کٹاس راج مندر میں شیو کے آنسو کی باز گشت


جہاں سے پورے علاقہ پر نظر رکھی جاتی ہوگی لیکن آج ان میں سپاہی موجود نہ تھے۔ ہر دو تین میل کے فاصلہ پر لکڑی کے دیو ہیکل دروازے تھے جو کھلے ہوئے تھے اور ان میں آمدو رفت کا سلسلہ جاری تھا۔ ہم اس شہر سے کوسوں دور تھے کہ ہمیں مسلح گھڑ سواروں کے ایک دستہ نے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ ہر کوس پر مسلح دستہ ہمیں اگلے دستہ کے حوالے کر کے آگے چل پڑتا۔ ہم جونہی مرکزی دروازہ پر پہنچے تو ہمیں بیرونی دیوار کی حفاظت پر معمور کئی مسلح گھڑ سواروں نے حصار میں لے لیا اور انتہائی عزت و احترام کے ساتھ مرکزی دروازہ تک لے گئے۔ ان کے ایک اشارہ سے مرکزی درواز ہ کھل گیا اور ہم قلعہ کے اندر داخل ہو گئے۔ وہ گھڑ سوار مسلسل ہمارے ساتھ تھے۔ قلعہ کی مختلف راہداریوں پر ہاتھیوں اور گھڑ سواروں کی آمد ورفت جاری تھی۔

مرکزی دروازے کے قریب ہی رنگین اور سنہری رتھ اپنے جو شیلے گھوڑوں اور سپاہیوں کے ساتھ اس طرح کھڑے تھے کہ جیسے جنگ میں جانے کے لئے تیار ہوں۔ ان رتھوں کو دیکھ کر مجھے یونان کے رتھ یاد آگئے۔ ان سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ یہاں کے باسیوں کا یونان سے خاص تعلق تھا۔ ہمارے ارد گرد گھاس کے بڑے بڑے میدان تھے جن میں راہداریاں اور پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ ان میں سے کئی میدان مختلف پھلوں کے درختوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہمارے سامنے ایک اور فصیل تھی جس کے پیچھے ایک خوبصورت عمارت دکھائی دے رہی تھی۔ جس کے جھروکوں کے رنگین پردے باہر کی طرف اس طرح اڑ رہے تھے جیسے اندر کسی نے پوری رفتار سے پنکھے چلا رکھے ہوں۔

قلعہ کے کافی اندر تک چلنے کے بعد گھڑ سوار لکڑی کے بنے ہوئے ایک بڑے دروازے کے سامنے رکے۔ سونے کے پرتوں میں لپٹے ہوئے اس دروازہ پر سینکڑوں چوکٹھے بنے ہوئے تھے جن میں خوبصورت نقش و نگار اور قیمتی پتھر وں سے بنی مورتیاں آویزاں تھیں۔ ان پتھروں میں زمرد حاوی تھا۔ اگرچہ ان مورتیوں کوچاندی اور سونے کا ماحول نصیب تھا لیکن ان کے اندر ایک وحشت چھپی ہوئی تھی۔ بنانے والوں نے ان کی آنکھوں میں کوٹ کوٹ کر خوف بھر دیاتھا۔

دروازہ کھلا تو سامنے نیلے رنگ کی راہداری پر زرق برق لباس میں ملبوس امرا اور اہلکار ایک لمبی قطار بنا ئے کھڑے تھے۔ انہی رؤسا و امر امیں لال رنگ کی دھوتی اور سنہری کڑھائی سے بھری ہوئی سبز چادر میں ملبوس ایک شخص ہمیں دیکھ کر آگے بڑھ آیا۔ اس کے سر سے لپٹی نارنجی پگڑی اور گردن میں لٹکتی سونے کی مالا میں پروئے ہوئے قیمتی پتھر اس کی شان اور اہمیت کا اظہار کر رہے تھے۔ وہ شان سے آگے بڑھا اور ہاتھ باندھ کر جھکتے ہوئے سلام کرنے کے بعد ہمیں بتانے لگا کہ وہ امور مہمانداری کا ذمہ دار ہے اور ہماری خدمت پر مامور ہے۔

اس کے بعد اُس نے ہمارا تعارف اپنے ساتھیوں سے اور ان کا تعارف ہم سے کروایا تو پتہ چلا کہ ہمارے زیادہ ترمیزبانوں کا تعلق راجہ کے خاندان سے ہے۔ ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا گیا اور ہم اس رنگین قطار میں چلتے ہوئے محل کے ایک کمرے میں پہنچ گئے۔ یہ کمرہ کیا ا یک بارہ دری تھی۔ جس کے دروازوں پر باریک پردے ہوا کے دوش پر ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔

ہوا کے لئے جھروکے اس طرح بنائے گئے تھے کہ ایک کے سامنے دوسرا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ایک جھروکہ سے داخل ہونے والی ہوا کو دوسرا جھروکہ کھینچ کر باہر پھینک رہاتھا۔ ہر دیوار اور ہر ستون آرٹ کا نمونہ تھی۔ نارنجی رنگ پر نیلے رنگ سے بنائی گئی بیلیں گویا سونے کے پانی پر تیرتی نیلی بیلیں تھیں۔ محرابوں کے ستونوں پر سونے کے پرت یوں چڑھائے گئے تھے کہ یہ سونے کے ہی معلوم ہو رہے تھے۔ چھت پر ایک بہت بڑا فانوس جھلملا رہا تھا جبکہ ہر ستون پر چاندی کے مشعل دانوں میں رکھی مشعلیں مسکرا رہی تھیں۔ کمرے میں روشنی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جھروکوں سے آنے والی شمسی کرنیں جب فانوس میں جڑے قیمتی پتھروں پر پڑتیں تو وہ جگمگا اٹھتے۔

فرش پر مختلف رنگوں کے ایرانی قالین اس ریاست کے ایران کے ساتھ تعلقات کو ظاہر کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں چار دوشیزائیں ہاتھوں میں چاندی کی طشتریاں اور پیالے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئیں اور ہماری تواضع وہاں کے ایک مشروب سے کی گئی۔ مشروب پیتے ہی ہماری ساری تھکن مٹ گئی اور ہم ترو تازہ ہو گئے۔ پتہ نہیں یہ اثر مشروب میں تھا یا مشروب پیش کرنے والے ہاتھوں میں تھا۔ ویسے بھی ساڑھیوں کے اُڑتے پلو کسی کو نیند کی وادیوں میں کب جانے دیتے ہیں۔

”ہمارے مہاراج کشمیر کی یاترا پر گئے ہوئے ہیں۔ اس لئے آپ کی خدمت کی ذمہ داری ہماری ہے۔ میرا نام کرشنا ہے۔ “

گویا امور مہمانداری کے اس ذمہ دار نے ہمیں راجہ کی عدم موجودگی کا عذر پیش کیا۔

”آئیے میں آپ کو یہاں کا عجوبہ دکھاؤں۔ “

یہ کہہ کر اُس نے مشرقی دروازہ کا پردہ اٹھا دیا۔ جب ہم نے نیچے جھانکا تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہمارے سامنے ایک جھیل مسکرا رہی تھی۔ لگتا تھاجھیلوں کا سارا حسن اس کے اندر سمٹ آیا تھا۔ سنہری عمارات کے درمیان وہ انگوٹھی میں زمرد کے نگینے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ ارد گرد کی الف لیلوی داستانوں کی عمارات کی طرز کی شاہی عمارات کے سائے نے اُسے مزیدسحر انگیز بنادیا تھا۔ لگتا تھا ان عمارات کی بنیا د محبت اور حسن پر رکھی گئی تھی۔ جب ہوا ٹھہرے ہوئے پانی میں ڈبکیاں لگاتی تو جھیل مسکرا اٹھتی اور یوں لگتا جیسے وہ ہمیں گلے ملنے کی دعوت دے رہی ہو۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5