ڈاکٹر خالد حسن کی حیرت انگیز مسافت


یہ اُن زمانوں کا قصہ ہے جب ہم لاہور کے تین انگریزی کے لیے مخصوص سینما گھروں ریگل، اوڈین اور پلازا میں ہالی وڈ کی فلمیں نہایت باقاعدگی سے دیکھا کرتے تھے۔ 1966 ء میں ایک فلم ”فنٹاسٹک وائج“ نام کی پلازا سینما میں نمائش کی گئی جس کے مرکزی کرداروں میں بن حُر والے سٹیفن بانڈ اور ہم سب کے ہوش اڑا دینے والی دراز قامت متناسب بدن اداکارہ راکوئل ویلش شامل تھے۔ یہ ”حیرت انگیز مسافت“ ایک سائنس فکشن فلم تھی جو انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی تھی۔

یہ فلم آج نصف صدی کی مدت کے بعد مجھے کیوں یاد آتی چلی جاتی تھی۔ میں ابھی بیان کر دوں گا لیکن پہلے اس کی مختصر کہانی گوش گزار کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ایک بوڑھا اور جینئس سائنس دان کسی بہت بڑی دریافت کے کناروں پر ہے جو امریکہ کو مکمل تباہی سے بچا سکتی ہے لیکن اس عمر رسیدہ سائنس دان کے دماغ کی ایک شریان میں کوئی رکاوٹ نمودار ہو جاتی ہے اور وہ بیہوش ہو جاتا ہے۔ اس کی موت واقع ہونے لگتی ہے۔ اسے ملکی سلامتی کی خاطر بچانا ضروری ہے لیکن وہ رکاوٹ دماغ میں ایسی جگہ پر اٹکی ہوئی ہے کہ اس کا آپریشن ناممکن ہے۔

انہی دنوں ایک نئی سائنسی ایجاد کے تحت مختلف اشیاء اور جانداروں کو خاص مراحل سے گزار کر ان کا حجم بہت مختصر کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ذرے سے بھی کم حجم میں تبدیل کیا جانا ممکن ہو گیاہے ؛چنانچہ ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم ترتیب دی جاتی ہے جن میں ہماری راکوئل ویلش بھی نرس کے طور پر شامل ہیں۔ ان سب کو ایک آبدوز میں بٹھا کر خصوصی تکنیک سے اتنا مختصر کر دیا جاتا ہے کہ اس آبدوز کو ننگی آنکھ سے دیکھنا ممکن ہی نہیں۔

ازاں بعد اس نہ دکھائی دینے والے خطرے کو بیہوش سائنس دان کے بدن میں سرنج سے انجیکٹ کر دیا جاتا ہے تا کہ ڈاکٹر اس رکاوٹ تک سفر کر کے اسے آپریشن کے ذریعے دور کر دیں۔ صرف ایک مسئلہ ہے کہ پورے ایک گھنٹے کے بعد نہ صرف آبدوز بلکہ اس میں سوار تمام افراد اس نا معلوم مختصر پن میں بڑھنے لگیں گے اور اپنی اصلی قامت اختیار کر جائیں گے یوں سائنس دان کا بدن پھٹ جائے گا اور وہ مر جائے گا۔ ازاں بعد آبدوز کا سفر انسانی بدن کے اندر کے گنجلکوں، شریانوں اور رگوں میں شروع ہو جاتا ہے۔

یہ ایک حیرت انگیز کائنات ہے جو ایک مشین کی مانند دھک دھک چل رہی ہے۔ خون کی روانی ہے، مختلف اعضاء کے پھیلنے اور سکڑنے کی آوازیں ہیں۔ جب یہ آبدوز دل کی قربت میں جاتی ہے تو اس کی دھڑکن کی دھم دھم آواز پورے سینما گھر میں گونجنے لگتی ہے۔ اس دوران حادثے بھی رونما ہوتے ہیں۔ بالآخر یہ ٹیم دماغ کے پیچیدہ نظام میں داخل ہو جاتی ہے جو ایک زندہ وجود کی صورت سانس لے رہا ہے۔ ڈاکٹر دماغ کی شریان میں اٹکی ہوئی رکاوٹ کا آپریشن کر کے اسے دور کرتے ہیں اور عین آخری لمحوں میں آبدوز اور اس کے مسافر ایک آنسو کی صورت سائنس دان کی آنکھ سے بہہ کر اس کے رخسار پر اٹک جاتے ہیں۔

ابھی وہ پانی کے ایک قطرے میں پنہاں ہیں اور اگلے لمحے وہ بڑھتے جاتے ہیں اور اپنی اصلی ہیئت اور قامت کو لوٹ آتے ہیں۔ اس فلم ”حیرت انگیزمسافت“ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پہلی بار انسان کے بدن کے اندر کے نظام کو سکرین پر دکھایا گیا ہے۔ میں نے آخر ایک پرانی فلم کی کہانی اتنی تفصیل سے کیوں بیان کی ہے۔ اس لیے کہ میرے سامنے ڈاکٹر خالد حسن نام کا ایک ایسا شخص بیٹھاتھا جس نے پچھلے ہفتے ایک مختصر کیمرے کو بیہوشی کے عالم میں میرے گلے کے ذریعے میرے بدن میں داخل کیا تھا۔

اسے فلم ”حیرت مسافت انگیز“ کی مانند ایک چھوٹی سی آبدوز کی صورت میری رگوں اور شریانوں میں رواں کیا تھا اور عین اس مقام پر پہنچا تھا جہاں میرے جگر کی ایک شریان میں رکاوٹ تھی اور پھر اسے دور کیا تھا۔ صرف ایک فرق تھا فلم اور حقیقت میں۔ ڈاکٹر خالد حسن اس کیمرہ آبدوز میں سوار نہ تھے بلکہ آپریشن تھیٹر میں کمپیوٹر سکرینوں پر اس کے سفر کی متحرک تصویریں دیکھ رہے تھے۔ ایک خوشگوار مسکراہٹ والا گورا چٹا شخص ڈاکٹر خالد حسن اس طریقہ علاج میں کمال کی مہارت رکھتا ہے جسے اینڈوسکوپی کا نام دیا جاتا ہے۔

وہ ان چند ایک ڈاکٹروں میں سے ہے جنہوں نے اس طریقۂ علاج کو دریافت کرنے والے امریکی ڈاکٹر سے یہ مشکل فن سیکھا تھا اور اب نہ صرف فلوریڈا ہسپتال میں بلکہ پاکستان میں بھی وہ اس طریقۂ علاج کی تعلیم دے رہے ہیں۔ انہیں اکثر فلوریڈا سے باہر امریکہ کی دوسری ریاستوں میں بھی کسی پیچیدہ کیس کو اینڈوسکوپی کے ذریعے سلجھانے کے لیے خصوصی طور پر بلایا جاتا ہے۔ چند برس پیشتر جب مجھ پر ایک افتاد پڑی تھی تب ڈاکٹر محمود ایاز کے زیر نگرانی اسی طریقۂ علاج کے ذریعے میرے جگر کو ڈھانپ چکی ایک جھلی کو الگ کیا گیا تھا۔

دو برس پیشتر یک دم مجھے بے وجہ بخار آنے لگا۔ متعدد ٹیسٹوں کے باوجود اس بخار کا منبع دریافت نہ ہو سکا۔ تب ایم آر آئی کے ہولناک قبر نما ٹیسٹ کے ذریعے کھلا کہ جگر کے معاملے ہیں۔ اس دوران کینسر کا خدشہ بھی لاحق ہونے لگا تھا۔ ڈاکٹر خالد حسن سے میری بیٹی نے اپنی تشویش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ تارڑ صاحب تو ہمارے بزرگ ہیں۔ ہماری پہچان ہیں انہیں فلوریڈا لے آئیے ؛چنانچہ فلوریڈا آئے اور ڈاکٹر خالد حسن نے کسی نئی تکنیک کوبروئے کار لا کر ہماری ”صفائی“ کر دی۔

دوبرس اطمینان سے گزر گئے اور پھر یک دم اس نوعیت کے بخار نے آ لیا۔ یہ کسی حد تک ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم پہلے ہی عینی بیٹی کو ملنے فلوریڈا آ رہے تھے ؛ چنانچہ پھر سے ڈاکٹر خالد حسن میری مدد کو پہنچے اور اینڈوسکوپی کے ذریعے پھر سے میری اندرونی ”صفائی“ کر کے میری صحت بحال کر دی۔ پچھلی بار اخراجات کے بارے میں کچھ خدشات تھے میں نے فون پر ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا تو کہنے لگے اگر میں اپنے والد صاحب کا علاج کروں تو کیا میں ان سے فیس لوں گا۔

آپ میرے بزرگ ہیں ؛چنانچہ نہایت معمولی اخراجات سے ہمارا امریکہ میں علاج ہو گیا۔ بجائے اس کے کہ میں ان کی آؤ بھگت کرتا الٹا انہوں نے مجھے خاندان سمیت اپنے گھر میں شام کے کھانے کے لیے مدعو کر لیا۔ ڈاکٹر صاحب کی مانند ان کی رہائش گاہ بھی ایک پاکیزہ ستھرا پن لیے ہوئی تھی۔ ڈرائنگ روم کے شیشے میں سوئمنگ پول کے پانی چھلکتے آتے تھے جن میں چند چٹانوں میں سے پھوٹتی آبشار گرتی تھی۔ اس کے پار جنگل تھا اور جنگل کے پار ایک نیلی جھیل کے پانی کروٹیں بدلتے تھے۔

ظاہر ہے ایک ڈاکٹر کے مہمان یا تو ڈاکٹر ہوتے ہیں اور یا مریض۔ میں تنہا مریض تھا اور بیشتر حضرات ڈاکٹر ہوا کرتے تھے۔ مہمانوں میں ڈاکٹر صاحب کے ایک عزیز جیری مسکدین نام کے تھے۔ بہت وسیع تن و توش کے مالک تھے۔ افرو امریکن تھے۔ یہاں کیتھولک تھے، بارہ برس پیشتر اسلام کے نور سے آشنا ہوئے اور اسے دل و جان سے قبول کر لیا۔ ان کے ساتھ اسلام اور پاکستان کے بارے میں گفتگو رہی۔ وہاں ڈاکٹر سعدیہ اور ان کے خاوند، جلال الدین بھی موجود تھے۔

دونوں میاں بیوی گڈا گڈی سے لگتے تھے۔ ان کی آپس میں شادی ہو گئی۔ عینی کے کنگ ایڈورڈز کے ایک کلاس فیلو ارتضیٰ بھی آئے ہوئے تھے۔ ارتضیٰ شنید ہے کہ کالج کے زمانوں میں بہت ڈیشنگ نوعیت کے نوجوان ہوا کرتے تھے۔ پھر جنید جمشید کی مانند دین کی جانب راغب ہوئے اور اب باریش ہو چکے ہیں اور تبلیغ کے لیے گھر سے نکلتے رہتے ہیں۔ ابھی ابھی کسی ذہنی مریض کے پیٹ سے ٹوتھ برش نکال کر آئے تھے جو اس نے نگل لیا تھا۔

میں نے ان سے کہا کہ برخوردار اتنے تردد کی بجائے ٹوتھ برش بازار سے خرید لیتے۔ ڈاکٹر ابوہریرہ کا تعلق اٹک سے تھا۔ اس دوران منڈی بہاؤالدین سے ڈاکٹر خالد حسن کے والد صاحب کا فون میرے لیے آ گیا۔ وہ بھی اپنے بیٹے کی مانند میری آمد پر خوش تھے، بار بار شکریہ ادا کر کے شرمندہ کرتے تھے۔ ڈرائنگ روم کی دیوار پر خانہ کعبہ کی ایک بہت اعلیٰ درجے کی تصویر پینٹ کی گئی تھی۔ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد نہایت عمدہ طعام نصیب میں آیا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ دنیا ڈاکٹر احسن جیسے لوگوں کے دم سے قائم ہے جو مجھ ایسوں کے کام آتے ہیں۔ انہیں صحت مند کرتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar