بیٹے کی جلاوطنی پر باپ کیوں خوش ہوتا ہے؟


Dr Sher Shah – First from the left

ایک دفعہ پھر عامر کے ساتھ میں بھی پریشان ہوگیا۔ پاکستان میں یا تو رشتہ داری فوجیوں سے ہونی چاہیے یا پھر سرداروں، وڈیروں، مخدوم زادوں یا سجادہ نشینوں سے تعلقات ضروری ہیں۔ عامر کراچی کے ناظم آباد کا رہنے والا، متوسط گھرانے کا ذہین اور محنتی آدمی۔ جس کے والد نے ایمانداری سے اپنے سرکاری ملازمت کے فرائض انجام دیے اور تنگدستی کے ساتھ اپنے چھ بچوں کو تعلیم دے کر اس قابل کیا کہ وہ نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑے ہوں بلکہ ملک و قوم کے بھی کام آسکیں۔

عامر کے دو بڑے بھائیوں نے انجینئرنگ میں این ای ڈی یونیورسٹی سے ڈگری لی جس کے بعد امریکا گئے تو پھر واپس نہیں آئے۔ عامر کے چھوٹے بھائی نے بھی کمپیوٹر میں ڈگری لی۔ عامر جب انگلینڈ میں ہی تھا تو اس کے بھائیوں کی وجہ سے پورے خاندان کوگرین کارڈ مل گیا۔ گرین کارڈ کے بل بوتے پر چھوٹا بھائی بھی امریکا چلا گیا اور دونوں بہنوں کی خاندان میں ہی شادی ہوگئی تھی۔ دونوں بہنیں بھی تھوڑے دنوں کے بعد اپنے شوہروں کو لے کر امریکا چلی گئی تھیں۔ ماں باپ شروع میں دو تین دفعہ امریکا گئے مگر بوڑھوں کے لیے امریکا میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ لوگ وہاں زیادہ دن نہیں رہ سکتے تھے۔ اب وہ لوگ ناظم آباد کے اسی چار سو گز کے مکان میں اکیلے رہتے اوربچے انہیں ملنے کے لیے آتے تھے۔ ان کا تو یہی خیال تھا کہ عامر بھی کبھی واپس نہیں آئے گا۔

انگلینڈ سے عامر واپس ناظم آباد ہی آیا اورآنے کے بعد ڈیفنس میں خیابانِ شجاعت میں زمین لے کر مکان بنانا شروع کردیا تھا۔ عامر کے والد کو بھی ایک مشغلہ ہاتھ آگیا اور وہ بڑی محنت سے مکان بننے کے کام کی نگرانی کرنے لگے۔

ایسے میں ممکن نہیں تھا کہ عامر چانڈکا میڈیکل کالج میں جا کر پڑھائے۔ لوگوں نے بہت کہا کہ جا کر صرف جوائن کرلیں۔ اس قسم کا انتظام ہوجائے گا کہ ان کی آدھی تنخواہ انہیں ملے گی اور حاضری بھی لگتی رہے گی۔ دو سال کے بعد وہاں سے ٹرانسفر بھی کرایا جاسکتا ہے۔ عامر یا کسی بھی شریف آدمی کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا۔ لیکن ہمیں نہیں پتا تھا کہ اسی طرح سے نظام چل رہا ہے۔ لوگ گھروں پہ بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں جس کا کچھ حصہ اوپر سے لے کر نیچے تک بٹتا ہے۔ رہا عوام اور ان کا علاج، کالج اورطالب علموں کی پڑھائی، یہ ساری بے کار باتیں ہیں۔ موہنجودڑو کے عوام کی کون سی سرجری ہوئی تھی۔ وہاں کون سا میڈیکل کالج تھا۔ اتنی بڑی تہذیب تھی ان کی، ان سب چیزوں کے بغیر۔

ہم دونوں نے ہی سوچا تھا کہ تھوڑے دن کے لیے وہاں ضرور کام کرنا چاہیے تاکہ اندازہ تو ہو کہ وہاں کس طرح کے مسائل ہیں؟ کیا وہاں کام بھی ہوسکتا ہے؟ کیوں کہ کراچی میں رہتے ہوئے ہمیں تو پتا بھی نہیں تھا کہ کراچی کے باہر اندرونِ سندھ میں لوگ کیسے رہتے ہیں، ان کے کیا مسائل ہیں، وہاں کس طرح کام ہوسکتا ہے؟ ہم نے سوچا کہ کوشش ضرور کریں گے کہ وہاں کام کرسکیں۔ وہاں جوائن کرکے آدھی تنخواہ صحت کے محکمے کے افسروں کوکھلانے پلانے کا کوئی بھی پروگرام نہیں تھا اس کا۔

ہم دونوں پروگرام بنا کر ایک دن صبح کی پی آئی اے کی فلائٹ سے لاڑکانہ گئے تھے۔

یہ کوئی اچھا تجربہ نہیں تھا۔ ایئرپورٹ سے ہی لوگوں نے کہہ دیا کہ لاڑکانہ کے راستے میں بے شمار ڈاکو ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بھی اغوا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا صرف دن دن کی روشنی میں لاڑکانہ جائیں۔ پی آئی اے کی گاڑی کو پولیس ی حفاظت بھی مہیا کی جاتی تھی۔

ہم دونوں نے لاڑکانہ پہنچ کر وہاں کے ہوٹل سپنا میں کمرہ لیا اورپیدل ہی کالج کی طرف چل نکلے۔ لاڑکانہ شہر جس کے بارے میں مشہور تھا کہ بھٹو صاحب نے جسے اپنے دورِ حکومت میں پیرس بنادیا ہے محض گندگی اور ابلتے ہوئے گٹروں کا شہر تھا۔ موہنجودڑو بنانے والوں کے بیٹوں، بیٹیوں نے جس طرح سے اپنے شہر کو پامال کیا ہوا تھا اس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے پرکھوں نے پانچ ہزار سال پہلا ایسا شہر بنایا ہوگا جو اپنی مثال آپ تھا۔

میں نے سوچا کہ ہم لوگ بھی کتنے نا انصاف ہیں، لاڑکانہ والوں نے اپنے شہر تک کا خیال نہیں کیا۔ میڈیکل کالج تو بنادیا مگرمیڈیکل کالج کو چلانے کے لیے وہ لوازمات نہیں مہیا کیے جن کی بنیاد پر ادارے چلتے ہیں اورپھانسی چڑھانے والوں نے نفرت کی وہ لہر چلائی کہ ہم لوگ جیسے پڑھے لکھے لوگ بھی اسی پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے کہ سندھ کی ساری دولت، کراچی میں جمع ہونے والے سارے ٹیکس لاڑکانہ پر لگائے جارہے ہیں۔

شہر سے کالج کا راستہ مشکل سے آدھے گھنٹے کا تھا۔ کالج میں پرنسپل صاحب نہیں تھے۔ کچھ دن پہلے کسی بات پہ لڑکے ان کے کمرے میں گھس گئے تھے، ان کی ٹیبل الٹ دی تھی، انہیں مارا تھا کہ فائنل ایئر کے امتحان میں لڑکے فیل کیوں ہوتے ہیں، انہیں پاس کرنا ہوگا۔ اس دن کے بعد سے وہ کالج نہیں آئے۔ انہوں نے لڑکوں کو پاس کرنے سے منع کردیا تھا مگر صحت کے محکمے کی سفارش پہ یونیورسٹی نے خصوصی رعایتی نمبر دے کر لڑکوں کو پاس کردیا تھا۔ پرنسپل صاحب کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

وائس پرنسپل سے ملاقات ہوئی وہ شریف آدمی تھا۔ اس نے بتایا کہ حالات اچھے نہیں ہیں آج کل۔ سارے صوبے میں نفرت کی آگ لگی ہوئی ہے۔ اردو بولنے والا کتنا بھی اچھا ہو لوگ اسے خوش آمدید نہیں کہتے۔ اس شریف آدمی نے کالج اور ہسپتال کا دورہ بھی کرایا۔ باتوں باتوں میں اس نے یہ بھی بتایا کہ طلبہ تنظیمیں ہیں جنہوں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ وہ اردو بولنے والے استادوں سے پڑھیں گے بھی نہیں۔ جبکہ زیادہ ترطلبہ پڑھنا چاہتے ہیں۔

انہیں اپنی کمزوریوں کا احساس ہے مگر سیاست کی ہوا ایسی ہے کہ کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ کراچی کے میڈیکل کالجوں میں جب بھی کچھ ہوتا ہے اس کے ردعمل کے طور پر فوری طور پر یہاں بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے۔ کراچی میں تو لوگ نفرت دل میں لیے ہاتھ ملا لیتے ہیں، یہاں پہ ابھی تک قبائلی نظام ہے۔ نفرت دلوں سے نہیں جاتی ہے اور عمل میں بھی رہتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5