ملائشیا: سکول کی لڑکیاں بد روحوں کے چنگل میں یا ذہنی دباؤ کا شکار



سیتی نورالنساء

Joshua Paul for the BBC
سیتی کہتی ہیں کہ جب بدروح نے انھیں دبوچا تو ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا

رشیدہ کبھی بھی بھُلا نہیں سکتیں کہ ان کی بہترین دوست سیتی نورالنسا کس حال میں تھی۔ ان کے بقول ’سیتی بالکل بے قابو ہو کر زور زور سے چیخ رہی تھی۔ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ ہم اتنے خوفزدہ ہو گئے تھے کہ سیتی کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈر رہے تھے۔‘

رشیدہ اور نورالنسا ہمیشہ سے ایک دوسرے کے بہت قریب رہی ہیں، تاہم گذشتہ ایک سال کے دوران ان دونوں کا رشتہ اور بھی مضبوط ہو گیا ہے۔ رشیدہ کہتی ہیں کہ ’ہم دونوں جب اس واقعے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں اسے بھول کر آگے بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔‘

Short presentational grey line

باہر سے دیکھیں تو سیتی اور رشیدہ کا سکول آپ کو ویسا ہی دکھائی دیتا ہے جیسے ملائشیا کے اس علاقے میں ہائی سکول ہوتے ہیں، یعنی بڑے بڑے درختوں کے سائے میں گھری ہوئی شوخ ہرے رنگ والی عمارت۔

سکول کے سامنے ’آنٹی زین‘ کا ڈھابہ ہے جہاں سے سکول کی لڑکیاں بڑے شوق سے چاول کے مختلف پکوان کھاتی ہیں۔ آنٹی زین بتاتی ہیں کہ گزشتہ سال اُس صبح خاصا حبس تھا، وہ اپنے ٹھیلے پر کھانا تیار کر رہی تھیں کہ اچانک سکول سے چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔

’چیخنے کی آوازیں اتنی زیادہ تھیں کہ انسان بہرہ ہو جائے۔‘


سیتی کا سکول

JOSHUA PAUL FOR THE BBC
سیتی کا سکول ایس ایم کے کتیرہ شہر کی ایک مصروف سڑک کے کنارے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے کم از کم نو لڑکیوں کو دیکھا جنھیں مختلف کمروں سے اٹھا کر باہر لایا جا رہا تھا۔ یہ لڑکیاں ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں اور سب چیخ رہی تھیں۔ ’یہ بڑا دلخراش منظر تھا۔‘

کچھ دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ کوئی پیر صاحب اپنے شاگرد کے ساتھ وہاں پہنچے اور سکول کے اس چھوٹے سے کمرے میں چلے گئے جو نماز کے لیے مختص ہے۔ ’یہ دونوں کئی گھنٹے تک اس کمرے میں موجود رہے۔ اس دن جو ان لڑکیوں پر گزری، مجھے اسے دیکھ کر بچیوں پر بہت ترس آ رہا تھا۔‘


Local vendor

JOSHUA PAUL FOR THE BBC

جولائی 2018 کے اس واقعے کے بعد سے سکول میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

سکول انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’مستقبل میں کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کی غرض سے ہم نے اپنے سکیورٹی انتظامات کا ازسرنو جائزہ لیا اور سٹاف کے ایک اہلکار کو تبدیل بھی کیا۔‘

اہلکار کے مطابق سکیورٹی انتظامات میں بہتری کے علاوہ، سکول میں نماز کا انتظام بھی متعارف کرایا گیا ہے اور بچوں کے لیے نفسیاتی بہبود کی کلاسیں بھی شروع کی گئی ہیں۔

’سب سے پہلے سکیورٹی آتی ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس قسم کے واقعے کے بعد بچوں کی بحالی کے لیے دیگر اقدامات کرنا بھی اہم ہوتا ہے۔‘

اہلکار کی باتوں سے یہ واضح نہیں ہوا کہ روحانی اور نفسیاتی بحالی کی ان کلاسوں میں کیا ہوتا ہے، اور آیا یہ پروگرام ترتیب دینے میں ذہنی امراض کے کسی ماہر سے مشورہ بھی کیا گیا یا نہیں۔ اہلکار نے ہمیں اس حوالے سے مزید معلومات دینے سے انکار کر دیا۔

لیکن رابرٹ بارتھلمیو جیسے ماہرین کا پرزور مطالبہ ہے کہ ملائشیا میں سکولوں کے لڑکے لڑکیوں کو ہسٹیریا جیسے مسائل کے بارے میں تعلیم دینا ضروری ہے، کیونکہ ملک میں یہ مسئلہ خاصا زیادہ ہے۔

مسٹر بارتھلمیو کہتے ہیں ان بچوں کو بتایا جانا چاہیے کہ اجتماعی ہسٹیریا کیوں ہوتا ہے اور یہ کس طرح پھیلتا ہے۔ ’ان کے لیے یا بات سمجھنا بھی اہم ہے کہ ذہنی دباؤ اور پریشانی سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔‘

ہم نے ملائشیا کی وزارتِ تعلیم سے بھی اس حوالے سے رائے جاننے کی کوشش کی، تاہم انھوں نے ابھی تک ہماری درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔


کیلنٹان کے صوبے میں کتیرہ سیکنڈری سکول جیسے 68 سیکنڈری سکول ہیں، لیکن یہ وہ اکیلا سکول نہیں ہے جہاں اجتماعی ہسٹیریا کے واقعات پیش آئے ہیں۔

سنہ 2016 کی ابتدا میں صوبے کے کئی سکولوں میں اس قسم کے واقعات ہوئے تھے، جہاں ایک مقامی رپورٹر کے مطابق ’حکام اتنے زیادہ واقعات پر کنٹرول نہیں کر سکے اور انھیں صوبے کے تمام سکول بند کرنا پڑے۔‘

مذکورہ رپورٹر اور ان کے ساتھی کیمرا مین کو اچھی طرح یاد ہے کہ اس سال اپریل میں یہاں حالات کیا تھے۔

کیمرا مین شائی لِن کہتے ہیں کہ ’یہ اجتماعی ہسٹیریا کا موسم تھا اور ہر طرف اس قسم کے واقعات ہو رہے تھے، اور یہ وبا کی طرح ایک سکول سے دوسرے میں پھیل رہا تھا۔‘

کتیرہ کے قریب کے قصبے پینگکلان چیپا میں ہونے والے واقعے کو ذرائع ابلاغ میں بھی خاصی توجہ دی گئی۔ میڈیا میں آنے والی خبروں میں بتایا جا رہا تھا کہ کس طرح طلبا اور اساتذہ کو سکول کی عمارت کے کسی کونے میں کوئی ’سایہ‘ دکھائی دیتا تھا جس کے بعد کوئی چیز انھیں ’جکڑ‘ لیتی تھی۔ اس سائے یا بدروح سے تقریباً ایک سو طلبا اور اساتذہ متاثر ہوئے تھے۔


Siti Ain and her mother

Joshua Paul for the BBC
سیتی عین (دائیں) کی والدہ سکول کے باہر مشروبات اور دیگر اشیا فروخت کرتی ہیں

پینگکلان چیپا کے سیکنڈری سکول سے تعلیم مکمل کرنے والی ایک لڑکی، سیتی عین بتاتی ہیں کہ ان کا سکول پورے ملائشیا میں وہ سکول تھا جہاں بدروحوں کا سایہ سب سے زیادہ خوفناک تھا۔

سیتی عین کی عمر اب 18 سال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ بدروحوں کا خوف صرف چند گھنٹے کا ہی تھا، لیکن لڑکیوں کی زندگی معمول پر واپس آنے میں کئی ماہ لگ گئے تھے۔

باسکٹ بال کے کورٹ کے قریب کٹے ہوئے درختوں کے تنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیتی عین نے بتایا کہ ’یہ وہ جگہ ہے جہاں سے یہ سب شروع ہوا تھا۔ میری سہیلیوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہاں لگے ہوئے گھنے درختوں کے درمیان ایک عورت کو کھڑے دیکھا تھا۔‘

’میں وہ سایہ دیکھ نہیں سکی جو میری سہیلیاں دیکھ رہی تھیں، لیکن میری دوستوں پر اس سائے کے اثرات صاف نظر آ رہے تھے۔‘


Tree stumps

JOSHUA PAUL FOR THE BBC
باسکٹ بال کے کورٹ کے قریب کٹے ہوئے درختوں کی شاخیں

ملائشیا میں بُھوتوں کی کہانیوں کا سلسلہ بہت پرانا ہے اور اس کی جڑیں یہاں کی قدیم مذہبی روایات اور لوک کہانیوں میں بھی نظر آتی ہیں۔

یہاں بچے اُن مردہ بچوں کی کہانیاں سنتے رہتے ہیں جنھیں مقامی زبان میں ’توئل‘ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ خون چوسنے والی ایک خوفناک چڑیل کے قصے بھی سنتے رہتے ہیں جو انسانوں کو زندہ کھا جاتی ہے۔

اس قسم کی ڈراؤنی کہانیوں میں پرانے گھنے درختوں اور قبرستانوں کا ذکر بہت ہوتا ہے۔ اس قسم کے مقامات کا ذکر بچوں میں خوف پیدا کر دیتا ہے اور بھوت پریت میں بچوں کا یقین مزید پختہ ہوتا جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp