ندا [ سندھی افسانے کا اُردو ترجمہ ]۔


افسانہ نویس: رسُول میمن
ترجمہ: یاسر قاضی

وہ کمرا ایک پُر اسرار حقیقت تھا۔ کمرا کیا تھا! رُوحوں کا پنجرہ تھا۔ اُوپر جالے لگے ہوئے تھے۔ جن میں مکڑیاں مَری ہوئی تھیں، جن کو پَتنگے کھا رہے تھے۔ بائیں جانب دیوار کو ٹیک لگا کر الماری ایسے کھڑی تھی، جیسے کوئی خاموشی اور افسوس کے مارے اپنی ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھے، اُس پلنگ کو دیکھ رہا ہو، جس پر کبھی اسکول ماسٹر نُور الامین نوروز اپنی بیوی کے ساتھ سویا رہتا تھا۔ دیوار میں بلب کے ساتھ گھڑیال بھی وہی لٹک رہا تھا، جس کا پنڈولم ڈھیلی شلوار کے اَزاربند کی طرح لٹک رہا تھا، اور گھڑی کے نیچے ماسٹر نُورالامین نوروز کی تصویر، جو پیتل کے مضبوط فریم میں کِیلوں کے ساتھ ایسے لگی ہوئی تھی، جیسے وہ دیوار کے پلاسٹر کے ساتھ مِل کر ایک ہو گئی ہو۔ ماسٹر نُورالامین نوروز کی رنگوں سے عاری سفید کالی تصویر ایسے دکھتی تھی، جیسے واقعی وہ کسی مَرے ہوئے آدمی کی تصویر ہو۔ سفید پگڑی اور سیاہ کوٹ کے درمیان پَھنسا ہوا مُنہ، کبوتر کے گھونسلے جیسا تھا، جس میں دو سفید انڈے اور ٹُوٹے ہو ئے بال و پَر لٹک رہے تھے۔

باپ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے نوّاب الدین نَوروز نے اپنی ماں کی تصویر کو ڈھونڈھنے کی بہت کوشش کی، جو سائز میں کم و بیش اس کے باپ کی اسی تصویر کے جتنی تھی۔ اس کے باپ نے وہ تصویر کہیں چُھپا رکھی تھی کیونکہ اس کی نظر جب اس تصویر پہ پڑتی تھی تو صدمے کے مارے اس کی آہ نکل جاتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اس کی ماں اُس وقت دنیا میں موجود تمام خواتین سے زیادہ حسین تھی، کیونکہ ایسے گواہی نوّاب الدین نوروز کی آنکھیں دے رہی تھیں، جو تب بمشکل چھ برس کا تھا اور یہ ایسی عمر ہوتی ہے جب دنیا میں موجود تمام لوگوں میں سے ماں جیسی کوئی اور ہستی نظر نہیں آتی۔

نوّاب الدین نوروز کی بدقسمتی تھی کہ اس نے اپنے بچپن میں ماں کو دہشتگردوں کے ہاتھوں مرتے دیکھا۔ مارنے سے قبل جب وہ اس کی ماں کے ساتھ زبردستی کر رہے تھے، تو اس کے باپ نے اُنہیں التجا کی کہ ”ایسے عمل سے پہلے مجھ پر رحم کھا کر مجھے گولی مار دو۔ “ مگر دہشتگردوں نے اس پر رحم نہیں کھایا اور اسے گولی نہیں ماری۔ اُس کے بعد اُس کا والد جیسے جیتے جی مر گیا۔ یہ کراچی کے بدترین نسلی فسادات تھے، جن سے کھارادر میں رہنے والا یہ آغا خانی خاندان بھی متاثر ہوا۔

ان فسادوں میں نُورالدین نوروز کی چھ برس کی بیٹی ”ندا“ کہیں گم ہو گئی۔ اپنی بیوی کی دُکھ ناک موت اور بیٹی کے بچھڑنے کے بعد نُور الامین نوروز بھی زیادہ وقت رہ نہ سکا۔ ایک دن گھر سے نکلا۔ رات تک واپس نہ آیا۔ دُوسرا دن ہوا۔ اور پھر تیسرا روز۔ بالآخر چوتھے دن اس کی لاش آئی۔ اس کا مُنہ مچھلیوں نے نوچ لیا تھا اور اس کی کھال کے نیچے مچھلیوں کے جیسے نفرت کے کانٹے نظر آ رہے تھے۔ اس کی شناخت اس کے مسخ شدھ چہرے سے تو ہونے سے رہی!

البتہ اُس کو پہنی ہوئی گھڑی سے ہوئی، جس کے کانٹے چل رہے تھے۔ یہ گھڑی اب نواب الدّین نوروز کا سب سے بڑا اثاثہ تھی، جو الماری کے خانے میں ایک چھوٹی سی صندوقچی میں سرد لاش کی طرح رکھی ہوئی تھی۔ اور جب نواب الدّین نوروز وہ صندوقچی کھول کر اُسے ہاتھ میں اُٹھاتا تھا، تو اس آٹومیٹک گھڑی کو سُوئیاں اس کے دل میں موجود نفرت اور بدلے کی آگ کی طرح بھڑک کر ایسے دوڑنے لگتی تھیں، جیسے جسم کا خون۔ جس میں سب نفرتیں، اذیّتیں اور الم، کسی سیلاب میں بہتی، چیختی، فریاد کرتی جاتی ہوں۔

نواب الدّین نوروز جب دَھکے کھا کر جوان ہوا، تو پھر اس نے دَھکے دینا شروع کیے۔ اس نے سب سے پہلا دَھکّا اپنے آپ کو دیا، جس میں اُس کا ضمیر نیچے گِر کر، سڑک پر چلنے والے ٹرالر کے نیچے آکر، ریزہ ریزہ ہو کر مر گیا۔ اُس نے دُوسرا دھکّا ایک ایسی عورت کو دیا، جو اُسی پلنگ پر گری، جس پر کبھی اس کی ماں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

گھر کے اُس واحد کمرے میں اب کوئی بھی نہ تھا، سوائے سنّاٹے اور تاریکی کے۔ جس میں نواب الدّین نوروز کی سِسکیاں اُبھرتی تھیں۔ جیسے ساون کا سُورج۔ جس میں صرف روشنی کا احساس ہوتا ہے اور سُورج خود بادلوں کی اوٹ میں چُھپا رہتا ہے۔ اس کی سسکیوں میں بارش کی بُوندوں کی آواز سمائی ہوئی تھی، اور اس کا انتقام ایسی آسمانی بجلی کی مانند تھا، جس کے پیچھے اس کا غم گرجتا سنائی دیتا تھا۔ پلنگ کے سامنے لٹکتی اس کے ابّا کی تصویر میں کبھی کوئی جنبش پیدا نہیں ہوئی۔ اُس کمرے کی چھت سے لِپٹے جالے، جیسے نواب الدّین نوروز کے ذہن سے نکلے ریشے تھے، جن میں یادوں کی مکڑیاں اُلجھ کر وقت کی غذا بن گئی تھیں۔ وہ فلٹر والی سگریٹ پی کر سوچ نہیں پاتا تھا۔ جب وہ فلٹر توڑتا تھا، تب ہی سوچنے کے قابل ہو پاتا تھا۔

ایک دن اُس نے اپنی لائی ہوئی اُنّیس سالہ خاتون کے قریب آنے کی کوشش کی، تو اُس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اُس کے جذبات اچانک سَرد ہو گئے۔ اُس کی وجہ اس کے پلنگ کے سامنے ٹنگی اُس کے ابّا کی وہی فوٹو تھی۔ اس نے جب اس نوخیز عورت کو چُھونے کی کوشش کی تو اُسے لگا کہ اس کو پیچھے سے کسی نے آواز دی ہے۔ اُس نے مُڑ کے دیکھا تو اُسے اپنے باپ کی تصویر میں جُنبش محسوس ہوئی۔ اُس کو لگا جیسے اس کا باپ اس تصویر میں زندہ ہو گیا ہو۔

یہ پہلی بار تھا کہ اس کے سامنے اس قسم کا عجیب منظر رُونما ہو رہا تھا۔ اُس کو تصویر سے باپ کی نظریں اُسے گھورتے ہُوئے نظر آئیں، جن میں ناراضی کا واضح اظہار تھا۔ اُس کو محسوس ہوا کہ جیسے اس تصویر کا فریم ہِل گیا ہو، جبکہ وہ فریم دیوار میں بڑی مضبوطی کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اُس کو لگا کہ جیسے کمرے میں کوئی رو رہا ہو۔ وہ اُٹھا اور اس نے غور سے دیکھا۔ اُس کو لگا، جیسے اس فوٹو کی آنکھوں سے اَشک رواں ہوں۔ اس نے تصویر میں اپنے باپ کی آنکھوں کو چُھو کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ ششدر ہو کے رہ گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پُرانی تصویر میں سے اس طرح آنسو بہہ رہے ہوں۔

وہ واپس پَلنگ پر لوٹا اور اس نے دیکھا کہ اُس عورت کے رخسار مزید روشن تھے۔ وہ بھی اشکوں کی نمی میں چمک رہے تھے۔ اُس نے سوچا کہ سرِ شام کا پہر ہے۔ شفق کی روشنی میں شاید شبنم اپنی دَمک دکھا رہی ہے اور جمال اپنے عرُوج پر ہے۔ ساحلِ سمندر بھی قریب ہے۔ ہر چیز پر نمی کا اثر ہے اور ہر چیز اس ساحلی ہوا سے گیلی ہو گئی ہے۔ نواب الدّین نوروز اپنے جنسی جذبات کو یکجا کر کے، اس عورت کے قریب آیا، تو اس کو احساس ہوا کہ پیچھے سے اُس کے والد کی آنکھیں اُسے گُھور رہی ہیں۔

وہ دوبارہ اُس دیوار میں لگے اس فریم کے قریب آیا اور اپنے ہاتھوں سے اُس کو نوچنا شروع کیا۔ فریم مضبوطی سے لگا ہوا تھا اور اس دیوار کے پلاسٹر میں جَما ہوا تھا۔ وہ ایک لمحے کے اندر وحشی بن گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ اس فریم کو کھینچ کر، دیوار سے اُتار دے اور اُسے الٹا کر دے، جس سے اس کے ابّا کی نظر اس پر نہ پڑ سکے۔ بالآخر اس نے اپنا پُورا زور لگا کر فریم کو کِیلوں سمیت کھینچ کر دیوار سے اُتار دیا۔ اس نے جب فریم کو الٹا کر کے دیکھا تو اس سے کم و بیش ایک بہت بڑی چیخ نکل گئی۔

اُس فریم کے پیچھے اُس کی ماں کی تصویر تھی، جو اس کے ابّا نے وہاں اپنی تصویر کے پیچھے چُھپا دی تھی۔ اپنی ماں کی تصویر دیکھ کر یکایک اس کی آنکھوں میں اشک اُمڈ آئے۔ اس نے مُڑ کر پلنگ پہ بیٹھی عورت کے چہرے کی طرف دیکھا، جس کی شکل ہُوبہو اس کی ماں کے جیسی تھی۔ فوٹو میں اس کی ماں کا چہرا اُتنا ہی خوبصورت اور جوان تھا، جیسا اس پلنگ پر بیٹھی اُس خاتُون کا۔ وہ زیادہ دیکھ نہ سکا۔ دیوار میں فریم کو اُسی، اپنے باپ کی تصویر والی سائیڈ پہ لٹکا کر واپس پلٹا، تو اُس کو اپنے باپ کی نظروں سے خوف محسوس ہوا۔ وہ کانپتا کپکپاتا پلنگ پر آیا اور وہاں بیٹھی عورت کے پیچھے چُھپ کر ویسے ہی اَشک بہانے لگا، جیسے وہ کبھی شرم کے مارے اپنی ماں کے پیچھے چُھپا کرتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).