سلامتی کونسل اجلاس کا جشن کب تک؟


پاکستان کی تشفی کے اعتبار سے مسئلہ کشمیر دو صورتوں میں ہی حل ہو سکتا ہے۔
یا تو کشمیری مزاحمت انڈیا کو سیاسی و اقتصادی طور پر اتنی مہنگی پڑ جائے کہ وہ کسی بھی آبرو بچاؤ فارمولے کے سہارے کشمیر کی جان چھوڑ دے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سفارتی و اقتصادی دباؤ انڈیا کے لئے اتنا ناقابلِ برداشت ہو جائے کہ وہ بدنامی اور دنیا سے کٹ جانے کے امکان کی تاب نہ لا سکے اور کشمیر کے کسی سہہ طرفہ حل پر آمادہ ہو جائِے۔

پاکستان کا خیال ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں آج بھی اس مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں اقوامِ متحدہ چارٹر کے باب ششم کے تحت منظور کی گئی ہیں۔

ان کی نوعیت محض اخلاقی و سفارشی ہے۔ اگر کوئی فریق ان قراردادوں پر عمل نہیں کرتا تو اس کے خلاف اقوامِ متحدہ کوئی ٹھوس تادیبی کارروائی نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کے خلاف منظور کی جانے والی قراردادوں کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے۔

اگر یہی قراردادیں اقوامِ متحدہ چارٹر کے باب ہفتم کے تحت منظور ہوتیں تو پھر ان پر عمل درآمد کے لئے سلامتی کونسل رکن ممالک کو اقتصادی و عسکری طاقت کے استعمال کا حکم بھی دے سکتی تھی۔ جیسا کہ سنہ 1950 کی جنگِ کوریا اور پھر کویت پر سے عراقی قبضہ چھڑوانے والی قراردادوں کے نتیجے میں ہوا۔

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کے دوست یا برادر ممالک کھل کے پاکستان کا ساتھ دیں بھلے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ مگر پاکستان نہ تو امریکہ ہے اور نہ چین کہ اپنی بے پناہ اقتصادی و سیاسی اہمیت یا دباؤ کے بل پر زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے موقف کی چھتری تلے اکٹھا کر سکے۔

کل اور بات تھی لیکن آج برادر سعودی عرب کیوں کشمیر پر پاکستان کی واضح حمائیت کرے جبکہ پاکستان تو تیل بھی ادھار پے لیتا ہے۔ اس کے برعکس انڈیا اٹھائیس ارب ڈالر سالانہ کا سعودی تیل خریدتا ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اگلے دو برس میں انڈیا میں 100 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے فوراً بعد سعودی تیل کمپنی آرامکو انڈین کمپنی ریلائنس کے پٹرولیم کاروبار میں 20 فیصد کی پارٹنر بن گئی۔

برادر متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو تین ارب ڈالر کا ڈپازٹ توازنِ ادائیگی بہتر بنانے کے نام پر دیا ہے جبکہ انڈیا سے اماراتی تجارت کا حجم 50 ارب ڈالر اور امارات میں انڈین سرمایہ کاری کا حجم 55 ارب ڈالر ہے۔ اسی لئے جب عرب امارات کہتا ہے کہ کشمیر انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے تو حیرت کیوں؟

سلامتی کونسل کے مستقل رکن چین اور انڈیا کی تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر ہے۔ چین کیوں انڈیا سے کھلی محاز آرائی چاہے گا؟ چین نے اپنے زیرِ دعویٰ لداخ کی حیثیت میں تبدیلی کا تو سخت بُرا منایا ہے مگر کشمیر کی بابت پاکستان اور انڈیا پر زور دیا ہے کہ وہ دو طرفہ بنیاد پر مسئلے کا پُرامن حل نکالیں۔

سلامتی کونسل کا مستقل رکن روس آج بھی انڈیا کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرتا ہے اور اگلے برس وہ پانچ ارب ڈالر مالیت کا ایس فور ہنڈرڈ میزائیل سسٹم فراہم کر دے گا۔ روس نے بھی یہی سمجھایا ہے کہ دونوں ملک تحمل سے کام لیں۔

انڈیا کو رفال طیارے بیچنے والے سلامتی کونسل کے ایک اور مستقل رکن فرانس اور ایک اور مستقل رکن برطانیہ نے بھی روس والی لائن دہرائی ہے۔

صدر ٹرمپ کا پانچ اگست کے بعد سے کشمیر پر کیا مؤقف ہے۔ کوئی جانتا ہو تو ہمیں بھی بتائے۔

جہاں تک سلامتی کونسل کے دس غیر منتخب ارکان کا معاملہ ہے تو جرمنی ، جنوبی افریقہ ، کویت اور انڈونیشیا سمیت کسی بھی رکن نے اجلاس سے باہر آ کے کیا ایک لفظ بھی منہ سے نکالا ؟

اگر تو مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا پچاس پچپن برس بعد ڈیڑھ گھنٹے کا بنا کسی نئی قرار داد بند کمرے کا اجلاس ہی تاریخی کامیابی ہے تو پھر تو پاکستان جیت گیا۔

اب اس جیت کا جشن کب تک منانا ہے اور اس کے بعد کیا کرنا ہے؟ اپنے بل پر ٹرک روکنا ہے یا ٹرک کی بتی کا تعاقب جاری رکھنا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).