بیٹے کی جلاوطنی پر باپ کیوں خوش ہوتا ہے؟


”یار پہلے میں سوچتا تھا اگر مجھے پاکستان میں ہی پیدا کرنا تھا بھگوان نے تو ہندو کے گھر کیوں پیدا کیا، کسی مسلمان کے گھر پیدا کیا ہوتا۔ اقلیت کی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے۔ ہمیشہ خوف و ہراس، ہمیشہ ڈرے ڈرے، ہمیشہ جھکے جھکے مگر آج عامر کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں میں ہندو ہی بھلا۔ کوئی ہندو تو مجھے نہیں مارے گا۔ بھارت میں کچھ ہوا تو شاید کسی مسلمان کے ہاتھوں مارا جاؤں مگر روز روز تو اس طرح سے نہیں مروں گا جیسے عامر مر رہا ہے۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ میں نے سوچا بھی نہیں ہے کہ کبھی گھر سے نکلتے ہوئے آزو بازو دیکھوں۔ گاڑی کے پیچھے نظر رکھا کروں۔ کبھی کوئی ڈانٹ دے تو پریشان ہوجاؤں۔ کبھی سنی کے دھوکے میں شیعہ کے ہاتھوں مرجاؤں۔ کبھی شیعہ کے دھوکے میں سنی مار ڈالے۔ سندھی کو صرف اس لیے ماردیا جائے کہ سندھی ہے۔ مہاجر اس لیے مرجائے کہ مہاجر ہے۔ پھر مہاجروں میں بھی کوئی اس لیے مرجائے کہ کس طرح کا مہاجر ہے۔ یوپی کا ہے کہ بہار کا، میمن ہے کہ گجراتی۔ “

”رمیش کی بات صحیح ہے۔ “ عامر نے بڑے دکھ سے کہا۔ ”یقین کرو میں نے اپنی پوری زندگی میں ابو کو اتنا پریشان نہیں دیکھا ہے۔ وہ گیٹ پر کھڑے رہتے ہیں، رات کو سوتے نہیں۔ دن کو میری خیریت کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ یہ عجیب دعائے نیم شب ہے، یہ کیسی وحشتِ قبر ہے کہ کبھی ختم ہوتی ہی نہیں۔ کل تو انہوں نے مجھے تاکید سے کہا کہ میں ضرور بہ ضرور انگلینڈ واپس چلا جاؤں۔ اس میں انہیں سکون اور آرام ملے گا اور آج جب میں ہسپتال سے نکلا ہوں تو سب سے پہلے جن لوگوں پر نظر پڑی وہ اسکوٹر پر سوار دو جوان تھے جو میری گاڑی کے پیچھے پیچھے ہی چلے آرہے تھے۔ تم اندازہ نہیں کرسکتے ہو کہ میرا کیا حال ہوا۔ میں سڑکوں پر گاڑیوں کے ہجوم میں گھسنے کی کوشش میں تھا اور وہ دونوں میرے پیچھے تھے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ اب یا تو مرجاؤں گا یا ان سے بچ کر نکل جاؤں گا۔ ان پر نظر رکھتے ہوئے میں نے خاص طور پر سگنل توڑا شاید پولیس والے ہی میرے پیچھے لگ جائیں مگر وہ بھی سگنل توڑ کر میرے پیچھے لگے رہے۔ کارساز سے نکل کر مجھے یہی سمجھ میں آیا کہ اب میں ایئرپورٹ ہی چلا جاؤں جہاں سے واپس نہ آسکوں۔

”اوپر جانے سے تو اچھا ہے کہ میں لندن ہی چلا جاؤں۔ میں نے بہت تیز ڈرائیونگ کی تھی وہ بھی تیز تھے مگر ایئرپورٹ کے موڑ سے جیسے ہی میں نے موڑا وہ مجھے غور سے دیکھتے ہوئے آگے نکل گئے تھے۔ میں ایئرپورٹ پہ گاڑی چیک کرتے ہوے ء نیچے اتر آیا اور گارڈ کے ساتھ کھڑا ہوکر دیکھا دور دور تک وہ نہیں تھے۔ گاڑی پارک کرکے رمیش کے کمرے میں آکر بیٹھا ہوں اور پھر تمہیں فون کیا ہے۔ اب میں کراچی میں نہیں رہ سکوں گا۔ “ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

ہم نے کھانا کھایا، چائے پی۔ اتنے میں نسرین بچوں کے ساتھ آگئی اور ہم نے بوجھل دلوں اور بھری آنکھوں کے ساتھ عامر کو کراچی سے ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔

اس نے کہا، ”لندن جا کر وہ اپنے والد کے لیے ویزا بھیجے گا۔ “ میں اپنے ڈرائیور کے ساتھ نسرین کی گاڑی لے کر خیابانِ شجاعت عامر کے گھر پہنچا۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے کسی کھنڈر میں آگیا ہوں، ایسا ویرانہ تو میں نے بھی محسوس نہیں کیا تھا۔ نوکر نے گیٹ کھولا۔ انکل اپنے کمرے میں قرآن ہاتھوں میں لیے خاموش بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر کلام پاک انہوں نے بند کیا، چوما اور الماری کے اوپر رکھ کر بولے، ”کیا جہاز چلا گیا؟ “

”جی چلا گیا۔ “ میں نے جواب دیا۔

”شکر ہے باری تعالیٰ۔ “ ان کے چہرے پر جیسے بہار آگئی۔ آنکھیں چمک رہی تھیں اور خوشی سے چہرہ جیسے جل اٹھا۔ ”بہت اچھا کیا اس نے۔ میں کتنے سال زندہ رہوں گا۔ ابھی تو اس نے زندہ رہنا ہے، پوری زندگی ہے اس کی۔ اس کے تو بچے بھی چھوٹے ہیں ان کی خوشی تو دیکھ لے گا، میرا کیا ہے۔ بہت شکر ہے اوپر والے کا اس نے میری سن لی۔ مجھے اس عمر میں جوان بیٹے کی لاش اٹھانے کا شوق نہیں ہے۔ “

میں نے پہلی دفعہ کسی باپ کواپنے بیٹے کی جلاوطنی پر اتنا خوش دیکھا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5