دوسری شادی: دوسرا رخ


ابھی تم نے نام لیا۔ نورین کا نام لیا۔ حمیرا نے کہا۔

کیا کہا میں نے؟ اب عاطف سنبھلنے لگا

تم نے کہا سونے دو نورین۔ عاطف کون ہے نورین؟ بتاؤ مجھے؟

عاطف سے کوئی بات نہ بن پائی اور اس نے حمیرا سے جھگڑا شروع کردیا۔ بہت دیر لڑائی ہوئی اور آخرکار عاطف نے مان لیا کہ جس کزن کو چھوڑ کر اس نے حمیرا سے شادی کی وہ اب اسی سے شادی کرے گا۔

حمیرا یہ سن کر سکتے میں آگئی اور محبت کے دعوے پیار کی قسمیں سبھی اس کے دل پہ کسی بھاری پتھر جیسے بن گئے۔

اس لڑائی کے بعد عاطف ماں طرف چلا گیا۔ حمیرا نے چاہا کہ اپنے والدین سے معاملہ چھپا رکھے لیکن والدین سے اولاد کا دکھ کب چھپا ہے کبھی۔

ساری بات جب حمیرا کے والد نے سنی تو انہوں نے بیٹی کو صبر کی تلقین کی اورکہا، کچھ دن انتظار کرو۔ عاطف آجائے گھر تو پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔

حمیرا نے عاطف کے بڑے بھائی سے رابطہ کیا تو انہوں نے شرمندگی کا اظہار کیا اور بتایا کہ چند روز بعد عاطف کی شادی ہے۔ وہ اس سلسلے میں بے بس ہیں کیونکہ عاطف کے پاس اولاد نہ ہونے کا جواز ہے۔

حمیرا کے والد نے بیٹی کو تاکید کی کہ طلاق مت لینا۔ اگر اس کو اولاد کی خاطر شادی کرنی ہے تو کرنے دو۔ تم جہاں رہتی ہو رہو۔ انہوں نے حمیرا کو اسلام کا حوالہ بھی دیا کہ اس میں گناہ کی بات نہیں کہ وہ دوسری عورت سے نکاح کرلے۔ یہ حق شریعت نے مرد کو دے رکھا ہے۔ حمیرا کے والد نے دل پہ جبر کرکے بیٹی کو سمجھایا۔ حمیرا نے سر تسلیم خم کیا اور اپنے گھر لوٹ گئی۔ عاطف نے شادی سے پہلے گھر آکر اپنا ضروری سامان اٹھاکر ماں کی طرف شفٹ کردیا۔

حمیرا کو کہا کہ وہ یہاں آتا جاتا رہے گا اور اسے طلاق نہیں دے گا۔ لیکن شادی کے دس روز بعد ہی نورین نے حمیرا کو طلاق دلوا دی۔

حمیرا کو نروس بریک ڈاون ہوگیا اور وہ ہسپتال منتقل ہوگئی۔ اس خبر کے سنتے ہی حمیرا کے والد کو دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حمیرا کی بیہوشی کے دوران ہی ان کا جنازہ ہوا اور تدفین بھی ہوگئی۔

حمیرا کو ہوش آتے اور سنبھلتے چند دن گزر گئے۔ ڈاکٹرز نے منع کردیا کہ والد کے انتقال کا ابھی نہ بتایا جائے۔

حمیرا ہفتے بعد جب گھر آئی تو خاموشی دیکھ کر اس نے والد کا پوچھا۔ بتایا گیا کہ وہ کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گئے ہیں۔ لیکن گھر میں لوگوں کی آمد و رفت غیر معمولی دیکھ کر اسے شک ہوا اور پھر معلوم ہوا کہ اس کے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

حمیرا ایک بار پھر بیہوش ہوگئی۔ جب ہوش میں آئی تو خوب روئی۔

حمیرا کی طلاق کو دو ماہ گزر گئے تو اس کی کلاس فیلو نے اسے جاب کرنے کے لئے کہا۔ حمیرا عدت کا بہانہ بنایا اور انکار کردیا۔ پھر عدت مکمل ہونے تک حمیرا بہت حد تک سنبھل چکی تھی۔

اگلے روز اس کی سہیلیوں نے اسے ساتھ لیا۔ شاپنگ کروائی اور ڈنر تک حمیرا کو خوب ہنساتی رہیں۔ اسی دوران صبا جو بچپن کی دوست تھی کہا کہ حمیرا کو جاب کرنی چاہیے اور اس کے آفس میں جگہ بن سکتی ہے۔ حمیرا ابھی تک ذہنی طور پر تیار نہ تھی لیکن سہیلیوں کے سمجھانے پر رضامند ہوگئی۔

چند ہفتوں بعد حمیرا نے صبا کے آفس کو جوائن کیا جو ایک لیدر بزنس کا بکنگ آفس تھا اور یہاں صرف چند لوگ ہی کام کرتے تھے۔ کام کوئی ایسا مشکل نہ تھا۔ تنخواہ بھی معقول تھی۔ حمیرا کو مالی طور پر بھی سہارا مل گیا۔

ادھر عاطف کی شادی کو سال ہونے کا آیا لیکن اولاد نہ ہوئی۔ نورین نے بہت سے ٹیسٹ کروا لئے لیکن کوئی وجہ سامنے نہ آئی۔ بالآخر ڈاکٹرز نے عاطف کو ٹیسٹ کروانے کا کہا۔ اس پہ عاطف نے کچھ ناپسندیدگی کا اظہار کیا لیکن پھر نورین کے طعنوں سے تنگ آکر ٹیسٹ پر رضامند ہوگیا۔

جب رزلٹ آیا تو عاطف کے طوطے اڑ گئے۔ اولاد نہ ہونے کا نقص عاطف میں تھا نورین اور حمیرا دونوں کا قصور نہ تھا۔ عاطف کو ڈاکٹر نے علاج کا مشورہ تو دیا لیکن بہت امید نہ دلائی۔ عاطف بہت دن تک کمرے سے باہر نہ نکلا۔ ندامت اور غصہ اس پہ حاوی رہے۔ نورین بھی ناراض ہوکر ماں کے گھر چلی گئی۔ جسے کچھ دن بعد راضی کرکے اس کی ماں آپس لے آئی۔ لیکن اب وہ عاطف کو ہر وقت طعنے دینے لگی۔

دوسری طرف حمیرا اب نارمل زندگی گزارنے لگی تھی۔ عاطف کو بھیانک خواب سمجھ کر بھلا چکی تھی۔ اب وہ بیقرار اور بے سکون نہ تھی۔ پہلے پہل اسے عاطف کی یاد دیوانہ بنائے رکھتی تھی لیکن جب اس نے طے کرلیا کہ عاطف کو زندگی سے نکالنا ہے تو یوں نکالا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

عورت ایسی ہی انتہا پسند ہے۔ جب پیار کرے تو انتہا تک جاتی ہے جب دشمنی پہ اترے تو کچھ نہیں رہنے دیتی سب جلا دیتی ہے اور جب بیزار ہوجائے تو لاکھ چاہیں وہ دوبارہ اپنے دل میں جگہ نہیں بنانے دیتی۔ یہی حمیرا نے کیا۔ عاطف کو اپنی زندگی سے دل سے اور دماغ سے نکال باہر کیا اور اب ایک پرسکون اور باعزت زندگی گزار رہی تھی۔

حمیرا کے آفس میں گنتی کے چند لوگ تھے۔ باس کبھی کبھار دفتر آتا تھا اور جب سے حمیرا نے جاب شروع کی تھی وہ اس طرف آیا ہی نہ تھا۔ مینجر اچھا آدمی تھا وہ باس کو اپڈیٹ رکھتا تھا۔ صبا نے حمیرا کو دوبارہ شادی کے لئے چند ایک لوگوں سے بھی ملوایا کیونکہ صبا کو حمیرا کی امی کی طرف سے بار بار حمیرا کو شادی کے لئے منانے کے اصرار کا سامنا تھا۔ پہلے پہل صبا نے بہانے سے ملوایا پھر حمیرا کو پتا چلا تو اس نے صبا کو منع کردیا۔

حمیرا نے صبا سے کہاکہ وہ ماں نہیں بن سکتی تو بھلا کوئی شخص ایک طلاق یافتہ بانجھ عورت سے شادی کیونکر کرے گا جبکہ کنواریوں سے شہر بھرا پڑا ہے۔ اس بات پر دونوں میں خوب بحث و تکرار ہوئی۔ چند روز دونوں ناراض رہیں اور پھر صلاح ہوگئی۔

ایک روز حمیرا کو مینجر نے آفس بلوایا۔ حمیرا جب باس کے دفتر داخل ہوئی تو دیکھا گہرے نیلے سوٹ اور سفید شرٹ پر نیلی ٹائی پہنے ایک رعب دار شخص بیٹھا ہے۔ مینجر نے بہت احترام سے حمیرا کو بیٹھنے کے لئے کہا اور حمیرا کا باس سے تعارف کروایا کہ یہ نئی بھرتی یے۔

محسن ملک نے حمیرا سے زیادہ بات نہ کی بس یہی پوچھا کہ وہ اپنی جاب سے مطمئین ہے؟ اسے کوئی مسئلہ تو نہیں؟ اگر کبھی کوئی بات کرنا ہو تو مینجر صاحب سے کہہ کر رابطہ کرلے۔ پھر مینجر نے حمیرا کو واپس جانے کا کہا اور وہ اپنے کیبن میں پلٹ آئی جہاں صبا پہلے سے موجود تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7