں کسی بھی ہندو کی نشانی باقی نہ رہے۔ سو انھوں نے توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ اس میں سے چند لوگوں نے گنگا رام کے مجسمے کو پتھر مارے۔ پھر تار کول پھینک کر چہرہ داغدار کر دیا۔ ایک صاحب جوتوں کا ہار مجسمے کے گلے میں ڈالنے لگے تو پولیس آ گئی اور لاٹھی چارج و ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ بھگڈر مچ گئی اور جوتوں کا ہار ڈالنے والا شخص گر کر زخمی ہو گیا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے اٹھایا اور بولے “اسے جلدی گنگا رام ہسپتال لے چلتے ہیں” جبکہ وہ بھول گئے کہ وہ اسی گنگا رام کا مجسم ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔

آپ نے 10 جولائی 1927 کو لندن میں وفات پائی۔ہند رسوم کے مطابق ان کی آدھی راکھ دریائے گنگا میں بہا دی گئی جبکہ باقی لاہور میں دریائے راوی کے کنارے ان کی سمادھی مین دفن ہے۔ دمکتے چمکتے لاہور اور کروڑوں کو فائدہ پہنچانے والی تعمیرات کی طرح سر گنگا رام بھی ستارے کی طرح چمکتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).