دوسری شادی: دوسرا رخ


محسن ملک واپس آگئے اور گھر کا ماحول قدرے بہتر دیکھ کر مطمئین رہے۔

رات حمیرا کے لئے پھر سہاگ رات بن گئی۔ محسن ملک کا اظہار وصل بہت شدید تھا۔ حمیرا کے لئے حیران کن تھا۔ وہ اب نماز میں سجدے لمبے کرنے لگی تھی۔ تنہائی میں وہ گریہ کرتی اور اپنے رب سے دعا کرتی تھی کہ اسے مزید کسی آزمائش میں نہ ڈالا جائے اور محسن ملک کی محبت کم نہ ہو۔ وہ خوش بھی تھی خوفزدہ بھی۔ ماضی کے مصائب نے اسے بے یقینی میں مبتلا کر دیا تھا۔ محسن ملک کی محبت اسے خواب لگتی تھی۔ ایسا ملن تو کبھی اس نے تصور میں بھی نہ دیکھا تھا جو اب اس کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔

محسن ملک: زوجہ! کیا خیال ہے ولیمہ کر لیا جائے اب؟ ولیمہ کی دعوت ابھی تک اس لیے نہ ہوئی کہ وہ بچوں کو نارمل کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی کچھ وقت دینا چاہتے تھے۔ اب انہیں لگ رہا تھا کہ علی کا رویہ کچھ بہتر ہے تو ولیمہ کرکے حمیرا کی ملاقات کروادی جائے سب دوستوں یاروں سے۔ حمیرا نے جب سنا تو کہنے لگی۔

حمیرا : ابھی کچھ دن ٹھہر جائیے۔ علی کے دوستوں کو ایک بار گھر دعوت پہ مدعو کرلیں پہلے ان سے میرا تعارف ہوجائے تو پھر ولیمہ کی بات کریں گے۔

محسن ملک: علی نے کہا ہے کہ وہ پارٹی دینا چاہتا ہے؟

حمیرا: جی نہیں۔ یہ میرا خیال ہے کہ آپ علی سے بات کریں۔ وہ اگر دوستوں کو بلانا چاہے تو میں پارٹی پلین کردوں گی۔

محسن ملک نے سوچتے ہوئے سر ہلایا۔

علی سے بات کی تو اس نے فلحال پارٹی سے منع کردیا البتہ اس نے یہ ضرور کہا کہ اسے ولیمے پہ کوئی اعتراض نہیں اگر محسن ملک کرنا چاہیں تو ضرور کریں۔

اس کے بعد علی کا رویہ دن بدن بہتر ہوتا گیا اور ولیمے کی دعوت کا دن آن پہنچا۔ بہت سے دوستوں سے ملانے کے بعد محسن ملک نے بچوں کے فوٹو سیشن کروایا تو علی کچھ جھجھکا لیکن پھر وہ بھی فیملی فوٹو بنوانے کو کھڑا ہوگیا۔

اس رات حمیرا کی ماں خوشی سے روتی رہی اور پھر جب حمیرا بھی باپ کی یاد میں روئی تو یمنہ نے اسے بہت پیار کیا۔ علی دور کھڑا یہ سب دیکھ کر دل ہی دل میں پگھلنے لگا۔ اس کا رویہ ولیمے کے بعد بدل گیا تھا۔ گھر میں حمیرا کو ماں کی حیثیت سے قبول کرلیا گیا تھا۔ اور ایک کامیاب خوشگوار زندگی کی ابتداء ہوچکی تھی۔

حمیرا کی چند ماہ بعد ایک روز طبیعت خراب ہوئی تو ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے انکشاف کیا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ یہ حیرت کے ساتھ ساتھ حمیرا کے لئے پریشانی کی بات بھی تھی کہ محسن ملک کا رویہ نجانے کیسا ہوگا؟ لیکن یہ جان کر اسے حیرت ہوئی کہ ناصرف محسن ملک بلکہ ان کے بچے بھی خوش تھے کہ انہیں ننھا سا کھلونا ملنے والا ہے۔

شادی کے تین سال بعد اب حمیرا ایک بچے کی ماں اور نوجوان بچوں کی بہترین دوست تھی۔

دوسری شادی نے اس کی زندگی کو دوسرا رخ دیا اور پہلی شادی کے درد بھلا دیے۔ محسن ملک کی محبت میں کوئی فرق نہ آیا نہ ہی ان کی گرمجوشی کم ہوئی۔ علی یونیورسٹی مکمل کرکے اعلی تعلیم کے لئے بیرون ملک جانا چاہتا تھا جبکہ یمنہ کی چھوٹے بھائی سے محبت دیدنی تھی۔

دوسری طرف عاطف کو نورین چھوڑ کر دوسری جگہ شادی کرچکی تھی۔ عاطف ماں کے گھر پڑا تھا۔ نوکری کرتا تھا اور کمرے میں جاکر بند ہوجاتا تھا۔ اسے حمیرا کی یاد اور اس کے ساتھ کی گئی زیادتی کا احساس بے چین کیے رکھتا تھا۔

محسن ملک نے بزنس مزید بڑھا لیا تھا اور اب پہلے سی فرصت نہ تھی لیکن حمیرا کی چاہت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ حمیرا اللہ کے کرم پر ہر دم شکر گزار رہتی تھی۔ وہ گھر کے ملازمین سے بہت اچھا بتاؤ کرتی تھی۔ محسن ملک کی پہلی بیوی کی قبر پہ بھی ان کے بچوں کے ہمراہ جاتی اور فاتحہ خوانی کروایا کرتی تھی۔

محسن ملک اسے اکثر کہتے تھے کہ حمیرا کو شاید اس کے والد دعا تھی جو اس کے ساتھ جڑنے والوں کی زندگی میں بہتری آجاتی تھی۔

حمیرا اور محسن ملک نے دوسری شادی کی عمدہ مثال قائم کی تھی کہ معاشرے میں مرد اور عورت کو تنہا رہنے کی بجائے مناسب پارٹنر تلاش کرلینا چاہیے۔ اگر نیت میں خلوص ہوتو اللہ کی مدد بھی میسر آجاتی ہے اور زندگی اچھی گزر جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7