”حقیقی نمائندوں“ کے ایوان میں دھینگا مشتی کے مناظر


شہباز صاحب سیاست میں نووارد نہیں۔ تین بار پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ 2008 سے 2018 تک انہوں نے اس صوبے پر قابل رشک اختیار کے ساتھ حکمرانی کی۔ چٹکی بجا کر افسروں کو فارغ کرتے رہے۔ ان کے چاہنے والوں کا اصرار یہ بھی ہے کہ پاکستانی جمہوریت کی ”اوقات“ کے بارے میں وہ اپنے بھائی نواز شریف صاحب سے کہیں زیادہ آگاہ ہیں۔ وطنِ عزیز میں قوت واختیار کے اصل مراکز کو خوب پہچانتے ہیں۔ ان سے بنائے رکھنے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کو لہٰذا یکسو ہو کر بہت خلوص سے ان کی عملیت پسندی (Pragmatism) کی پیروی کرنا چاہیے۔

شہباز صاحب کی ”حقیقت پسندانہ“ شہرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ وہ ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائے ہیں کہ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اپنے ہاؤس میں عددی اعتبار سے بہت طاقت ور نظر آتی اپوزیشن کو جورعایتیں دے سکتے تھے دے چکے۔ اب ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اپنی حکومت کا پہلا بجٹ پاس ہونے کے فوری بعد وزیراعظم عمران خان صاحب نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر ایک تقریر کی تھی۔ اس تقریر کے ذریعے انہوں نے اپنے دل ودماغ پر چھائے تصورات کا برجستہ اظہار کیا۔

قوم کو سادہ ترین الفاظ میں بتادیا کہ ان کی دانست میں آصف علی زرداری اورنواز شریف جیسے افراد ”سیاست دان“ نہیں ”چور اور لٹیرے“ ہیں۔ اقتدار واختیار کو ذاتی دولت و کاروبار بڑھانے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ ”قوم سے لوٹی ہوئی دولت“ منی لانڈرنگ کے ذریعے اس ملک سے باہر جاتی رہی۔ اس دولت سے غیر ممالک میں قیمتی جائیدادیں خریدی گئیں۔

وزیراعظم نے مذکورہ تقریر کے دوران انتہائی دُکھ سے اس امر پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ نیب کی جیلوں میں اپنے ”جرائم“ کے بارے میں اٹھائے سوالات کا جواب دینے کے بجائے آصف علی زرداری جیسے لوگ سپیکر کے جاری شدہ پروڈکشن آرڈر کا سہارا لیتے ہوئے قومی اسمبلی میں آکر ”بھاشن“ دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ نئے پاکستان میں اس روایت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اسد قیصر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 2018 کے انتخابات کے ذریعے منتخب ہوکر پہلی بار قومی اسمبلی میں آئے تھے۔

خیبرپختونخواہ کی اسمبلی کے سپیکر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہیں اس ایوان کا سپیکر منتخب کروا لیا گیا۔ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد ”انہوں نے اپوزیشن کے انگریزی محاورے والے Good Copکی حیثیت میں صلح جوئی والا رویہ اختیار کرتے ہوئے خود کو Neutralثابت کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی حوالے سے مگر اُن کی اولین ترجیح اپنے لیڈر یعنی عمران خان صاحب کی دلجوئی اور تابعداری ہے۔ بجٹ منظوری کے بعد وزیراعظم نے جو تقریر کی اس کے بعد وہ اپوزیشن کے زیرحراست اراکین قومی اسمبلی کو اس ایوان کے اجلاس میں شرکت کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے اپنی جماعت کو“ غیر جانب دار ”نظر آنے کے بجائے“ بغاوت ”کرتے نظر آئیں گے۔ تحریک انصاف ہی نہیں ہمارے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں“ آزادانہ ”سوچ“ قیادت ”سے بغاوت شمار ہوتی ہے۔ “ قیادت ”کے پرستار اس سے ہر صورت گریز اختیار کرتے ہیں۔

پیر کی سہ پہر قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو شہباز شریف صاحب نے پوائنٹ آف آرڈر کا سہارا لیتے ہوئے نواز شریف اور رانا ثناء اللہ کے ساتھ جیل میں ہوئے ”سلوک“ کا ذکر چھیڑ دیا۔ گرفتار اراکین اسمبلی کے لئے پروڈکشن آرڈرجاری کرنے کی فریاد کی۔ یہ فریادکرتے ہوئے مگر ”تڑی“ بھی لگا دی کہ پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے کی صورت میں اس ایوان میں جو ہنگامہ آرائی ہو گی وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ تمام تر ذمہ سپیکر کے سر ہو گا۔

شہباز صاحب نے اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم کے حالیہ دورے کا ذکر بھی کیا اور مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی جیسے ”باوقار اور خودمختار“ ایوان کو اس ضمن میں اعتماد میں لیا جائے۔ شہباز صاحب کی تقریر ختم ہوتے ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بٹن دباکر اپنا مائیک آن کروالیا۔ کھوکھلی لفاظی پر مشتمل ایک دھواں دھار تقریر جھاڑی۔ اس تقریر کی بدولت اگرچہ مجھ جیسے جاہل ہرگز سمجھ نہیں پائے کہ عمران۔ ٹرمپ ملاقات کے دوران کون سے معاملات پر کس انداز میں ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے۔

اس ضمن میں تفصیلات وزیر خارجہ کی دانست میں شایدبہت ”حساس“ رہی ہوں گی۔ غالباً اسی باعث انہوں نے کمال فراخدلی سے یہ پیش کش کی کہ اپوزیشن جب چاہے قومی اسمبلی کی خارجہ امور کے بارے میں بنائی قائمہ کمیٹی کا اجلاس طلب کرلے۔ وہاں تشریف لاکر وہ وزیراعظم کے دورئہ امریکہ سے متعلق تفصیلات بیان کردیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر ضروری تصور ہوا تو وہ قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر پورے ایوان کو مذکورہ دورے کی تفصیلات بتا دیں گے۔

چکنی چپڑی تقریر کے بعد شاہ محمود قریشی صاحب ایوان سے باہر چلے گئے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد شہباز صاحب بھی ایوان میں موجود نہ رہے۔ مائیک سید خورشید شاہ کو ملا۔ وہ بھی گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈرجاری نہ ہونے کے سبب ماتم کنائی میں مصروف رہے۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی دہرا دیا کہ ”سب پہ بالادست“ تصور ہوتے ایوان کو وزیراعظم کے دورئہ امریکہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ مراد سعید صاحب بہت متحرک وزیر ہیں۔

خارجہ امور سے مگران کا براہِ راست تعلق نہیں۔ گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنا بھی ان کے اختیار میں نہیں۔ ان حقائق کے باوجود انہوں نے مائیک لیا اور دونوں موضوعات پر ایک دھواں دھار تقریر فرما دی۔ عمران خان صاحب کے دورئہ امریکہ کے بارے میں ان کے خیالات اپنے تئیں ایک پورے کالم کے مستحق ہیں۔ اس کالم کے اصل موضوع کو ذہن میں رکھتے ہوئے لیکن انہیں نظرانداز کرنے کو مجبور ہوں۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ شہباز شریف کی عدم موجودگی میں ڈپٹی سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے مراد سعید صاحب نے قوم کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں ”نا اہل“ ہوا اور احتساب عدالت سے ”سزا یافتہ“ نواز شریف کسی فائیو سٹار ہوٹل نہیں جیل بھیجا گیاہے۔

سزا یافتہ افراد کو جیلوں میں ACاور نرم بستر کی سہولتیں فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ شہباز صاحب اپنے بھائی کو جیل میں درپیش مشکلات کے بارے میں واقعتا فکر مند ہیں تو انہیں قائل کریں کہ وہ ”قوم کی لوٹی ہوئی دولت“ قومی خزانے میں واپس لوٹادیں۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت لوٹانے کے بعد نواز شریف لندن یا کسی اور شہر جاکر اپنی بقیہ زندگی سکون سے بسر کر سکتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کی نشستیں مراد سعید کی تقریر کے دوران تقریباً خالی تھیں۔

وہاں موجود کسی ایک بھی رکن اسمبلی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ نظر بظاہر مراد سعید کی ”اشتعال انگیز“ تقریر میں رخنہ ڈالے۔ یوں محسوس ہوا کہ ان کی صفوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ مراد سعید کی طولانی اور جذباتی تقریر کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے پیپلز پارٹی کے قادرپٹیل کو مائیک دے دیا۔ تحریک انصا ف کے کراچی سے منتخب ہوئے اراکین اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کے اس فیصلے کو قبول نہ کر پائے۔ ان کا اصرار تھا کہ کراچی سے منتخب ہوئے اراکین اسمبلی کو اس شہر میں پانی کی عدم دستیابی اور کچرے کے ڈھیروں پر بات کرنے کی اجازت دی جائے۔

ڈپٹی سپیکر آمادہ نہ ہوئے تو فہیم خان کی قیادت میں کراچی سے منتخب ہوئے پی ٹی آئی کے تین اراکین اسمبلی اپنی نشستوں سے اُٹھ کر پیپلز پارٹی کی نشستوں تک پہنچ کر قادر پٹیل کو روکنے کی ضد میں مبتلا نظر آئے۔ اپنی لگن میں انہوں نے نام نہاد ”معزز“ ایوان کو مزید ”باوقار“ بنا دیا۔ حکومتی اور پیپلز پارٹی کے اراکین کے مابین ممکنہ دھینگامشتی کے خوف سے قاسم سوری نے گھبرا کر اجلاس جمعرات کی سہ پہر تک ملتوی کر دیا۔ قومی اسمبلی سے گھر لوٹتے ہوئے میں اس غم میں مبتلا رہا کہ رزق کمانے کی مجبوری نے مجھے ”سب پر بالادست“ اور عوام کے ”حقیقی نمائندوں“ پر مشتمل ایوان میں گلی محلوں والے تماشے دیکھنے کی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ کاش زندگی بسر کرنے کا کوئی اور ہنرسیکھ لیا ہوتا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).