جہاز میں ایک سیٹ خالی تھی


اصغر کا دوسرے دن فون آیا۔ وہ بھی اسی ہسپتال میں تھا جہاں میں کام کررہی تھی مگر وہ دل کے وارڈ میں کام کررہا تھا جہاں ہم لوگوں کا کبھی بھی آنا جانا نہیں ہوتا تھا۔ میں امید کررہی تھی کہ وہ مجھے فون کرے گا کیوں کہ اس دن اس نے ہی پہلے مجھ سے فون نمبر مانگا تھا۔

میں نے خیریت بتائی پھر ملنے کی بات ہوئی پھر ملاقات ہوئی اور پھر ملاقاتیں بڑھتی چلی گئیں۔ وہ مجھے اچھا لگا، میں بھی اسے بھائی تھی۔ ہم دونوں پروفیشنل تھے۔ دونوں کما رہے تھے، دونوں کے شوق ایک جیسے تھے اور دونوں ہی کراچی سے یہاں آئے تھے۔ وہ مجھ سے پانچ سا ل سینئر تھا۔ میری طرح اس کے بھی کئی رشتے لگے لیکن زیادہ تر اس نے ہی منع کردیا تھا۔ مجھے توامی کے لگائے ہوئے کوئی بھی رشتے اچھے نہیں لگے تھے، جو لوگ امریکا میں ملوائے گئے تو وہ مغرور تھے اور جو پاکستان میں ملتے وہ شاید مجھ سے زیادہ میری امریکن شہریت اور اپنے گرین کارڈ میں دلچسپی رکھتے تھے۔

سال بھر ملنے، فون پر بات کرنے اور لڑنے جھگڑنے کے بعدہم دونوں کوہی احساس ہوا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ ہمیں بنایا ہی ایک دوسرے کے لیے گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ شیعہ اور میں سنی تھی۔ اپنی پیدائش پہ تو اختیار نہیں تھا ہمیں، اپنی دوستی، اپنی شادی پہ تو اختیار تھا۔ ہم نے فیصلہ کرلیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے ہی شادی کریں گے۔

مگر ہمارے والدین کو یہ شادی قبول نہیں تھی۔ ان کے خاندان کے لحاظ سے میں غیر مسلم اور ہمارے فقہ کے مطابق وہ لوگ مسلمان نہیں تھے۔ لیکن جلد ہی سب کو احساس ہوگیا کہ اگر ہم دونوں نے شادی کی تو ایک دوسرے سے ہی کریں گے، شادی ہوئی تو ہم دونوں کی ہی ہوگی، ورنہ ہم شادی نہیں کریں گے۔

پھر دونوں کی شادی ہوگئی۔ دو اردو بولنے والے خاندان شیعہ سنی ہونے کے باوجود قریب آگئے۔ اصغر کے والدین نے مجھے اور میرے والدین نے اصغر کو قبول کرلیا۔ ہم دونوں کی اتنی خاطر مدارت ہوئی تھیں ہم نے سوچنا شروع کر دیا کہ پاکستان واپس بھی جایا جاسکتا ہے۔ وہاں بھی تو ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور ہم دونوں اپی صلاحیتوں سے اپنے ملک کے لوگوں کو توفائدہ پہنچا ہی سکتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کا بھی تو ہم پر حق ہے۔

اسی طرح میں نے کبھی نہیں سوچتا تھا۔ کراچی میں، میں نے پڑھا ضرور تھا لیکن ایک حق کی طرح یہ سمجھے بغیر کہ حکومت کتنے پیسے تعلیم پر خرچ کرتی ہے اور ایک ڈاکٹر کو تو ڈاکٹر بنانے میں حکومت کے کتنے لاکھ خرچ ہوتے ہیں؟ کہاں سے یہ رقم آتی ہے؟ کن لوگوں پہ ٹیکس لگا کر ہمارے کالج کے پڑھانے والوں کو تنخواہ دی جاتی ہے؟ کیوں میری اتنی کم فیس ہے؟ کچھ بھی نہیں سوچا تھا میں نے۔

یہ باتیں اصغر کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کو ضرورواپس جانا چاہیے، تھوڑے دنوں کے لیے ہی سہی کیوں کہ اس ملک کے غریب عوام کا بھی کچھ حق ہے۔ کچی آبادیوں میں رہنے والے، گندی گلیوں اور کوڑے کے ڈھیر پر بڑھنے والے، لاوارث مردہ جسم جن کی لاشوں کی چیرپھاڑ کرکے ہم لوگ ڈاکٹر بنے تھے۔ ان کا صحیح غلط علاج کرکے ہم لوگ ماہر بنے تھے۔ پھر اس ملک میں آباد ہوکر کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا تک نہیں تھا، لیکن کبھی بھی سنجیدگی سے جانے کے بارے میں نہیں سوچا ہم لوگوں نے۔ بات کرتے تھے پھر بھول جاتے تھے، ارادہ کرتے تھے، توڑ دیتے تھے۔

شکاگو میں ہی میری بیٹی پیدا ہوئی۔ یاسمین نام رکھا تھا ہم لوگوں نے اس کا۔ جب دوست سوال کرتے کہ کیا ہوگی یاسمین؟ شیعہ یا سنی؟ تو ہمارا جواب ہوتا کہ انسان ہو گی۔ یاسمین اچھی مسلمان ہوگی، نہ کسی کودھوکا دے گی نہ کسی سے جھوٹ بولے گی، ہم یہی سکھائیں گے اسے۔ باقی اس کی مرضی بڑی ہ وکر جو بھی کرے۔

مگرکہیں اور، کوئی اور فیصلے کرتا ہے۔ یکایک ہمیں فون آیا تھا کہ اصغر کی امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا۔ ہم لوگ جب پاکستان پہنچے تو وہ آغا خان ہسپتال میں دم توڑچکی تھیں۔

اصغر پر بڑا اثر ہوا۔ وہ بار بار سوال کرتا اپنے آپ سے، مجھ سے کہ کیا فائدہ ہوا اس کے کارڈیولوجسٹ بننے کا۔ شکاگو میں مسز ڈوھرتی، مسز فی نی گن، مسز کلارک، مسز اوڈوائر، مسز کنیڈی کی انجیو پلاسٹی کرسکتا ہے، پیس میکر لگا سکتا ہے، کارڈیک کیتھرائزیشن کرسکتا ہے، رکے ہوئے دلوں کو بجلی کے جھٹکے لگا کر چلا سکتا ہے، مگر مسز زیدی۔ اس کی اپنی ماں کو جب ضرورت پڑتی ہے تو موجود تک نہیں ہوتا ہے۔ ایک احساسِ جرم تھا جو اسے مارے جا رہا تھا۔

ایک کسک تھی جو اسے تڑپائے جارہی تھی۔ وہ گھنٹوں بیٹھا سوچتا رہتا۔ ہمارے گھر کے اس چھوٹے سے کمرے میں جہاں اس کی ماں آکر چھ مہینے رہی تھیں، جہاں انگیٹھی کے اوپر ان کی بڑی سی مسکراتی ہوئی شفیق سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ میں ساتھ بیٹھ جاتی تھی۔ ہم لوگ ان کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ وہ اپنے بچپن کی کہانیاں سناتا رہتا تھا۔ اسکول سے آکر سب سے پہلے ماں ملتی تھیں۔ ہمیشہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ بنا کر رکھتی تھیں، اس کے کیچڑ سے رندھے ہوئے جوتے دھوتی تھیں۔

اس کے کپڑے صاف ستھرے دھلے ہوئے استری کرکے رکھتی تھیں۔ میڈیکل کالج میں جیب خرچی کے علاوہ پیسے ماں سے ملتے تھے۔ کیا نہیں کیا تھا اس اَن پڑھ عورت نے میرے لیے۔ میری ہر چیز کا خیال۔ انہیں پتا تھا کہ اس عمر میں میری کیا ضروریات ہیں۔ کبھی نہیں کہا مجھ سے کہ واپس آجاؤ، خدمت کرو ہماری، ہم نے پیدا کیا ہے تم کو، تم پہ حق ہے ہمارا۔ ہمیشہ یہی کہا کہ جہاں رہو خوش رہو۔ ہماری تو عمر ختم ہوگئی، دنیا تمہاری ہے، تم نے وہی کرنا ہے جوتمہارے لیے اچھا ہو۔ وہ بار بار دُہراتا کہ ماں جب تمہیں میری ضرورت تھی تومیں نہیں تھا تمہارے پاس، جب مجھے ضرورت تھی تو تم میرے پاس تھیں میری آنکھیں بن کر، میرا سایہ بن کر، میری حفاظت کی کاش۔ کاش۔ میں وہاں ہوتا۔

مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ بظاہر لا اُبالی سا اصغر اپنی ماں سے کتنا قریب تھا، کتنی محبت تھی اسے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ بیٹیوں کوہی محبت ہوتی ہے اپنے ماں باپ سے، بیٹے تو چلے جاتے ہیں۔ شاید ایسا ہی ہوتا ہوگا، مگر اصغر ایسا نہیں تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4